میں ایک شاعر ہوں اور خود کو جدید شاعری کا امام منوانے کے مراحل سے گزر رہا ہوں مگر میرا مسئلہ بہت عجیب ہے جو میں آپ سے شیئر کر رہا ہوں شاید آپ مجھے کچھ مشورہ دے سکیں۔ البتہ میرا خیال ہے کہ آپ نے مشورہ دینے کے بجائے مجھے لعن طعن ہی کرنی ہے۔ چونکہ میں سچ بات کہنے کا عادی ہوں‘ اس لیے ساری کتھا بیان کر رہا ہوں۔ میں نے اور میرے استاد شاعر نے شاعری سے توبہ کر لی ہے۔ کافی عرصہ میں نے اس دشت کی سیّاحی کی ہے۔ پہلے میں نے اکیلے سیاحی کی‘ بعد میں استاد محترم کے ساتھ بھی کافی خجل خواری ہوئی۔ کہانی اپنے بچپن سے شروع کرتا ہوں اور موجودہ عہد تک سناتا ہوں۔ اگر یہ تحریر پڑھ کر کسی کی دل آزاری ہو تو پہلے ہی معافی کا خواستگار ہوں۔
یہ کہانی پڑھ کر آپ کو ادب کے جدید رجحانات کا بھی اندازہ ہو جائے گا اور معلوم ہو جائے گا کہ غزل نے کتنے موڑ کاٹے اور آج وہ کس مقام پر ہے۔ اگر یہ تحریر پڑھ کر معلوم نہ ہو کہ ادب کی مجموعی اور غزل کی انفرادی صورتِ احوال کیا ہے تو خود قیاس کرنے کی بھی آزادی ہے۔
قصہ یوں ہے کہ مجھے کچھ اندازہ ہی نہیں کہ اس فیلڈ میں آئے کتنا عرصہ ہو گیا ہے؛ البتہ اتنا مجھے یاد ہے کہ بچپن سے اسی عشق میں مبتلا ہوں۔ اب بوڑھا ہو گیا ہوں۔ ساری زندگی ادب کو دے دی۔ جو وقت اپنی فیملی کو دینا تھا وہ بھی اسی عشق کی نذر کر دیا۔ گھر والی کے طعنے سنے کہ یہ نگوڑی شاعری کہاں سے میری قسمت میں آ گئی ہے‘ اچھے خاصے تم فٹ پاتھ پر بیٹھ کر لوگوں کے کانوں کی میل صاف کیا کرتے تھے اور گھر میں کچھ لے آیا آتے تھے۔ اب تمہارے دانتوں میں کیڑا لگ گیا ہے‘ اگر یہ فن ہی سیکھ لیا ہوتا تو خود بھی ان دانت کے کیڑوں سے بچتے اور کسی دندان ساز کا بورڈ لکھوا کر ریلوے سٹیشن کے باہر بیٹھ جاتے۔ دورانِ سفر کسی کو تو دانت کا درد ہو ہی جاتا ۔ ایسے میں کون شہر کے کلینکوں کا رخ کرتا؟ وہیں تم سے دانت کے کیڑے نکلواتا اور ٹرین پکڑ کر اپنی منزل کو روانہ ہو جاتا مگر خبر نہیں یہ کم بخت مارا شوق تمہارے پلے کیسے پڑ گیا یا تم اس شوق کے پلے کیسے پڑ گئے۔
میں سمجھتا ہوں ایسے سوال بالخصوص گھر والی یا گھر والے کریں تو چنداں اہمیت نہیں دینی چاہیے۔ بات اصل میں یہ ہے کہ آغازِ شاعری میں ہی میرے استاد نے ارشاد فرمایا تھا: میاں تمہاری اٹھان بہت اعلیٰ ہے‘ ایسی اٹھان کم کم لوگوں کے حصے میں آتی ہے۔ خیالات تمہارے نادر ہیں اور سرقے میں بھی ایسا ملکہ ہے کہ اصل شاعر کو ہوا تک نہیں لگنے دیتے۔ وہ ماتھا پکڑ کر بیٹھ جاتا ہے۔ اس پر جس طرح تم دھڑلے سے مشاعروں میں وہی سرقہ والے شعر سناتے ہو اور ہاتھ ہاتھ لہرا کر داد طلب کرتے ہو‘ اس سے یہ گمان ہوتا ہے کہ شعر کے اصل خالق تم ہی ہو۔
سرقے کا بھی تھوڑا سا بیان ہو جائے تو قطعاً نامناسب نہیں ہو گا۔ لڑکپن میں جس گلی میں ہماری رہائش تھی‘ اس گلی کی نکڑ پر حکیم بقائی کا مطب تھا۔ اسی مطب کا یہ فیض ہے کہ میں نے شعروشاعری کے سارے رموز حکیم صاحب سے سیکھ لیے اور شاعری کی بھاری بھر کم اصطلاحات سے بھی واقف ہوا۔ ویسے تو مطب میں جتنی ادویات تھیں‘ ان کا تعارف بھی حکیم صاحب نے کروایا تھا۔ معجون استخدوس، اطریفل زمانی، مربہ ہرڑ اور مصگی رومی وغیرہ‘ مگر ان کے جوہر شعر و شاعری پر بات کرتے ہوئے کھلتے تھے۔ وہاں میری طرح اور بہت سارے جویانِ شعر موجود ہوتے تھے مگر حکیم صاحب جو شفقت اس حقیر پُرتقصیر پر روا رکھتے تھے‘ اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ مثلاً یہ حکیم صاحب سے ہی مجھے معلوم ہوا کہ غزلوں والا سرقہ دراصل یہی حکیموں والا ''سرکہ‘‘ ہے۔ سرقہ کرنے سے شاعر کا ہاضمہ تیز ہوتا ہے اور جگر کی گرمی رفع ہوتی ہے۔ سرقے کا مزاج گرم‘ سرد ہے۔ عین ممکن ہے کہ مشاعرے کے بیچ میں سرقہ کرنے والے شاعر کی ہنڈیا پھوٹ جائے۔
ایک اور بات انہوں نے بتائی کہ '' اے ناہنجار شاعر! ہر شعر میں ''میاں‘‘ استعمال کیا کرو۔ اس سے سیاسی فائدہ بھی ہو سکتا ہے۔ مسلم لیگ نون والے‘ عین ممکن ہے کہ یہ سمجھیں کہ میاں نواز شریف کی بات ہو رہی ہے اور ممکن ہے کسی سرکاری ادارے میں ایک‘ دو سال کی کوئی کنٹریکٹ کی نوکری بھی مل جائے۔ میاں شعر کی بھی مختلف طبائع ہوتی ہیں۔ شعر کی طبیعت صفراوی ہے۔ ارے کچھ پتا ہے طبائع کا؟‘‘۔ میں تو مشقِ سخن کے لیے ان کے پائوں دھوتا تھا‘ انہوں نے علم و حکمت میں بھی اضافہ کرنے کی قسم اٹھائی ہوئی تھی۔
شاعری سے پہلے میں نے ہلکے پھلکے مضامین لکھے۔ جب میں نے دیکھا کہ کوئی بات بن نہیں رہی تو سوچا کسی بڑے کے پائوں دابوں۔ کوئی مدیر شاعر مل جائے گا تو اس سے مشاعرے کی صدارت کرائوں گا۔ اگر کچھ رقم کسی نے ادھار دے دی تو اس کی سالگرہ بھی منائوں گا مگر حیف ملا بھی تو یہ حکیم بقائی۔ اگر کوئی واقف کار نکل آیا تو غیر ممالک میں رہنے والے ادبی لوگوں کے لیے دواوین لکھا کروں گا، میرا جشن بھی منایا جائے گا مگر کیا کہوں ع
اے بسا آرزو کہ خاک شدہ
اب میں وہ نہیں ہوں جو پہلے کبھی تھا۔ دل میں کیا کیا ارمان تھے۔ اپنا نام غالبؔ، اقبالؔ، فیضؔ، احمد ندیمؔ قاسمی اور فرازؔکے ساتھ آئے۔ لوگ جب ان کا نام لیں تو میرا بھی نام آئے اور ساتھ حکیم بقائی کا نام روشن ہو، کیونکہ والد صاحب نے تو پہلے دن ہی کہا تھا کہ تم کسی فٹ پاتھ پر بیٹھے کانوں کی میل نکالا کرو گے۔ اب کہتا ہوں کہ کاش پہلے دن ہی اس شعبے میں آ جاتا۔ شاید کانوں کی میل نکال کر دنیا میں اپنا نام روشن کر سکتا۔ وہ شعرا جن کے ساتھ میں نے خیالوں میں کئی مشاعرے پڑھے‘ ملکی اور غیر ملکی دورے کیے‘ اب پاس سے گزرتے ہیں تو میری طرف دیکھ کر انجان سے بن جاتے ہیں۔ میں نے کئی بار فٹ پاتھ پر اپنا صافہ بچھا کر ان کو بیٹھنے کی دعوت دی‘ مقصد میرا یہ ہوتا ہے کہ پتا چلے کہ وہ شعر گوئی میں مصروفِ کار ہیں یا میری طرح توبہ کر چکے ہیں۔ مگر وہ کبھی رکے نہیں۔ میرا دل اب بھی کرتا تھا کہ مجھے معلوم ہو کہ میرے ادبی میدان سے اس طرح چپ چاپ نکل جانے سے ادب بیچارے پہ کیا بیتی مگر افسوس! میرے ہم عصر شعرا انجان بن جاتے ہیں۔ کبھی اس ایوان میں میرا بھی 'طوطا‘ بولتا تھا۔ طوطی کو تو حکیم صاحب بولنے نہیں دیتے تھے۔ وقت کو کون روک سکا ہے اور ہونی کو کون ٹال سکا ہے۔
یہ اس زمانے کی سخن ناشناسی ہے‘ اب وہی حکیم صاحب میرے لیے بیگانے بن گئے ہیں۔ جب بھی ان کے مطب کے سامنے سے گزرتا ہوں‘ ایک ہوک سی دل میں اٹھتی ہے مگر حکیم صاحب اپنی ہاضمے کی پھکیوں کے سفوف سونگھنے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ آج ایک عجیب منظر دیکھا جو ان سطور کو لکھنے کا سبب بنا۔ میں حسبِ معمول دنیا سے نالاں اور شکووں سے بھرا‘ اپنے ٹھیے پر پہنچا تو شش و پنج میں مبتلا ہو گیا۔ یا الٰہی خیر! ہمارے ٹھیے پر قبضہ؟ اس وسوسے کو جھٹکا اور اس بچھونے کے ساتھ اپنا بچھونا‘ جو ایک چار خانے والی میلی چادر پر مشتمل ہے‘ بچھا لیا۔ اور اپنے اوزار‘ جن میں کان کے اندر دیکھنے والا کانا اور روئی کے چند بُڑے اور ایک شیشہ شامل ہیں‘ سجا ہی رہا تھا کہ میرے ساتھ بچھے صافے پر میرے سابق استاد حکیم صاحب آن براجمان ہوئے اور مجھے آنکھ مار کر کہنے لگے: میں نے دانتوں سے کیڑے نکالنے کا فن بھی سیکھ لیا ہے۔ یہاں سخن کی مشق کریں گے‘ دانتوں کے کیڑے اور کانوں کی میل نکالا کریں گے۔ کیوں میاں! کیسی کہی؟
اب میں نے سوچا ہے ادب کی زبوں حالی دیکھ کر دوبارہ شعر گوئی کی طرف لوٹ جائوں اور ساتھ ہی حکیم صاحب سے ادبی تنقیدی مکالمہ جاری کروں۔