وحدت

یہ سب مانتے ہیں کہ نواز شریف ملک ِ عزیز کی سیاست میں ایسی بدیہی حقیقت ہیں جس سے صرف ِ نظر کرنا ناممکنات میں سے ہے۔ ان سے اختلاف کیا جا سکتا ہے، ان کے بیانیے کو غلط ثابت کیا جا سکتا ہے، انہوں نے اب جو قومی وحدت کو نقصان پہنچایا ہے اس پر بھی دو آرا ہو سکتی ہیں (بلکہ ہیں) مگر سیاست میں ان کی اہمیت، اثر اور نفوذ سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ وہ میدانِ سیاست کے کامیاب شہسوار ہیں اور انہوں نے اپنا کِلاّ مضبوط رکھ کر کئیوں کی کلیاں اڑائی ہیں۔ اپنے گھوڑے کی لگامیں بھی اپنے قابو میں رکھی ہیں اور اپنے نیزے کی اَنی بھی تیز رکھی ہے۔ یہ بھی تسلیم کروایا ہے وہ بلا کے کامیاب شہسوار ہیں اور وڈے جگرے کے مالک بھی۔ 
نواز شریف خود کہتے ہیں کہ ان کے جوہر بحرانوں میں سامنے آتے ہیں‘ ویسے یہ بات سچ بھی ہے۔ وہ خود تسلیم کرتے ہیں کہ وہ بچپن ہی سے ضدی واقع ہوئے ہیں‘ اس لیے تسلیم کیا جانا چاہیے کہ جو ان کی کسی سے بنتی نہیں ہے‘ اس کا بنیادی محرک ان کا یہی ضدی پن ہے، جسے وہ مسکراتے ہنستے ہوئے مانتے بھی ہیں۔ بحران میں ان کا دل لگتا بھی بہت ہے۔ جونہی وہ منصبِ حکومت سنبھالتے ہیں‘ جان بوجھ کر یا نادانستہ ان سے ایسی غلطیاں ہو جاتی ہیں جن سے وہ بچ کر نکل سکتے تھے یا کوئی آپشن ایسا رہ سکتا تھا‘ جہاں معاملات پوائنٹ آف نو ریٹرن تک نہ پہنچتے مگر ان کا مزاج، ان کی شخصیت اور سب سے بڑھ کر ان کا ووٹ بینک، عوام میں مقبولیت اور اپنی پارٹی پر مضبوط گرفت ان کو اپنے اختیار کردہ مؤقف سے پیچھے نہیں ہٹنے دیتی۔ اب یہ ان کی خوبی سمجھیے یا خامی‘ حقیقت یہی ہے کہ ان چیزوں اور خوبیوں یا خامیوں نے انہیں ایک آزاد‘ خود مختار فیصلے کرنے والی شخصیت بنا دیا ہے جس میں وہ سنتے سب کی ہیں مگر اپنا راستہ خود چنتے ہیں اور اس پر عمل کر کے دکھاتے ہیں۔ ظاہر ہے اس طرح کے فیصلوں اور حکمت عملی اختیار کرنے کی ایک قیمت ادا کرنا پڑتی ہے جو انہوں نے بارہا ادا کی ہے مگر اپنی اس خوبی یا خامی‘ طاقت یا کمزوری پر قابو نہیں پا سکے۔ بظاہر ایسے لگتا ہے کہ وہ جب چاہیں وہ اپنی راہ میں خود ہی دیوار بھی بن جاتے ہیں۔ ان کی خوش قسمتی کہیے کہ جب سے انہوں نے مسلم لیگ کا اپنا دھڑا بنایا اور بعد میں اپنی جماعت بنائی‘ تب سے کوئی آدمی بھی ان کی جماعت‘ نون لیگ سے بغاوت کرنے کی جرأت نہیں کر سکا۔ کوئی اکا دکا، کوئی استثنا ہو تو الگ بات‘ وگرنہ ان کی سیاسی جماعت اور اس جماعت کے لیڈر اپنے قائد کی باتوں سے سرِ مُو انحراف کرنے کی جرأت بھی نہیں کر سکتے۔
ان کی ساری طاقت کا مرکز پنجاب ہے اور اس جماعت کی ساری مین لیڈر شپ پنجابی ہے۔ پنجابی‘ جن کے بارے میں رائے یہ بھی ہے کہ وہ ایک ایسا سورج مکھی ہیں جس کا چہرہ ہمیشہ اقتدار کے سورج کی طرف رہتا ہے‘ نواز شریف کے معاملے میں یہ مفروضہ غلط ثابت ہوا ہے۔ وہ ایک مردم شناس شخص ہیں جس کو پسند کر لیتے ہیں یا جو ان کے معیار پر پورا اترتا ہے‘ اسے وہ کسی صورت گنواتے نہیں ہیں بلکہ کہنا چاہیے انہیں سینے سے لگا کر رکھتے ہیں‘ لہٰذا وہی تاریخ کے مطعون‘ اب سینہ ٹھونک کر اپنے قائد کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں، اس کو اصل میں کہنا چاہیے زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد۔
جنوبی پنجاب کو چھوڑ کر‘ باقی سارے پنجاب میں اب بھی ان کا طوطی بول رہا ہے بلکہ ہم تو کہیں گے ہریل طوطا بول رہا ہے اور خوب بول رہا ہے۔ نواز شریف کے وزرا غیر معمولی ذہانت کے لوگ نہیں ہیں‘ ہم جب وفاق کے وزرا کی قابلیت یا معیار جاننا چاہتے ہیں تو سامنے اس ملک کے پہلے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی کابینہ کے لوگ ہوتے ہیں۔ وہ اگر زعما نہیں بھی تھے تو اس قابل ضرور ہیں کہ ان کے کردار کو یاد رکھا جائے، ان کا اسمبلی میں رول، ان کی تقاریر، ان کا شخصی رویہ اور ملک کے آئین کے بارے میں عمومی نقطہ نظر قابل تعریف اور قابل تقلید ہے۔ وہ لوگ بنیادی طور پر انٹلیکچوئلز تھے اور ایک خاص نظریاتی پس منظر کے حامل تھے۔ کس کس کا نام لیں‘ جے اے رحیم، ڈاکٹر مبشر حسن، محمود علی قصوری، عبدالحفیظ پیرزادہ، محمد حنیف خان، شیخ محمد رشید، معراج خالد، ممتاز علی بھٹو، کوثر نیازی، غلام مصطفی جتوی اور خورشید حسن میر ( دیکھیں کتنا عرصہ ہو گیا ہے مگر ان کے نام اب تک یاد ہیں )مگر یہ سارے لوگ اپنے لیڈر کو چھوڑ گئے‘ کسی نہ کسی وقت، کسی نہ کسی موڑ پر، کسی نہ کسی امتحان میں! اب اس کابینہ کے ممبران کا موازنہ نون لیگ کے وزرا سے کیجیے‘ یہ عملی سیاست کے کھلاڑی ہیں اور ایسے ٹھسے کے لوگ ہیں کہ انہوں نے کسی امتحان میں اپنے لیڈر کی پشت ننگی نہیں ہونے دی۔ اپنے لیڈر کے بیانیے کا تحفظ بھی کیا ہے اور اپنے قائد کے کہے پر پہرہ بھی دیا ہے۔ یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ دوستوں کے چنائو میں نواز شریف‘ بھٹو سے زیادہ کامیاب ہیں۔ 
اس شور شرابے میں شہباز شریف کا ڈھلمل موقف اور ڈیلیما بھی غیر متعلق ہو گیا ہے اور ہاکس نے پارٹی کے امور پر گرفت مضبوط کر لی ہے، اب وہ سارے ایک پیج پر ہیں۔ اب شہباز شریف کے لیے کوئی دوسرا راستہ نہیں کہ وہ خاموشی سے نواز شریف اور مریم نواز کی اختیار کردہ پالیسی پر چلیں۔ اگر شہباز شریف کے لیے کہیں نرم گوشہ موجود تھا بھی تو اب اس کا جواز ختم ہو چکا ہے؛ تاہم اس ساری صورت حال کا واحد حل مکالمہ ہے‘ یہ ہونا ہے۔ ڈائیلاگ ہونا ہی ہے‘ آج ہو یا کل‘ دیر ہو بدیر‘ اس کے علاوہ کسی کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں، کوئی اور آپشن نہیں۔ 
جو کچھ نواز شریف کے پاس تھا انہوں نے بلا کم و کاست ظاہر کر دیا ہے‘ اب ان کے پاس اور کچھ نہیں ہے مگر ان کے پاس کچھ بھی نہ ہو‘ مقتدر قوتوں کے پاس تو بہت کچھ ہے دینے کے لیے بھی اور لینے کے لیے بھی۔ پی ڈی ایم کے کامیاب جلسوں میں جو مؤقف انہوں نے اختیار کیا اور جس جارحانہ لب و لہجے کو انہوں نے اپنایا ہے‘ اس کا بھی اول و آخر یہی مقصد ہے کہ ان سے مکالمہ کیا جائے کہ مکالمہ سو مسئلوں کا واحد حل ہے۔ پہلے حکومت اور حکومتی وزرا کی حالت دیدنی تھی‘ اب نواز شریف اور ان کے ساتھی دفاعی پوزیشن میں اور دبائو میں آ گے ہیں کہ ان کی اختیار کردہ لائن عوام نے مسترد کر دی ہے۔ حکومت کی کارکردگی پر پہلے سوالیہ نشان تھے کہ ان دو سالوں میں وہ عام آدمی کے ریلیف کے لیے کچھ نہیں کر سکی۔ اب بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا اور سارے وزرا کے پاس وہ ہتھیار آ گیا جس سے وہ دفاعی سے جارحانہ پوزیشن میں آ گئے ہیں۔
اگر وزرا اور حکومت‘ عوام کے مسائل کا ادارک رکھتے اور ان میں ان مسائل کے حل کی اہلیت ہوتی تو عوام نے بھی کسی اور جانب نہیں دیکھنا تھا مگر جن بزرجمہروں نے نواز شریف کو ان کے گوجرانوالہ کے خطاب سے نئی سیاست کا باوا آدم کہا تھا‘ اب منہ میں گھنگھنیاں ڈالے بیٹھے ہیں اور ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کی عملی تصویر بنے بیٹھے ہیں۔ اقبال نے اپنی نظم غلام قادر روہیلہ میں کیسے کیسے اَسرار فاش کیے ہیں جب قومی حمیت باقی نہ رہے تو کیا توقیر اور کیا بے توقیری۔ اب صورتِ احوال یوں ہے جو امیر قزلباش کہہ گئے ہیں ؎
میں دل کا حال نہ آنے دوں اپنی پلکوں تک
یہ گھر کی بات ہے گھر میں رہے تو اچھا ہے
اب وہ بھی سارے سمجھتے ہیں کہ قومی وحدت پر کوئی سمجھوتا نہیں، کوئی رعایت نہیں کہ پہلے پاکستان پھر کوئی دوسرا ارمان، مگر مکالمہ ضروری ہے یہ ہونا ہی ہے‘ آج ہو یا کل۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں