بھٹو کا آخری دن

یہ تین اپریل1979 ء کی اندھیری صبح ہے۔ راولپنڈی اور سہالہ کے درمیان ایک گہری ہوتی تاریکی کے علاوہ کچھ نہیں۔ تاریخ کی ایک اندھیری صبح‘ جس کی تفصیل بظاہر موجود نہیں۔ اس وقت پاکستان کے لوگ اور راولپنڈی جیل کے سارے قیدی سو رہے ہیں؛ البتہ ذوالفقار علی بھٹو اپنے ڈیتھ سیل میں اور نصرت بھٹو اور بینظیر بھٹو سہالہ میں ضرور جاگ رہے ہیں۔ موت کے قیدی کی آخری ملاقات کا شیڈول ترتیب دیا جا چکا ہے۔ جیل کے زنانہ حصے میں 7x10 فٹ کا سیل ہے جسے عرفِ عام میں کال کوٹھڑی کہتے ہیں۔ گزشتہ روز چارلس ملر کی کتاب ''خیبر‘‘ بھٹو صاحب کی میز پر موجود تھی‘ جو میز کرسی چارپائی اٹھائے جانے کے بعد اب وہاں نہیں ہے۔ اب وہاں ایک گدا پڑا ہے۔ یہ تین اپریل کی صبح ہے۔ بھٹو کی زندگی کا آخری دن شروع ہو چکا ہے۔ نہ موت کے قیدی کو معلوم ہے کہ اسے پھانسی پر لٹکا دیا جائے گا اور نہ اس کے لواحقین اور متعلقین کو کچھ علم ہے۔ یہ اسلامی‘ جمہوری اور آئینی حق ہے کہ سزا یافتہ مجرم کو آخری ملاقات کا موقع دیا جاتا ہے اور لواحقین کو بتایا جاتا ہے کہ یہ آخری ملاقات ہے۔ سہالہ میں نصرت بھٹو اور بینظیر بھٹو نظر بند ہیں۔ انہیں ساڑھے دس بجے کے قریب راولپنڈی لایا گیا۔ انہیں قطعاً معلوم نہیں تھا کہ آج کس لیے ان کی بھٹو سے کیوں ملاقات کرائی جا رہی ہے۔ کسی کے ساتھ قیدی کے بارے میں گفتگو کرنا بھی ممنوع تھا۔ قیدی کا ایک خفیہ نام بھی تھا۔ پہلی گرفتاری کے وقت اور لاہور سے راولپنڈی منتقل کرتے ہوئے قیدی کا نام ''صوفہ‘‘ تھا۔ جب قیدی راولپنڈی پہنچا تو ایک دوسرے کو پیغام کے ذریعے بتایا گیا: صوفہ بخیرو خوبی راولپنڈی پہنچ گیا ہے۔
جب نصرت بھٹو اور بینظیر بھٹو جیل کے حکام سے ملیں تو انہوں نے استفسار کیا کہ یہ ملاقات کس سلسلے میں ہے ؟ تب انہیں معلوم ہوا کہ بھٹو سے ان کی آخری ملاقات ہے۔ بھٹو اپنی بیگم نصرت اور بیٹی بینظیر کو اکٹھا آتا دیکھ کر حیران ہوئے اور کہا: آج تم دونوں اکٹھے کیسے ملنے کو آ گئیں؟ یہ ملاقات اڑھائی گھنٹے جاری رہی۔ بھٹو کے سیل سے میز‘ کرسیاں سب ہٹا لی گئی تھیں۔ اب وہاں پر ایک گدا پڑا تھا جس پر بھٹو بیٹھے تھے۔ ملاقات کے دوران نصرت بھٹو بالکل خاموش بیٹھی رہیں۔ ان کے جسم سے جیسے ان کی روح نکال لی گئی تھی۔ بھٹو کوٹھڑی کے اندر زمین پر اور بے نظیر سلاخوں سے باہر زمین پر بیٹھی تھیں۔ بیگم نصرت بھٹو اور ذوالفقار علی بھٹو کے مابین کوئی گفتگو نہ ہوئی۔ بھٹو کو یقین تھا کہ انہیں واقعی پھانسی دے دی جائے گی۔ جنرل شاہ رفیع عالم کی بھٹو سے ایک لمحے کی بات چیت نے انہیں ہمیشہ کے لیے بھٹو سے اور اس جیل سے دور کر دیا تھا۔ اس آخری ملاقات کے وقت جیل سپرنٹنڈنٹ یار محمد دریانہ ساتھ کھڑے تھے۔ ملاقات کے وقت یار محمد سے پوچھا گیا کہ یہ واقعی آخری ملاقات ہے ؟انہوں نے جب تصدیق کی تو مسٹر بھٹو نے کہا:That is all، کیا اب سب ختم؟جیل سپرنٹنڈنٹ نے اثبات میں جواب دیا۔
بھٹو نے پھانسی کا وقت پوچھا‘ جس پر انہیں بتایا گیا کہ ان کو صبح ساڑھے پانچ بجے پھانسی پر لٹکا دیا جائے گا۔ بھٹو نے کہا کہ وہ شیو کرنا چاہتے ہیں کیونکہ ان سے شیو کرنے والا ریزر بھی واپس لے لیا گیا تھا کہ کہیں قیدی اس سے خود کشی کی کوشش نہ کر لے۔ اس ملاقات کے بعد ان کے رشتہ داروں سے ان سے ملاقات کی اجازت نہ دی گئی۔ نصرت بھٹو نے جیل حکام سے کہا کہ اگر یہی ہونا ہے تو وہ چاہتی ہیں کہ مسٹر بھٹو کو اپنی جنم بھومی‘ لاڑکانہ میں دفن کیا جائے۔ اس کے بعد کسی رشتہ دار کی بھٹو سے ملاقات نہیں ہوئی۔ بہت سارے رشتہ دار ان سے ملنے کے لیے موجود تھے مگر ان کی ملاقات نہیں ہونے دی گئی۔
جسٹس (ر) جاوید اقبال‘ جنہوں نے بھٹو کے خلاف الیکشن بھی لڑا تھا‘ کہتے ہیں کہ اس رات دو بجے کے قریب‘ عین اس وقت جب بھٹو کو راولپنڈی جیل میں پھانسی دی جا رہی تھی‘ وہ اچانک جاگ گئے اور اپنی بیگم سے کہنے لگے: ابھی بھٹو یہاں آئے تھے۔ تب بیگم صاحبہ نے کہا: آپ کا وہم ہے۔ وہ کہنے لگے: نہیں! وہ ابھی یہاں آئے تھے‘ انہوں نے مجھ سے کہا ہے کہ دیکھو ان لوگوں نے میرے ساتھ کیا کیا ہے۔ بے نظیر اس رات سہالہ میں نصرت بھٹو کے ساتھ نظر بند تھیں۔ اس رات بینظیر بھٹو کو نیند کی ہائی ڈوز دو گولیاں دی گئی تھیں‘ اس کے باوجود وہ جاگ گئیں۔ کوئی ہاتھ تھا جو ان کی گردن کے گرد سخت ہوتا جا رہا تھا اور انہیں سانس لینے میں سخت دشواری ہو رہی تھی۔
آخری ملاقات میں بے نظیر اور بھٹو کے مابین پانچ فٹ کا فاصلہ تھا۔ وہ دونوں زمین پر بیٹھے تھے۔ ایک منتخب وزیر اعظم سلاخوں کی اُس طرف اور ایک مجبور بیٹی دوسری طرف۔ بے نظیر کی آنکھیں رو رو کر سرخ ہو چکی تھیں۔ ملاقات کا وقت گزرا تو بینظیر نے کہا: کوٹھری کا دروازہ کھولیں‘ میں اپنے باپ سے گلے ملنا چاہتی ہوں‘ یہ میرا حق ہے۔ یار محمد دریانہ نے اس کی اجازت نہ دی۔ ملاقات ختم ہوئی تو ماں بیٹی‘ دونوں سیل سے دور ہوتی جا رہی تھیں۔ بینظیر بھٹو پیچھے مڑ کر اپنے پاپا کو دیکھنا چاہتی تھیں مگر ان کی ہمت مکمل طور پر جواب دے گئی تھی۔
