صُفہ

حرم نبی پاکﷺ میں ہر جگہ جھک جھک جانے کو جی چاہتا تھا۔ کون سی ایسی جگہ تھی جو متبرک اور مقدس نہ تھی۔ گیٹ نمبر سات سے داخل ہوتے تو آنکھیں احتراماً جھک جاتیں۔صحنِ حرم میں پہنچتے تو لطف و عنایت کی بارش شروع ہو جاتی۔بائیں جانب لائبریری کے سامنے سے ہوتے ہوئے نبی پاکﷺ کی بارگاہ میں داخل ہو جاتے۔ہم نے کافی وقت لائبریری میں بھی گزارا تھا اور اس کے اردو سیکشن میں کتب بھی دیکھیں۔ آج ہم اکیلے دربارِ نبویؐ میں حاضر ہوئے۔ہماری قیام گاہ سے دربارِ نبوی ایک آدھ منٹ کے فاصلے پر تھا۔جب جی کرتا‘ قیام گاہ کے بغلی دروازے سے باہر آتے‘ سامنے مسجد نبوی کے مینار ہوتے۔رات کو تو ان میناروں کا الگ ہی سحر تھا۔اس بغلی دروازے والی گلی میں ایک آدھ دکان تھی۔ اس گلی میں جونہی داخل ہوتے تو ''مدینے دیاں پاک گلیاں‘‘کا جو تصور ہم نے بچپن سے سنا اور قائم کیا ہوا تھا‘ مکمل سامنے آ جاتا۔یہ گلی دربارِ نبوی کے بالکل قریب تھی‘ کیا پتا یہاں سے نبی پاکﷺ کسی دن گزرے ہوں۔ ایک دن ہم نے اس جگہ کی بھی زیارت کی جہاں نبی پاکﷺ فوجی مہمات پر جانے والے دستوں کے ساتھ آتے‘ ان کو ہدایات فرماتے اور انہیں روانہ کر کے رخصت ہو جاتے۔کیا پتا آپﷺ اسی گلی‘ اسی رستے سے ہو کر فوجی دستوں کے ساتھ گئے ہوں۔ اسی رستے سے واپس آئے ہوں۔گلی میں بظاہر روشنی نہیں ہوتی تھی مگر دربارِ نبوی کی روشنیوں کی لائٹ یہاں صاف پڑتی تھی۔اسی گلی سے ہوتے ہوئے ہم سات نمبر گیٹ تک پہنچتے۔آج ہم نے سوچا ہوا تھا کہ اصحابِ صفہ والی جگہ کی زیارت کریں گے۔
اسی سات نمبر گیٹ سے اندر داخل ہوئے‘ لائبریری پر نظر پڑی‘ اسے دور سے دیکھتے آگے بڑھے۔سہ پہر کا وقت تھا‘ عشاقانِ نبی پاک کے جمگھٹے میں ہم بھی شامل تھے۔ درود شریف پڑھتے‘ دعائیں مانگتے حرم شریف میں داخل ہوئے۔ ہمارے خاندان کی ایک مہربان خاتون نے نبی پاکﷺ کے نام لکھی ہوئی کوئی دعا‘ کوئی درخواست‘ کوئی خط دیا تھا کہ کسی ستون پر رکھ دیں۔ہم نے وہ دخواست‘ وہ عاجزی کا ٹکڑا ایک ستون پر رکھا اور اپنے فرض کی ادائیگی پر نازاں ہوتے آگے بڑھے۔ ہم نے ایک عاشق سے پوچھا کہ صحابہ کرامؓ کا صفہ کدھر ہے ؟ اس نے لاعلمی کا اظہار کیا۔ ہمارے گروپ کے کافی لوگ اس وقت وہاں موجود تھے مگر گروپ آپریٹر کے بڑے صاحبزادے نظر نہیں آ رہے تھے۔ ان کو اہلِ بیتؓ سے عشق تھا۔ انہیں شہرِ نبیﷺ کی ہر گلی‘ ہر مقام سے کماحقہٗ واقفیت تھی۔کوئی ایسی جگہ نہ تھی جس کے بارے میں ان کی معلومات کم ہوں۔ایک دفعہ ہمیں قدیم ریلوے سٹیشن مدینہ لے گئے۔یہ عثمانیوں کے دور کی عمارت ہے‘ جب استنبول اور حجاز کے درمیان ریلوے سروس کا آغاز ہوا تھا۔ ایک دفعہ ہمیں مہبطِ جبریل کی زیارت کروائی جہاں سے حضرت جبرائیل علیہ السلام وحی کے لیے تشریف لاتے تھے۔
سوچا کہ اس وقت وہ مل جائیں تو صحابہ کرامؓ کے چبوترے کی زیارت کر لیں اور کچھ وقت وہاں گزارنے کی سعادت حاصل کریں۔اصحابِ صفہ کی تعداد چار سو بتائی جاتی ہے۔ یہ وہ عشاقِ نبی تھے جن کا ذریعہ معاش تو تھا ہی نہیں! ایک نبی پاکﷺ کی محبت تھی‘ یہی ان کا ذریعہ معاش تھا۔ان میں بڑے جلیل القدر صحابہ کرامؓ بھی شامل تھے۔ حافظ ابن حجر کی روایت کے مطابق حضرت سلمان فارسی، حضرت ابوذر غفاری اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہم جیسے معروف صحابہ کرام ان میں شامل تھے۔ان میں ایک ثوبان مولیٰ نبی پاکﷺ بھی تھے۔وہ رسول کریمﷺ کے خادم تھے۔ جب آزاد ہوئے تو آپﷺ نے فرمایا: تم آزاد ہو‘ اگر یہیں میرے پاس رہو گے تو اہلِ بیت میں شامل ہو گے۔ ایسی نسبت چھوڑ کر کس کو جانے کی ہمت ہے۔
عشرہ مبشرہ یعنی وہ دس اصحابِ نبی جن کو ان کی زندگی میں ہی جنت کی بشارت دی گئی تھی‘ ان میں سے ایک انہی اصحابِ صفہ میں سے تھے۔یہ عشاق سارا دن اسی چبوترے پر ہوتے‘ نہ ان کے پاس مکمل لباس تھا نہ کھانے کا انتظام۔ نماز کے دوران بھوک کی وجہ سے گر گر جاتے۔ یہ مجردانہ زندگی گزارتے تھے؛ یعنی سراپا دیوانے اور سراپا عاشق۔ جب ان میں کسی کی شادی ہو جاتی تو وہ اس حلقے سے نکل جاتا۔ ایک گروہ دن کو جنگل میں نکل جاتا‘ کچھ لکڑیوں کا بندوبست کر لاتا‘ تھوڑا بہت کھانا تیار ہو جاتا۔یہ صحابہ کرامؓ ہمہ وقت زیارت سے مشرف رہتے اور رات کو بھی اسی جگہ پڑے رہتے۔رات کو سونے کے لیے چادر کم کم پڑ جاتی۔ سر ڈھانپتے تو پائوں ننگے ہو جاتے۔ پائوں پر چادر لیتے تو سر خالی ہو جاتا۔کبھی چادر نہ ہوتی‘ کبھی تہبند نہ ہوتا۔کہا جاتا ہے کہ چبوترہ ایک ڈھارا یعنی سائبان سا تھا۔ ان میں صحابہ کرامؓ کھجوروں کی پوٹلیاں باندھ دیتے‘ جب پک کر کچھ کھجوریں گرتیں تو یہ لوگ ان کو کھا لیتے۔
عشرہ مبشرہ میں حضرت ابوعبیدہ بن جراحؓ بھی شامل تھے۔ فاروقِ اعظمؓ کے عہد میں شام کے گورنر مقرر ہوئے۔کہاں رومن ایمپائر کے بادشاہ‘ جو دمشق میں مقرر ہوتے تھے اور کہاں نبی پاکﷺ کے یہ عاشق۔روایت ہے کہ فاروقِ اعظمؓ ان کی تعیناتی کے دوران شام پہنچے۔فاروق اعظمؓ نے کہا: مجھے اپنے گھر لے چلو۔گورنر نے عرض کی کہ میرے گھر میں رونے کے سوا کچھ نہیں ہے۔فاروقِ اعظمؓ کے کہنے پر ان کو اپنے گھر لے گئے۔ جب فاروقِ اعظم گورنر ہائوس‘ یعنی ان کے گھر پہنچے تو فرطِ جذبات سے رو پڑے۔اس گورنر ہائوس میں ایک لوٹے‘ ایک پانی کی مشک اور ایک بوریے کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ اس موقع پر فاروق اعظم نے ایک تاریخی جملہ بولا‘ فرمایا: دنیا نے ہم سب کو بدل ڈالا‘ سوائے ابوعبیدہ کے۔
