ایوارڈ

یہاں جس طرح ایوارڈز تقسیم کیے جاتے ہیں‘ اس کی تازہ مثال چند دن قبل دیا جانے والا ایک ایوارڈ ہے جو ڈاکٹر محمد اشرف اشو لال فقیر اور مستنصر حسین تارڑ کو مشترکہ طور دینے کا اعلان ہوا تھا۔ یہ ایوارڈ دونوں شخصیات نے لینے سے انکار دیا ہے۔ اشو لال کا اپنا نقطۂ نظر ہے اور مستنصر حسین تارڑ کا اپنا‘ مگر اصل بات ایوارڈ کی وصولی سے انکار ہے۔ چند سال قبل محمد سلیم الرحمن نے تمغۂ حسنِ کارکردگی لینے سے بھی انکار کیا تھا۔ ایوارڈ کی تقسیم پر اعتراض کوئی نئی چیز نہیں‘ ہمیشہ اس کو جائز اور ناجائز جانبداری کے الزامات کا سامنا رہا ہے۔ کسی سرکاری انعام کا اعلان کرنا‘ جس طرح چند لوگوں کا اعلان کرنا ان کا حق ہے‘ اسی طرح ایوارڈ لینے سے انکار کا بھی ان شخصیات کا حق ہے اور اس پر کسی کو ناک بھوں چڑھانے کی ضرورت نہیں۔ یہ آزادیٔ رائے کا اظہار ہے اور اس کا بہرحال برا نہیں منانا چاہیے۔ ڈاکٹر اشو لال اور مستنصر حسین تارڑ کا انعام کی وصولی سے انکار بہت سارے پہلوئوں کو اجاگر کرتا ہے جن کی جانب ایک عام قاری کی نظر جاتی ہے تو ایک ادارے کے فیصلے کو مشکوک نظر سے دیکھا جاتا ہے۔
مذکورہ ایواڈ کی تاریخ ایک ربع صدی ہو چکی۔ اب تک ادب کی بڑی ہستیوں کو اس ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اس سے ان ہستیوں کی قدر و منزلت میں اضافہ نہیں ہوا‘ یہ اصل میں ایوارڈ کی قدر افزائی تھی۔یہ ایوارڈ احمد ندیم قاسمی، انتظار حسین، مشتاق احمد یوسفی، احمد فراز، شوکت صدیقی، منیر نیازی، ادا جعفری، سوبھوگیان چندانی، نبی بخش خان بلوچ، جمیل الدین عالی، محمد اجمل خٹک، عبداللہ جمال دینی، محمد لطف اللہ خان، بانو قدسیہ، محمد ابراہیم جوئیو، عبداللہ حسین، افضل حسین رندھاوا، فہمیدہ ریاض، کشور ناہید، امر جلیل، جمیل جالبی اور منیر احمد بادینی کو دیا گیا ہے۔ اس دفعہ انعام دو شخصیات کو مشترکہ طور پر دینے کا اعلان کیا گیا جو عینِ نزاع کا سبب بنا۔ اعلان کرتے وقت مجاز ادارے نے یہ بھی کہا تھا کہ اس ایوارڈ کے ساتھ دس لاکھ کیش دیا جاتا ہے جو دونوں ادیبوں میں برابر تقسیم کیا جائے گا۔ دونوں ادیبوں نے اپنے اپنے موقف کی بنیاد پر یہ انعام وصول کرنے سے انکار کیا ہے۔
کسی انعام کو وصول نہ کرنے کی روایت بہت پرانی ہے۔ عالمی شہرت یافتہ ژاں پال سارتر نے نوبیل پرائز لینے سے انکار کر دیا تھا مگر اس کے نام سے جاری سارتر ایوارڈ لینے سے آج تک کسی نے انکار نہیں کیا۔ اس کے نام سے بھی ایک ایوارڈ کا اجرا کیا گیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اب یورپ اور امریکا کے ادیب دوسرے انعام لینے سے اس لیے انکار کرتے ہیں کہ وہ سارتر پرائز کو زیادہ اہم سمجھتے ہیں۔ 1958 ء میں بورس پیسٹرناک کو روس کی حکومت نے انعام وصول کرنے سے منع کر دیا تھا۔ سارتر نے اپنی لکھنے کی تحریک ختم ہونے کے خوف سے انکار کیا تھا۔
ایک مؤقف یہ بھی ہے اور درست بھی کہ کسی غاصب یا آمر حکمران کے دور میں ایوارڈ کی وصولی سے انکار جرأت کا اظہار ہے۔ کسی غاصب حکومت سے انعام نہ وصول کرنا حق بجانب ہی ہوتا ہے کہ ادیب کا اصل کام اسی جابر حکومت کے خلاف جدوجہد کرنا ہوتا ہے۔ ایسی حکومتوں میں عوام کے حقوق معطل کیے جاتے ہیں یا ان پر ڈاکا ڈالا جاتا ہے‘ یوں ادیب اپنا جائز احتجاج رجسٹر کروا دیتے ہیں مگر اشو لال اور مستنصر حسین تارڑ کا معاملہ یکسر مختلف ہے۔ اشولال نے حکومت کی آرٹ پالیسی کو ہدفِ تنقید بنایا گیا اور سندھ دریا اور اس کے باسیوں کے حقوق کی بات کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے انعام دینے کے بجائے اس ڈیلٹا کی حفاظت کی جائے جو تین سو کلومیٹر سے گھٹ کر چند کلومیٹر تک محدود ہو گیا ہے۔ اس سے وسیب کئی مسائل کا شکار ہے۔ چند سال قبل رفعت عباس نے بھی ایک انعام وصول کرنے سے انکار کیا تھا اورپنجابی زبان پر اپنی مادری زبان سرائیکی کی حق تلفی کا الزام لگایا تھا۔ اکادمی ادبیات کے منصوبوں میں ایک سلسلہ ادب کے معمار کا بھی ہے۔ اس میں اپنے نام گھسیڑنے کے لیے جس قسم کی کارروائیاں اور ریشہ دوانیاں کی جاتی ہیں‘ وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ ایسے لوگوں کی وجہ سے انعامات نہ صرف اس کی اصالت پر شک وشبہ کا سبب بنتے ہیں بلکہ ان کی حیثیت پرِ کاہ کے برابر بھی نہیں رہتی۔ غالبؔ بھی تارڑ کی طرح بہت بڑا شاعر تھا‘ اس کو بھی وہ اہمیت حاصل نہ تھی جس کا وہ مستحق تھا‘ اسے اسی وجہ سے کہنا پڑا کہ
نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پروا
گر نہیں ہیں مرے اشعار میں معنی نہ سہی
کہنے کو تو غالبؔ نے کہہ دیا تھا مگر اصل حقیقت سے سبھی واقف تھے کہ
جو چاہیے نہیں وہ مری قدرو منزلت
میں یوسف بقیمتِ اول خریدہ ہوں
ڈاکٹر اشو لال فقیر ایک ڈاکٹر ہیں۔ پریکٹس کرتے ہیں۔ پہلے وہ اردو میں شاعری کرتے تھے اور شعاعؔ تخلص کرتے تھے۔ وہ نسیم لیہ کے شہر میں رہتے ہیں‘ جن کا کہنا ہے کہ
دیارِ مصر میں دیکھا ہے ہم نے دولت کو
ستم ظریف پیمبر خرید لیتی ہے
اشولال کا کہنا ہے کہ وہ مزاحمتی شاعری کرتے ہیں۔ انہیں مادھو لال حسین سے عشق ہے اسی وجہ اور محبت سے اپنے نام کے ساتھ فقیر لکھتے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان حالات میں اگر مجھے کہا جائے کہ میں کسی ایسے صدر اور وزیر اعظم سے جا کر ایوارڈ لوں جس کو میرا نام بھی نہیں پتا اور یہ بھی نہیں پتا کہ میں کیا کہتا ہوں‘ تو یہ مجھے کسی بھی صورت قبول نہیں ہے۔ اب مستنصر حسین تارڑ نے ان تمام ممبران کا شکریہ تو ادا کیا ہے مگر ایوارڈ لینے سے انکار کر دیا ہے۔ اشو لال کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے آج تک متعلقہ ادارے کو انعام؍ ایوارڈ کے لیے کبھی کوئی کتاب ارسال ہی نہیں کی۔ ایک ایسا ادیب‘ جس کو اب ایوارڈ دیا جا رہا ہے‘ اس کا یہ کہنا کئی شکوک کو جنم دیتا ہے۔ یہ کیسی سچائی ہے اور کیسا سفاک سچ ہے۔
اشو لال کا کہنا ہے:
کتھاں سورج برف پنگھاری کتھاں رات گزاری
اپنا کم ہے اڈدا رہون جیون نام اڈاری
اپنے دوست نعیم کلاسرا کے لیے ایک نظم جَندری کھول میں کہتے ہیں:
کوئی تاں انھاں نوں پڑھ وی گھنسی
کوئی تاں انھاں نوں سمجھ وی گھنسی
الماری وچ بند رہیاں تاں گم تھی ویسن
ہم چاہتے ہیں کہ متعلقہ ادارے کو تمام شکوک و شبہات کا ازالہ کرنا چاہیے۔ ادارے کے سربراہ کی صلاحیتوں پر کسی کو کسی قسم کا شبہ نہیں۔ انہوں نے آ کر ادارے کو فعال کیا ہے۔ بہت سارے منصوبوں کا آغاز کیا ہے جس کا ذکر انہوں نے اختتامی تقریب میں بھی کیا۔ ایوارڈ کے لیے ایک اعلیٰ غیر جانبدار جیوری ہونی چاہیے کہ جتنا بڑا انعام ہے‘ اسی نسبت سے اعلیٰ صلاحیتوں والے لوگوں کا انتخاب از حد ضروی ہے۔
انعامات کی کمیٹی میں محمد اظہار الحق جیسے لوگ شامل ہونے چاہئیں کہ موجودہ جیوری میں صاحب الرائے اور صائب الرائے صرف ایک محمد اظہار الحق ہیں۔ ایوارڈ وصول نہ کرنے کا کہہ کر دونوں ادیبوں نے اس کی Credibility پر سوال کھڑے کر دیے ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں