بہت ساری سلطنتوں سے ہوتا ہوا میں ایسی سلطنت میں وارد ہوا جہاں کسی فرمانروا کی رسمِ تاج پوشی تھی۔ لوگوں میں جوش و خروش ہے۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ شاہ حمار سوار نام ہے اس فرمانروا کا اور مرحوم بادشاہ کا سب سے چھوٹا بیٹا ہے۔ شاہ حمار سوار‘ اس نے اپنا نام خود منتخب کیا ہے۔ اور بہت سے نام تھے مگر اس کی دانش کا اندازہ اس سے لگائیے کہ نام چنا بھی تو حمار سوار۔ یہ ملک سوداگران کی جنت ہے‘ دور دور سے سوداگر آتے ہیں‘ اپنے مطلب کی چیزیں خرید کر خوش ہوتے ہیں۔ جب استفسار کیا تو معلوم ہوا یہاں کھیت ویران پڑے ہیں‘ کسی قسم کی کوئی فصل کاشت نہیں کی جاتی‘ ہر چیز دور دیسوں سے آتی ہے اور منہ بولی قیمت پاتی ہے۔ جب پوچھا کہ جب یہاں کوئی چیز پیدا ہی نہیں ہوتی تو دور دور کے تجار یہاں کیا کرنے آتے ہیں؟ان کے کام کی وہ کون سی چیز ہے جو انہیں کشاں کشاں یہاں کھینچ لاتی ہے؟معلوم ہوا یہاں لوگ بکتے ہیں۔ یا للعجب یہ کون سا دیس ہے اور کون سے لوگ ہیں۔
پوچھنے پر معلوم ہوا کہ اس سلطنت کا نام ملکِ حماراں ہے‘یہاں ایک ہی قسم کے حمار پائے جاتے ہیں یعنی ان میں کسی قسم کا فرق نہیں۔ یہاں کے باشندوں کی زبان عجیب ہے‘ اس میں الفاظ نہیں ہوتے ہیں۔ وہ کون سی زبان میں اپنا اظہار کرتے ہیں‘ اس کا ذکر آخر میں آئے گا۔ خوشی‘ غمی کا اظہار بھی اسی بے لفظ زبان میں کرتے ہیں۔ نام تو اس ملک کا جدا تھا ہی اس کی زبان بھی ساری دنیا کی سلطنتوں سے الگ ہے۔ اس بے لفظ زبان کا فائدہ یہ ہوا ہے کہ یہاں شاعر نام کی مخلوق ہی نہیں۔ البتہ معلوم ہوا کہ شاعر تو بہت سارے ہیں اور انہوں نے اپنی شاعری الفاظ میں ہی کی تھی مگر جیسے خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے یہی حال شعرا کا ہوا‘ اب وہ اسی بے لفظ زبانی غزل کہتے ہیں۔
میں ہجوم میں شامل ہو گیا تاکہ اصل صورت احوال کا بیان قلمبند ہو۔ رات کی تکان ابھی آنکھوں میں ہے۔ میں سرائے بھٹیارن سے علی الصباح اٹھ کر یہاں پہنچا ہوں۔ اب اس ایک دن کی روداد لکھتا ہوں:
ملکِ حماراں میں صبح ہو چکی ہے۔ شاہِ حمار سوار کی سواری کی آمد آمد ہے دارالسلطنت ہے کہ شیشے کی طرح چمک اٹھا ہے۔ ایک دن قبل فرماں روائے ملکِ حماراں کی موت کے غم میں ماتم کی گھڑی تھی۔ پرانے فرمانروا کا جنازہ پڑا تھا مگر جنازہ اٹھایا نہیں جا رہا تھا۔ استفسار پر معلوم ہوا کہ خرانِ ریاست بھی اپنے مالکان کے ہمراہ اپنے جذبات کے اظہار کے طالب ہیں مگر مالکان انہیں اظہارِ ڈھینچوں ڈھینچوں سے باز رکھنے پر تلے ہوئے ہیں۔ معلوم ہوا کہ مالکانِ خران کا حکم ہے کہ احاطۂ قیام میں اپنے جذبات کا اظہار کر لیں مگر آواز دھیمی رکھی جائے۔ خران کا موقف تھا کہ چونکہ ان کے مالکان بھی اسی آواز یعنی ڈھینچوں ڈھینچوں پر قادر ہیں اور شہر کی گلیوں میں اپنی صدا بلند کرتے ہیں لہٰذا انہیں بھی شہر میں آ کر اپنے جذبات کے اظہار کا موقع دیا جائے۔ علاوہ ازیں وہ کسی اور طریقے سے اپنے جذباتِ حقیقی کے اظہار سے قاصر ہیں لہٰذا ان کو یعنی خران کو اپنے مالکان کے ہمراہ آزادیٔ اظہار کا موقع دیا جائے۔ خران بے قابو ہو رہے تھے‘ اہلِ خران قدیمی وضع کے لوگ تھے اور جدید نظریات سے نابلد‘ لہٰذا خران کی 'تواضع‘ چوبِ شاہی سے کر رہے تھے۔ مالکان اور خران کی باہمی آویزش کی وجہ سے منادی کرانے میں دیر ہو رہی تھی بلکہ یہ بھی معلوم ہوا کہ معاملہ وزیر بے تدبیر کے پاس پہنچا دیا گیا ہے اور وہ کسی وقت یہاں آنے والے ہیں تا کہ خران اور مالکان کو کوئی درمیانی راہ دستیاب ہو‘ صلح کا سامان بہم ہو اور کاروبارِ مملکت پہلے کی طرح رواں دواں رہے۔ معاملہ بہت نازک ہو چکا تھا کہ خران کسی صورت مالکان کی بات ماننے پر تیار نہ تھے۔ آخر وزیر بے تدبیر کا ظہور ہوا۔ فیصلہ کیا گیا کہ مالکان خران کی آواز اور خران مالکان کی صدائے خوش کن میں اپنے جذبات کا اظہار کر سکیں گے۔
سب کے علم میں تھا کہ کل شام فرماں روا کا جنازہ اٹھا تھا مگر کسی کی آنکھ میں آنسو نہیں تھا۔ نئے حاکم کی رسم تاج پوشی ہونے والی تھی جس کی منادی کا انتظام کیا جا چکا تھا۔ کچھ پرانے بھونپوئوں‘ جو شاہی کباڑ خانے میں پڑے تھے‘ کی گرد جھاڑ کر اعلان کرنے والوں کو عنایت کیے جانے کی ساعت سعید سامنے تھی۔ ناگاہ ریاست کے کچھ ننگ دھڑنگ انسان نما لوگ نمودار ہوئے‘ ان کا کہنا تھا ہم اہلِ خر اگرچہ نہیں؛ تاہم ان سے کچھ کم نہیں‘ اعلان یا منادی کرنے سے پہلے ہماری درخواست دل پذیر کی شنوائی ہو۔ ریاست کا ایک نمائندہ‘ جس کی ایک آنکھ فرماں روا نے نکلوا دی تھی تا کہ وہ اہل خران اور خران کو ایک نظر سے دیکھ سکے‘ نمودار ہوا۔ اس نے ننگ دھڑنگ گروہ کے سربراہ‘ جس کے دانت گر چکے تھے اور بولنے میں دشواری محسوس کر رہا تھا‘ کو اشارے سے بلایا۔ سربراہ کے جسم میں طاقت کا طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔ جو چند ثانیے قبل بولنے میں دقت محسوس کر رہا تھا اور بات بات پر اس کو دانتوں کو سنبھالنا پڑ رہا تھا‘ چیتے کی سی تیزی سے حاضر ہوا۔ تین دفعہ کورنش بجا کر سامنے کھڑا ہو گیا۔ وہ منتظر تھا کہ نئے حاکم کا پرانا نمائندہ دہن مبارک سے کچھ ارشاد کرے تو وہ بھی اپنا مدعا بیان کرے۔
سربراہِ ننگ دھڑنگان کی زبان باہر کو نکلی ہوئی تھی‘ اس نے کہا: جب تک ہمارے گروہ سے نئے فرماں روا کی شادمانی کا گیت نہیں سنا جائے گا‘ ہم منادی نہیں ہونے دیں گے۔ آخر ہم خران اور اہلِ خران سے کسی لحاظ سے بھی کم نہیں ہیں۔ طول و عرض سے لوگ اکٹھے ہو رہے تھے مگر سربراہ ننگ دھڑنگان کٹ حجتی پر تیار کھڑا تھا۔ صورتحال نازک ہو رہی تھی کسی وقت بھی احتجاج ہو سکتا تھا لہٰذا اس گروہ کو اجازت دے دی گئی کہ وہ اپنا مدعا بیان کرے۔ سربراہ نے اپنی بتیسی سنبھالی اور درخواست کی کہ ہر شام جب نئے فرماں روا کا دربار برخاست ہو تو بھونپو بردار ہمارے گروہ سے ہو۔ وزیر کی آنکھوں میں خون اترتا دیکھ کر سربراہ نے قدرے توقف کیا‘ اپنی زبان اندر کھینچی اور آہ سرد کھینچی۔ وزیر کا دل پسیجا‘ یوں بھونپو برداری کا اعزاز اس گروہ کے حصے میں آ گیا۔ اب منادی کی اجازت دے دی گئی۔ منادی کرنے والے نے منادی کرتے وقت آنکھوں کے ایسے ایسے اشارے کیے کہ جیسے اس کے اندر سے لڈو پھوٹ رہے تھے۔ وہ اعلان کچھ یوں تھا کہ ریاست کوچہ گرداں کے خرانِ ضعیف و تنومند کو مطلع کیا جاتا ہے کہ کان دھر کر یہ اعلان سننے کی ضرورت نہیں‘ آپ جس طرح زندگی گزار رہے ہیں گزارتے رہیے‘ جس طرح پہلے آپ نے اپنی روایات کو برقرار رکھا ہے اور ریاست کے نئے عظیم فرماں روا کے سامنے اپنے کان جھکائے رکھے ہیں۔ پہلا فرماں روا آپ کی اس عظیم روایت کا والا و شیدا تھا‘ نیا حاکم بھی آپ سے یہی نیک توقع رکھتا ہے۔ مزید برآں آئندہ آپ کی خدمات کو سامنے رکھتے ہوئے نئے حاکم کی طرف سے نوید ہو کہ آپ کی پیٹھ سہلانے کے ایک درجن نئے چابک تیار کروائے گئے ہیں‘ جن پر اہلِ خران کے نام سونے کے پانی سے منقش کروائے گئے ہیں تا کہ ایک چابک نسل در نسل ایک ہی خر کے لیے مختص کیا جائے اور کوئی دوسرا خر اس چابک سے اپنی کمر سہلوانے کی خواہش پال ہی نہ سکے۔
شاہ حمار سوار جلوہ افروز ہونے والا تھا۔ صبح صادق ہو چکی تھی۔ بھونپو بردار‘ خران اور اہلِ خران سب دم سادھے کھڑے تھے۔ ان تینوں گروہوں کا مقابلہ یہ بھی تھا کہ شاہ حمار سوار جب ظہور کریں تو سانس لینے کی بھی آواز نہ آئے۔ بس جب وہ جلوۂ ناز سامنے آ جائے تو پھر اس کو خوش آمدید کہنے کی سب کو آزادی ہے۔ اپنی اپنی طرز میں اپنے اپنے طریقے سے۔
ابن بطوطہ کی بطخ نے دیکھا کہ بھونپو بردار، خران اور مالکانِ خران سے ایک ہی قسم کی خوش کن صدائے ڈھینچوں ڈھینچوں نکل رہی تھی۔ سارا شہر‘ سارا دربار‘ ساری ریاست کوچہ گردان صدا کے سحر میں شاہ حمار سوار کے حضور جھکتے چلے گئے۔