پھانسی کے بعد بھٹو کا جسم پینتیس منٹ تک پھندے میں جھولتا رہا۔ جیلر نے ایک پوٹلی نما چیز بینظیر کے حوالے کی۔ یہ وہ کپڑے تھے جو بھٹو نے پھانسی کے وقت پہنے ہوئے تھے۔ ان میں ایک قمیص‘ ایک شلوار اور ایک پانی پینے کا پیالہ تھا۔ بھٹو نے سزا یافتہ مجرموں کا لباس پھانسی کے وقت پہننے سے انکار کر دیا تھا۔ ایک کھانے کا ٹفن بھی تھا؛ اگرچہ بھٹو نے کئی دنوں سے کچھ نہیں کھایا تھا۔ وہ ویسے بھی ملیریا‘ غلاظت اور پیچش کی وجہ سے کچھ کھانے کے قابل نہیں تھے۔ بھٹو کے کپڑوں سے شالیمار کولون کی خوشبو تب بھی آ رہی تھی۔ جیلر نے بھٹو کی وہ انگوٹھی‘ جو ان کی کمزور انگلیوں سے پھسل پھسل جاتی تھی‘ اتار کر خود رکھ لی تھی۔ بینظیر کے کہنے پر وہ انگوٹھی بھی ان کے حوالے کر دی گئی۔ پہلے یہ انگوٹھی بھٹو کے مردہ جسم سے تارا مسیح نے اتار کر چھپا لی تھی۔
ایک دن جیل میں بے نظیر نے باپ سے ملتے ہوئے پوچھا کہ میں آپ کے بغیر کس طرح زندگی گزاروں گی؟ تب بھٹو نے کندھے جھٹک کر رہ گئے تھے۔ بھٹو کو جب جیلر نے بتایا کہ یہ آخری ملاقات ہے تو بھٹو نے اپنا شیو کا سامان مانگا اور کہا دنیا خوبصورت ہے‘ اسے میں اسی حالت میں خدا حافظ کہنا چاہتا ہوں۔ بے نظیر بھٹو سے کہا آج میں دنیا کے الم سے آزاد ہو جائوں گا۔ میں واپس لاڑکانہ جا رہا ہوں تاکہ اس سرزمین اور اس کی خوشبو کا حصہ بن جائوں‘ آج میں اپنی والدہ اور والد کے پاس پہنچ جائوں گا۔ نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو کو میت کے ساتھ لاڑکانہ جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔
آج بھی چار اپریل ہے۔ بھٹو کی برسی کا دن۔ چوالیس سال ہو گئے ہیں۔ بھٹو کو پھانسی کیا ہوئی‘ ملک کا نقشہ ہی تبدیل ہو گیا۔ نہ وہ سیاست رہی نہ وہ سیاست دان۔ ان کی آل‘ اولاد نے ان کا راستہ ترک کر دیا۔ روٹی‘ کپڑا اور مکان جیسے نعرے کے خالق کی اولاد نہ صرف ان کے نظریے سے دور ہوگئی بلکہ اس نے اپنے لیے الگ راستہ منتخب کر لیا جو دل کی طرف نہیں‘ شکم کی طرف جاتا ہے۔ چار اپریل کی صبح‘ دو بج کر چار منٹ پر جلاد نے پھانسی کا لیور دبایا۔ محبوب خزاں یاد آتے ہیں:
بکھر گئے مجھے سانچے میں ڈھالنے والے
یہاں تو ذات بھی سانچے سمیت ڈھلتی ہے

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں