دیوارِ ہنر

حسنِ نیت شرط ہے‘ شرطِ اول۔ محمد شاہ تغلق کی سلطنت سیہون شریف سے شروع ہو جاتی تھی اور بنگال تک کا علاقہ اس کے زیرِ نگیں تھا۔ اس بنگال میں تب بہار‘ آسام اور اڑیسہ کی ریاستیں بھی شامل تھیں۔ گھڑ سوار اور پیادے پیغامبر ہوتے تھے۔ پیادے گھڑسواروں سے بھی تیز۔ منزل ایک میل‘ ہاتھ میں مطاہر‘ جس پر لگے گھنگرو بجتے تو اگلی منزل والا اسی طرح سرپٹ دوڑنے پر تیار ہوتا۔ خراسان سے تازہ پھل انہی پیادوں کی وساطت سے دلّی میں محمد شاہ تغلق تک پہنچتے۔ تازہ پھل‘ جیسے ابھی پیڑ سے اتارے ہوں۔
لندن سکول آف لاء والوں کی سٹڈی ہے کہ شہر کو خوبصورت بنانے کے لیے انفرادیت لازم ہے‘ ملبورن کو بارسلونا کی طرح نہیں ہونا چاہیے۔ اپنے شہروں کو اپنی روایات کا امین ہونا چاہیے۔ اب یہاں ایسی بھیڑ چال شروع ہوئی کہ شہروں کو جدید بنانے کی دھن میں اپنی تہذیب اور روایات کا کم اور مغرب کی نقالی پر زور زیادہ ہے۔ طرفہ تماشا یہ کہ دیواروں پر مختلف اشتہارات لگانا‘ ان دیواروں پر مختلف نسخہ جات لکھنا‘ ایسے ایسے دواخانوں اور ان کے کارناموں کا لکھا جانا کسی بد تہذیبی کا شاخسانہ نہیں‘ یہ جہالت کا نمونہ ہیں۔ دنیا کے کسی ترقی یافتہ یا وہ ممالک‘ جہاں قانون اپنی بات منوانا جانتا ہے‘ وہاں اس قسم کی سوقیانہ زبان استعمال نہیں ہوتی۔ صاف دیواریں شہر کی زینت ہوتی ہیں۔
یہ سادہ سا مسئلہ ہے کہ شہر کے اربابِ اختیار‘ جن کو ہم انتظامیہ کہتے ہیں‘ کی یہ بنیادی ذمہ داری ہے کہ شہر کی صفائی میں دیواروں کا خوبصورت ہونا لازم وملزوم ہے۔ بارہا مشاہدہ کیا گیا ہے کہ کسی ایک مستعد انتظامیہ یا انتظامیہ کے افسران شہر کو صاف ستھرا بھی کر سکتے ہیں اور مختلف پارکس‘ رائونڈ ابائوٹس‘ شاہراہوں کے اینٹرنس پوائنٹس کو دیدہ زیب بنایا جا سکتا ہے۔ ہم نے بہت ساری دیواروں پر ننھے بچوں اور نوجوانوں کی بنائی ہوئی پینٹنگز دیکھی ہیں۔ ننھے ننھے اور نوجواں طلبہ و طالبات کو دیکھیں‘ جو رنگوں کی ڈبیہ اور برش لے کر دیواروں کو خوبصورت تصاویر بنا رہے تھے۔ دیوار کے آس پاس رنگوں کی بارات اتری ہوئی تھی۔ غلام جیلانی اصغر کا شعر یاد آتا ہے:
حسن جتنا ہے مری آنکھ کی تحویل میں ہے
ورنہ چہرے کے خدوخال میں رکھا کیا ہے
شہر کو خوبصورت بنانے کے لیے بھی ایک آنکھ درکار ہوتی ہے‘ یہ حس زیادہ تر انجینئرز کے زرخیز دماغ میں ہوتی ہے۔ ہمارا شہر ملک وال‘ جو تحصیل ہیڈ کوارٹر ہے‘ فقط دو بازاروں پر مشتمل ہے۔ ایک کلومیٹر کی لمبائی پر ہمارا شہر ختم ہو جاتا ہے۔ ایک نیا بازار اور ایک پرانا بازار۔ عجیب طرفہ تماشا ہے کہ جو نیا ہے‘ اسے پرانا بازار کہتے ہیں اور پرانے بازار کو نیا۔ چند سال پہلے تک اسی نئے بازار سے ساری ٹریفک گزرتی تھی۔ چونکہ اور کوئی متبادل راستہ بھی دستیاب نہیں تھا تو مرتے کیا نہ کرتے‘ اسی بازار سے گزرا جاتا تھا۔اسی بازار کے درمیان میں ایک چھوٹی سی بند گلی میں تین چار گھر تھے‘ ان میں ایک ملک کے معروف لوک فنکار شوکت علی کا تھا۔ وہ ساٹھ کی دہائی میں وہاں سے نقل مکانی کر گئے تھے۔ اسی بازار سے رکشے‘ ریڑھی‘ گدھا گاڑی اور عام ٹریفک گزرتی تھی۔ گھنٹوں تک ٹریفک کا گزرنا ناممکن ہوتا تھا۔ سبزی منڈی کا رش علیحدہ ہوتا تھا۔ جس کی وجہ سے طلبہ اور طالبات صبح سکول میں تاخیر سے پہنچتے تھے۔ جب ملکوال تحصیل بنی تو سید فدا شاہ یہاں اسسٹنٹ کمشنر تھے۔ بہت بھلے مانس اور دیانتدار آفیسر تھے۔ تب ان کی رہائش اس ریسٹ ہائوس میں ہوتی تھی جہاں آج کل خواتین کا گورنمنٹ ڈگری کالج ہے۔ رات کو وہاں ہماری مجلس جمتی تھی۔ فدا شاہ نہ صرف سحر خیز بلکہ شب خیز بھی تھے۔ ان کی رہائش کے ساتھ ہی تھانے کی عمارت تھی۔ رات کے دو تین بجے جب لوگ تہجد کے لیے اٹھتے تھے‘ تب تھانے میں ملزمان کو چھتر مارنے کا آغاز بھی ہو جاتا تھا۔ چھوٹے سے شہر میں ان مضروبین کی چیخیں دور دور تک سنی جاتی تھیں۔ یہ پولیس کا خاص کلچر تھا‘ جو اب بھی جاری و ساری ہے۔ تب عدالتیں بھی اسی بازار کے اختتام پر تھیں۔ جہاں یہ بازار ختم ہوتا تھا‘ وہیں پر عدالتیں بھی تھیں۔ ہمہ وقت ایک رش رہتا تھا۔ شہر کو خوبصورت بنانے کے لیے خود خوبصورت ہونا بہت ضروری ہے۔ ورنہ جو ہے اور جیسا ہے‘ کی بنیاد پر کتنے افسر آئے اور گئے۔ کسی کام نہ کاج کے‘ دشمن اناج کے۔ چند سال قیام کیا اور اگلے شہر تعینات ہو گئے‘ خس کم جہاں پاک! شہر والے اپنی جگہ خوش‘ افسر اپنی جگہ مطمئن۔ جان بچی سو لاکھوں پائے۔ نہ اس شہر کا دوبارہ رخ کیا‘ نہ شہریوں کو کسی کام یا اچھے کام کی وجہ سے وہ یاد آئے۔
بہت ساری جمہوری حکومتیں آئیں اور گئیں۔ جی ہاں! نوے کی دہائی کا ذکر ہے‘ کہنے کو وہ جمہوری نظام تھا مگر وہ جو کہتے ہیں نا کہ ہاتھی کے دانت کھانے کے اور‘ دکھانے کے اور! یہی ان جمہوری حکومتوں کا حال تھا۔ یہ جو آج کل دو سیاسی خاندانوں کی دولت کی ریل پیل کا رولا ہے‘ اس کی ابتدا اسی دور سے ہوئی تھی۔ 'اُتّوں اُتّوں کھائی جا‘ وچوں رولا پائی جا‘ کے مصداق وہ حکومتیں ایک دوسرے کی ٹانگیں بھی کھینچتی تھیں‘ آپس میں لڑتی بھڑتی بھی تھیں مگر روپے پیسے کے معاملے میں ایک دوسرے کو نہیں چھیڑتی تھیں۔ اور جیسے دعا دیتی تھیں کہ جا تینوں اللہ ہور دے۔ (جائو! اللہ تمہیں مزید دے ) اللہ اللہ کر کے وہ دور ختم ہوا‘ پرویز مشرف کا بلدیاتی دور آیا تو ہمارے شہر کی قسمت جاگ گئی۔
بہ آں گروہ کہ از بادۂ وفا مستند
سلام ما برسانید ہر کجا ہستند
اشفاق وڑائچ نام کے ایک آفیسر شہر میں کیا آئے‘ شہر کا نقشہ ہی تبدیل ہو گیا۔ وہ ہمارے واقف کار تو نہیں؛ تا ہم اب وہ جہاں بھی ہیں‘ ہمارا سلام ان تک پہنچے۔ ملکوال کے آغاز میں ایک گندا نالا ہوتا تھا‘ وہ نالا گندا ہی نہیں‘ بہت گندا تھا۔ اس کا شہر کی سیوریج سے تعلق نہیں تھا پھر بھی بہت گندا تھا۔ یہ نالا دریائے جہلم میں جا گرتا تھا۔ اس پر اس آفیسر نے ایک پل کیا بنوایا‘ شہر کو چار چاند لگ گئے۔ سب سے پہلے شہر میں داخل ہونے والی سڑک دورویہ ہوئی‘ درمیان میں گرین بیلٹ بنائی گی اور پودے لگائے گے‘ تجاوزات ختم کی گئیں۔ جس پرانے بازار کا ذکر ہے‘ وہاں ٹریفک رواں دواں ہو گئی کہ شہر کی سڑکوں پر نہیں‘ گلیوں میں رش ہونا چاہیے۔ واٹر ٹینکی کے پاس ایک کھلا قطعہ پڑا تھا‘ وہاں سبزی کی دکانیں شفٹ کر دی گئیں۔ نئے بازار میں ٹف ٹائلز لگوا کر بازار کھلا کر دیا گیا۔ کہیں کوئی ریڑھی‘ ٹھیلا نہیں تھا، سب ٹینکی والے گرائونڈ میں سما گئے۔ سبزی ٹھیلے والے بھی خوش اور عوام بھی۔ نئے بازار کے رش کو ختم کرنے کے لیے ایک نئی سڑک خواتین کالج کے بالمقابل بنائی گئی جو ریلوے روڈ سے مل کر ایک چھوٹا سا بائی پاس بن گئی۔ ہلکی ٹریفک کا وہ متبادل راستہ بن گیا۔ کہا جاتا ہے اگر آپ ہر جگہ گند پھیلانا اور تھوکنا چاہتے ہیں تو پیرس آپ کے لیے بہتر انتخاب ہے۔ گندے شہروں میں بھارت کے کان پور، فرید آباد، گوا اور بنارس (وارانسی) سب سے اوپر ہیں۔ دو سال قبل خود ہمارے ملک کے تین شہروں پشاور‘ راولپنڈی اور لاہور کو سو گندے ترین شہروں میں شامل کیا گیا تھا۔ پیرس یورپ کا گندا ترین شہر ہے‘ اسے پچھلے سال Dirty man of Europe کا خطاب دیا گیا تھا۔
ضلعی سطح پر بھی اہتمام ہونا چاہیے کہ صوبے کے چھتیس اضلاع میں سب سے زیادہ صاف ستھرا ضلع کون سا ہے۔ ضلع کی تحصیلوں میں سب سے صاف ستھری تحصیل کون سی ہے۔ شہروں‘ شہروں دیوارِ ہنر یا دیوار آرٹ کے کلچر کو فروغ دیا جائے۔ ایسے ہنر کے لیے سکولوں کی انتظامیہ کو فعال کیا جانا چاہیے۔ صرف سکول انتظامیہ ہی کو نہیں‘ ضلعی اور تحصیل انتظامیہ کو بھی۔ مگر شرط وہی ہے‘ حسنِ نیت کی۔ محمد شاہ تغلق کو خراسان سے تازہ پھل کیسے بہم ہو جاتے تھے؟ اسی شرطِ اول سے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں