ساجد کہتا ہے ''گھر ویران ہو جاتے ہیں،کاش مڈل کلاس نہ ہوتی‘‘ اور پھر اپنا فلسفہ بیان کرنا شروع کر دیتا ہے۔ ساجد کی ماں کا تنور تھا وہ تنور پر روٹیاں لگا کر ساجد اور اس کے چھوٹے بہن‘ بھائیوں کا پیٹ پالتی تھی۔ یہ اس کی ماں کا خاندانی پیشہ تھا۔ کیا لذت تھی اس کی چھنڈ کے لگائی ہوئی روٹی میں اور کیا خستہ پکوان کی طرح وہ روٹی ہوتی تھی جسے ہم پنجابی روٹی کہتے ہیں جبکہ فارسی میں یہی نان ہے۔
اُس کا نام بہشت بی بی تھا اور ہر کوئی اسے مرنے سے پہلے بھی بہشتن کہتا تھا اور اس کی وفات کے بعد بھی۔ ساجد اس کا پہلوٹھی کا بیٹا تھا، سوکھے پاپڑ اور چارپائیوں پر خشک ہوتی روٹی پانی کے ساتھ کھا کر بڑا ہونے والا... اگر وہ فلاسفر ٹائپ آدمی نہ بنتا تو یقینا حیرت ہوتی۔ عشروں پہلے وہ روزگار کے سلسلے میں کراچی گیا تو وہیں کا ہو کر رہ گیا۔ وہیں اس کی شادی ہوئی، وہیں اس کے بچے پیدا ہوئے‘ پلے بڑھے۔ وہ اپنی بیگم اور بچوں کے ساتھ صرف ایک بار اپنے گائوں آیا تھا‘ دوبارہ کبھی نہیں آیا۔ وہ اپنا فلسفہ بیان کرنا شروع ہوتا ہے تو بولے چلے جاتا ہے۔
بس دو کلاسیں ہوتیں؛ اپر کلاس اور لوئر کلاس۔ یہ مڈل کلاس تو ایک جدوجہد‘ ایک سعی‘ ایک جنگ کی حالت میں رہنے والی کلاس ہے۔ اسے چین‘ سکون اور اطمینان کبھی نصیب نہیں ہوتا۔ پہلے کچھ پانے کی جستجو میں سب کچھ گنوا دیتے ہیں‘ جب سب کچھ یا بہت کچھ پا لیتے ہیں تو بے سر و سامانی کو اور بے سر و سامانی کے وقت کو یاد کرتے رہتے ہیں۔ اول یہ کوشش ہوتی ہے کہ معاشرے میں کچھ مقام بنے‘ اس تگ و دو میں وہ اپنا گھر‘ اپنا ضلع‘ اپنا صوبہ اور بالآخر اپنا ملک بھی چھوڑ جاتے ہیں‘ ہمیشہ کے لیے‘ کبھی واپس نہ آنے کے لیے‘ اپنے اندر ایک مستقل روگ اور رنج و الم پالنے کے لیے۔
اپر کلاس کا یہ المیہ نہیں ہوتا، وہ شہر اور اپنے علاقے سے جڑی رہتی ہے۔ ان لوگوں کو پرانی جگہ سے کچھ حاصل کرنے کے لیے اس جگہ‘ جائے پیدائش اور جائے مسکن کو چھوڑنا نہیں پڑتا۔ وہ دو جگہوں پر رہتے ہیں اور ان کی دوستیاں‘ رشتہ داریاں دونوں جگہ پر ہوتی ہیں جن کو وہ بخوبی نبھا سکتے ہیں، نئی جگہیں ان کے راستے میں مزاحم نہیں معاون ثابت ہوتی ہیں۔ ان کا نئے مسکنوں میں‘ شہروں میں‘ براعظموں میں رہ کر بھی اپنے علاقے سے ربط قائم رہتا ہے کہ وہ مقام ان کی طاقت کا مرکز ہوتے ہیں۔
لوئر کلاس کا معاملہ ان دونوں سے مختلف ہے‘ ایک تو وہ مڈل کلاس کی طرح بڑے خواب نہیں پالتی اور اپر کلاس کی زندگی کا تصور بھی نہیں کر سکتی۔ مڈل کلاس چونکہ جدوجہد پر یقین رکھتی ہے لہٰذا وہ اپر کلاس کا مقابلہ اور ان سے موازنہ کرنے کی اہلیت کے جنون میں مبتلا ہوتی ہے لہذا وہ نہ شہروں میں نقل مکانی کو قبول کرتی ہے نہ چھوڑے گئے گھروں‘ جائے پیدائش اور جائے مسکن کو بھول پاتی ہے۔ یہ سچ ہے کہ دنیا میں ترقی اسی مڈل کلاس کی کوششوں کی مرہونِ منت ہے مگر اس کی قیمت انہیں عمر بھر اور زندگی بھر کے ملال اور افسوس کی صورت میں ادا کرنا پڑتی ہے۔
پہلے مرحلے میں مڈل کلاس والوں کو اپنے خاندان کے ساتھ رہنے کی قربانی دینا پڑتی ہے۔ خاندان کے افراد بہتر مستقبل کے لیے ملک کے مختلف شہروں اور کبھی دیارِ غیر میں سکونت اختیار کرتے ہیں؛ کسی کو کسی دوسرے صوبے کے کسی شہر میں ملازمت ملی تو وہ وہیں آباد ہو گیا‘ دوسرے کو کسی اور ضلع میں ملازمت ملی تو وہ وہاں چلاگیا؛ البتہ والدین کی زندگی تک ان کا ایک مرکز باقی رہتا ہے۔ وہ عید‘ بقرعید پر بڑے اہتمام سے اپنے آبائی علاقوں میں عید منانے کی تیاری شروع کر دیتے ہیں۔ سال میں کم از کم دو دفعہ اس پرانے گھر میں خوب ہلّہ گلّہ ہوتا ہے اور والدین‘جو دادا ابو اور دادی اماں کا روپ اختیار کر چکے ہوتے ہیں‘ کی خوشی دیدنی ہوتی ہے۔ جس دن پوتے پوتیوں کی فوج ظفر موج وہاں پہنچتی ہے تو ان دادا دادی کی عید سے پہلے عید ہو جاتی ہے۔ ماں خوشی سے پھولے نہیں سماتی کہ ایک بیٹا کراچی‘ ایک لاہور اور تیسرا کسی اور جگہ سے ملنے آیا ہے۔ پرانے دوستوں سے خوب گپ شپ ہوتی ہے‘ وہی دوست جن کے ساتھ وہ سکول میں پڑھتے تھے‘ جن کے ساتھ میں مسجد میں ناظرہ قرآن پڑھتے تھے‘ ان کے ساتھ اپنی خوشیوں‘ تجربات‘ آسودگیوں اور ناآسودگیوں کے قصے چھیڑتے ہیں۔ اپنے سکول ٹیچر سے ملتے ہیں‘ اپنی مسجد کے امام سے ملاقات کرتے ہیں اور موقع مل جائے تو بچپن کی محبت بھری گلیوں میں ایک آدھ چکر لگاتے ہیں۔ بعض اس گلی کو حسرت سے دیکھتے ہیں جن میں کسی رہنے والے کے ساتھ زندگی بھر ساتھ رہنے کی قسمیں کھائی ہوتی ہیں۔ وہ ان قسموں کا کفارہ ادا کرنا چاہتے ہیں‘ جب کفارے کی کوئی صورت نہیں بنتی تو اسی گلی میں اپنی آنکھیں بھیگی کر کے نکل آتے ہیں۔ اس وعدے کے ساتھ کہ زندگی رہی تو اس گلی سے اپنا آنسوئوں بھرا تعلق قائم رکھیں گے ۔
اب ساجد کا ایک بیٹا شکاگو میں ہوتا ہے‘ وہ کوشش کر رہا ہے کہ اپنے باپ کو مستقل طور پر اپنے پاس بلا لے مگر وہ بضد ہے اور بیٹے کو سمجھاتا ہے کہ اب میں کراچی میں سیٹل ہو چکا ہوں، میری دوستیاں‘ میری رشتہ داریاں یہاں ہیں۔ آٹھ‘ دس آدمی مجھے جانتے ہیں۔ وہ میرے دکھ درد میں شریک ہوتے ہیں۔ میں اگر بیمار ہوتا ہوں تو دوست کا بیٹا مجھے ڈاکٹر کے پاس لے جاتا ہے۔ جس دن بینک سے پنشن لینا ہوتی ہے اس دن بھی وہ وقت نکال کر پورے عزت و احترام کے ساتھ مجھے ساتھ لے جاتا ہے۔ رات کو کبھی کبھی چکر لگا لیتا ہے‘ میں یہاں سکون سے ہوں‘ اب مجھ میں اتنی ہمت اور میری بوڑھی ہڈیوں میں اتنی طاقت نہیں کہ میں تمہارے پاس سات سمندر پار آ سکوں۔ اس کا بیٹا اسے بلاناغہ بتاتا ہے: شکاگو آنا کوئی اتنا مشکل کام نہیں ہے‘ میں آپ کو کنیکٹنگ فلائٹ کا شیڈول بھیج رہا ہوں‘ ایک دفعہ دیکھ لیجیے۔ ساجد نے مجھے بتایا کہ پچھلے چھ سالوں میں اس کا بیٹا ایک دفعہ اس سے ملنے آیا ہے۔ اس ترقی‘ اس زندگی‘ اس معیارِ زندگی کے لیے اتنی قیمت صرف مڈل کلاس ہی افورڈ کر سکتی ہے۔
پھر ایک گھر ویران ہو جاتا ہے۔ دادا‘ دادی اگلے جہان سدھار جاتے ہیں اور وہ گلی جہاں سے وہ آنکھیں بھگو کر نکلے تھے‘ ہمیشہ کے لیے ان کی نظروں سے اوجھل ہو جاتی ہے۔ جو دور دراز گیا وہ وہیں دفن ہو گیا‘ جو نزدیکی شہروں میں آباد ہوئے ان کی میتیں آبائی علاقوں کی جانب روانہ کر دی جاتی ہیں۔
افتخار حیدر ہمارے دوست ہیں‘ انہوں یہ مڈل کلاس کا فلسفہ اس نظم میں بیان کر دیا ہے۔ وہ خود بھی ساجد کی اور ہماری طرح ایمبولینس پر ہی واپس جائے گا۔
جنم استھان کی راہوں میں
میں آؤں گا‘میں آتا رہوں گا
تیری اک مینار والی مسجد کے کچے فرش سے پیشانی مس کرنے
تیری مٹی کی ڈھیریوں پہ فاتحہ پڑھنے
کچھ گھروں میں گزشتگان کے لیے بچھائی پھوہڑیوں پہ دعا کہنے
کھٹے پتلے دہی اور شکّر میں ڈوبی سوّیاں کھانے
بچپن کے ہمجولیوں سے جپھیاں ڈالنے
سفید پگڑیوں والے بابوں کے رعشہ زدہ ہاتھ چومنے
ماتھے پہ بائیں ہاتھ کا چھجّا بنا کر پہچاننے والی مائیوں کا پیار لینے
اپنے دور کی مٹیاروں کی ڈھلتی جوانیوں کا مشاہدہ کرنے
مستقبل کو گلیوں میں پھلتا پھولتا دیکھنے
جب جب زندگی نے مہلت دی
میں آؤں گا‘ آتا رہوں گا
اور پھر میں ایک دن آؤں گا ایمبولینس کا ہوٹر بجاتے ہوئے
ٹاہلیوں کے جھنڈ میں آسودہ ہونے!