میں دعا مانگتے ہوئے جا رہا تھا کہ کاش ٹور آپریٹر کے بیٹے کہیں مل جاتے‘ تو اس چبوترے کی بھی زیارت کر لیتا اور کئی اور زیارتوں کا انتظام بھی ہو جاتا۔ وہ مناسب معلومات بھی فراہم کر دیتے۔اچانک کیا دیکھتا ہوں کہ تین لوگ آپس میں‘ اونچی آواز میں بحث کر رہے ہیں۔ اللہ اللہ! یہ جگہ‘ یہ مقام اور یہ بحث! کچھ مسلکی‘ کچھ فروعی۔دیکھا تو ان میں سے ایک وہی ٹور آپریٹر کے صاحبزادے تھے۔ان کو دیکھ کر بہت راحت ہوئی۔ان کے مباحثے کے دوران ہی ان سے پوچھا کہ وہ صفہ کہاں ہے ؟ میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب اس نے کہا: یہی تو وہ چبوترہ ہے۔یہ ایک کمرے کے برابر یا اس سے کچھ زیادہ جگہ ہے‘ اس کے چاروں اطراف میں لال پٹی لگی ہوئی ہے۔یہ چبوترہ نبی پاکﷺ کے عشاق سے بھرا پڑا تھا‘ وہاں اصل معنوں میں تل دھرنے کی جگہ نہ تھی۔وہاں بیٹھنے کا ارادہ کر ہی رہا تھا کہ انہوں نے بتایا: جہاں میں کھڑا ہوں‘ یہیں سیدہ فاطمۃ الزہراؓ اور حضرت علی المرتضیٰؓ کا گھر تھا۔ یہاں دو رکعت نفل ادا کیجیے۔ یہ ساعت‘ یہ گھڑی یہ خوش نصیبی! جتنا بھی اس اعزاز پر خوش ہوں‘ کم تھا۔ خشوع و خضوع سے دو رکعت نفل ادا کیے۔جی کرے کہ یہیں بیٹھا رہوں۔چبوترے پر جگہ نہ تھی‘ کسی طرح وہاں بیٹھنے کی جگہ ملی۔سامنے نبی پاکﷺ کی بارگاہ‘ ادھر یہ خاکسار اوگن ہار۔کچھ دیر بیٹھ کر ایک آدمی سے اپنے موبائل پر فوٹو بنوائے اور اٹھ کھڑا ہوا۔وہ تینوں لوگ اسی شدت سے بحث کر رہے تھے۔اب بحث کا موضوع خلافتِ عثمانیہ کے دوران لکھی گئی قرآنی آیات تھیں۔ ٹور آپریٹر کے صاحب زادے پوچھنے لگے: ان پر سونے کا گہرا پانی پھیر کر ان آیات کو کیوں چھپایا گیا ہے؟ اس کا جواب دوسرے آدمی کے پاس نہیں تھا۔مجھے پتا چلا کہ بحث میں شریک ایک ہمارے ٹور آپریٹر ہیں‘ ایک سندھ کے کچے کے علاقے کا نوجوان ہے۔ تیسرے شخص سے تعارف نہ ہو سکا۔معلوم ہوا سندھ کے کچے کے علاقے کا شخص حکومت سعودیہ کا ملازم ہے اور اس جگہ تعینات ہے۔جو تیسرے بھائی تھے‘ وہ بحث میں شریک ہوتے تو کہتے: سائنس کی رو سے بات کریں۔میں ان کو اس بحث میں چھوڑ کر آگے بڑھ گیا۔پیچھے سے تیسرا آدمی تیزی سے میری طرف آیا اور کہنے لگا: میرا پوائنٹ سنتے جانا۔میں نے اپنی مزید رفتار تیز کر لی۔رات کو چبوترے پر کھینچی ہوئی اپنی تصویریں دیکھیں اور نوٹ کیا کہ میری آنکھیں دہشت، محبت اور قرب کے مارے پھٹی پڑی تھیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں