سڑک

سفر وسیلۂ ظفر تو ہوتا ہی ہے مگر اس کے لیے بھی ضروری ہے ایک سڑک، اچھی، صاف اور کشادہ سڑک! منڈی بہاء الدین ضلع کے حصے یا نصیب میں ایک ہی اچھی سڑک لکھی ہوئی ہے۔ منڈی بہاء الدین تا سالم موٹر وے انٹر چینج‘ صرف چوہتر کلومیٹر کا ٹکڑا بس ایک ٹکڑا۔
بھیرہ انٹر چینج سے منڈی بہاء الدین کی تحصیل ملکوال کی حدود میں داخل ہوں تو ٹوٹی سڑک زبانِ حال سے بتا دیتی ہے کہ نئے ضلع کی حدود شروع ہو گئی ہیں۔ کہا جاتا ہے منڈی بہاء الدین میں داخل ہونے کا ایک راستہ ہے‘ نکلنے کا ایک بھی نہیں۔ چند سال پہلے یعنی سابقہ حکومت کے دور میں منڈی بہاء الدین تا موٹر وے سالم انٹر چینج دو رویہ سڑک مکمل ہوئی تھی جس نے سارا لینڈ سکیپ ہی تبدیل کر دیا۔ عشروں بعد وقت کی بچت کے ساتھ روزانہ کے حادثات اور حادثات کے خدشات سے نجات حاصل ہوئی۔ گجرات تا منڈی بہاء الدین روڈ پہلے ہی دو رویہ تھی۔ ان دو سڑکوں کے علاوہ یہاں وہاں ٹوٹی پھوٹی گزرگاہیں ہیں۔ گمان ہوتا ہے کہ یہاں کبھی سڑکیں ہوتی تھیں اب یہ انجر پنجر ہلانے کا سامان ہیں بس۔
بھیرہ سے ملک وال داخل ہوں‘ جہاں ضلع کی پہلی پولیس پوسٹ ہے‘ وہاں سے لے کر آپ جس طرف چلے جائیں‘ سڑکیں نہیں ہیں بلکہ سڑکوں کے نشان ہیں۔ ریلوے پھاٹک تک آتے نہ آپ کی گورنمنٹ ہائی سکول کی جانب نگاہ اٹھے گی نہ اس عظیم درسگاہ کا مین گیٹ آپ کو نظر آے گا کیونکہ کسی مشاق پائلٹ کی طرح ہمہ وقت آپ نے ناک کی سیدھ میں دیکھنا ہے ورنہ کس نہ کسی گڑھے میں گرنے کے آپ خود ذمہ دار ہیں۔ صابری محلے سے ہو کر جو سڑک گزرتی ہے‘ وہ ایک قسم کا ملک وال شہر کا بائی پاس ہے۔ اس کا متبادل بھی کوئی نہیں۔ مشرقی پھاٹک تک اور وہاں سے ریلوے لائن کے ساتھ کی سڑک اور گندے نالے سے ہو کر ملک وال منڈی بہاء الدین مین روڈ تک پہنچنا کے ٹو کی چوٹی سر کرنے کے مترادف ہے۔ ریلوے کوارٹرز کی حالت زار ایک علیحدہ کالم کی متقاضی ہے۔ مین ملک وال منڈی بہاء الدین روڈ کی حالت ایک عشرے سے کسی مسیحا کی منتظر ہے۔ ملک وال گرڈ سٹیشن،گورنمنٹ ڈگری کالج ملک وال کے سامنے اور بادشاہ پور میں جس طرح گٹر ابل ابل کر ماحول کو متعفن کر رہے ہیں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ البتہ ایک سڑک جو نہر لوئر جہلم کے بائیں کنارے پر بنائی گئی ہے وہ بہتر ہے مگر اس کے دو نقصانات ہیں۔ ایک تو وہ رات کے وقت غیر محفوظ ہے، دوم وہ مین روڈ کے سارے دیہات سے اور آبادیوں سے دور ہے۔ اس سڑک پر کوٹ ہست کے قرب و جوار میں پولیس پوسٹ کی بھی اشد ضرورت ہے۔
کھاریاں اور سرائے عالمگیر سے آنے والی ٹریفک کو شہانہ لوک تا منڈی بہاء الدین جس کوفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ ناقابل برداشت ہے۔ چاندنی چوک تا مونہ نہر لوئر جہلم تک جو آٹھ میل کا ٹکڑا ہے‘ اس کا اللہ ہی حافظ ہے۔ البتہ مونہ پل تا سرگودھا منڈی بہاء الدین روڈ کی حالت تسلی بخش ہے۔ منڈی بہاء الدین سے شوگر مل روڈ‘ جس پر شہر سے نکلنے اور داخل ہونے والی ایک چوتھائی ٹریفک کا بوجھ ہے‘ مرمت کے قابل ہے۔ منڈی بہاء الدین سے ملک وال روڈ مکمل تباہی کی داستان ہے۔منڈی بہاء الدین تا شوگر مل روڈ کی خستہ حالی کی وجہ سے ساری ٹریفک ریلوے لائن کے ساتھ چلتی ہے جس پر ٹریفک کا دبائو بہت زیادہ ہے۔ شہر کے اندر پارکنگ نہ ہونے کی وجہ سے جگہ جگہ گاڑیوں کو پارک کرنے کی وجہ سے ٹریفک کے بہائو میں شدید خلل پڑتا ہے۔ اسی طرح کھاریاں روڈ تا شوگر مل کا بائی پاس مرمت ہونے والا ہے۔ پھالیہ سیال موڑ موٹر وے کی حالت اچھی ہے۔
گجرات ضلع 1993 ء تک تین تحصیلوں پر مشتمل تھا؛ تحصیل گجرات، تحصیل کھاریاں اور تحصیل پھالیہ۔ ان تینوں تحصیلوں میں سب سے پسماندہ اور سب سے نظرانداز ہونے والی تحصیل پھالیہ تھی۔ تحصیل پھالیہ کے تمام دفاتر منڈی بہاء الدین میں واقع تھے، کاغذات میں نام پھالیہ کا تھا مگر اصل تحصیل کا صدر مقام منڈی بہاء الدین تھا۔ منڈی بہاء الدین 1962ء میں سب ڈویژن بنا تھا جہاں ایک ڈگری کالج ایک خواتین کا کالج اور ایک کامرس کالج تھا۔ اس کے علاوہ تحصیل میں اور کوئی کالج نہیں تھا۔ یہی حال صحت کی سہولتوں کا تھا۔ ایک سول ہسپتال منڈی بہاء الدین شہر، ایک پھالیہ شہر میں اور ایک سول ڈسپنسری ملکوال میں ہوتی تھی۔ اس تحصیل کی پسماندگی کی وجہ غلط یا صحیح‘ عوام میں یہ پائی جاتی تھی کہ گجرات شہر کی ترقی ہماری تحصیل کی آمدنی پر ہے اور عام بحث میں یہ نعرہ بھی لگایا جاتا تھا کہ پھالیہ‘ جس کا سب سے زیادہ مالیہ! اب یہ پتا نہیں تھا کہ کیا پورے پنجاب میں اسی تحصیل کا مالیہ زیادہ ہوتا تھا یا نہیں لیکن یہ تاثر عام پایا جاتا تھا کہ اس تحصیل کی آمدنی ضلع کی سب تحصیلوں سے زیادہ ہے۔ دوسری وجہ اس کی لیڈرشپ کی تھی۔ چوہدری ظہور الٰہی کی اس علاقے میں بہت مقبولیت تھی۔ علاقے کی سیاسی سیادت ہمیشہ بوسال خاندان کے پاس تھی‘ اب بھی وہ بااثر ہیں۔ 1970ء کے انتخابات میں کنگ آف بار کو پیپلز پارٹی کے ایک غیر معروف رکن منظور حسین دھدرا کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ لوگوں میں یہ تاثر بھی پایا جاتا تھا کہ گجرات کے لوگ منڈی بہاء الدین میں کسی کو سیاسی طور پر آگے نہیں بڑھنے دیتے اور منڈی بہاء الدین کی ساری سیاسی قیادت ان کی نظرِ کرم کی محتاج رہتی ہے۔ اس تحصیل میں موجودہ ساری سیاسی قیادت منڈی بہاء الدین کے ضلع بننے کے بعد ہی قومی سطح پر تسلیم ہوئی جن میں گوجرہ کے گوندل برادران اور پنڈمکو کا چن خاندان( ضلع بنوانے کا کریڈٹ ان کے پاس ہے )، کراڑی والا کے گجر برادران، بھکی شریف کا سید خاندان، منڈی بہاء الدین شہر کا دیوان،حمیدہ میاں وحید الدین، ملکوال شہر کا چائے والا خان خاندان اور قادر آباد کا بھٹی خاندان شامل ہیں۔ تحصیل پھالیہ میں تارڑ خاندان اور چوہدری غلام رسول تارڑ اس میں ایک استثنا کی مثال تھے‘ جنہوں نے چوہدری ظہور الٰہی کو انتخابات میں شکست دی تھی۔
1962 ء سے یکم جولائی 1993 ء تک اس پسماندہ تحصیل کے حالات قابلِ رحم حالت میں تھے کہ صوبہ پنجاب میں میاں منظور احمد وٹو کے نام پنجاب کی وزات اعلیٰ کا قرعہ نکلا اور اس شہر اور علاقے کی قسمت جاگی۔ ایک تاثر یہ بھی تھا کہ وزیر اعلیٰ وٹو اور بے نظیر بھٹو نے مل کر گجرات کے چوہدری برادران‘ جو اس وقت نواز شریف کے دست راست تھے‘ کی سیاسی طاقت کو تقسم کرنے کے لیے اس تحصیل کو ضلع کا درجہ دیا۔ خیر محمد ٹوانہ کو اس ضلع کا پہلا ڈپٹی کمشنر بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔
نپولین نے تو کہا تھا مجھے پڑھی لکھی خواتین دیں میں آپ کو ایک پڑھی لکھی قوم دوں گا۔ اسی طرح کہا جاتا ہے سڑک ایک روشنی کا سمبل ہے جہاں جہاں سڑک جاتی ہے وہاں وہاں ترقی بھی جاتی ہے۔ لوگوں کے حالات بھی بدلتے ہیں۔ ضلع کی یہ سڑکیں ذرائع نقل و حمل میں بنیادی حیثیت کی حامل ہیں۔ مختلف دیہات سے شوگر مل تک کسانوں کو گنا پہنچانے کے لیے جس مصیبت کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ کسان ہی جانتے ہیں۔ کرشنگ سیزن کے چھ ماہ کے دوران ٹریفک جس دشواری سے گزرتی ہے اور جس طرح وقت کا ضیاع ہوتا ہے وہ اس بات کا متقاضی ہے کہ وہاں متبادل روٹ سے ٹریفک رواں دواں رکھی جائے۔ دو تین اہم سڑکوں پر بلاتاخیر کام شروع ہونا چاہیے۔ ان میں شہانہ لوک تا منڈی بہاء الدین شہر، منڈی بہاء الدین تا ملکوال، ملکوال تا گوجرہ، میانہ گوندل تا جسووال، بھابڑہ اور وریام براستہ چک عالم گوجرہ کی سڑکیں شامل ہیں۔ اگر ان سڑکوں کا عام جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آ جاتی ہے کہ منڈی بہاء الدین تا سالم انٹر چینج‘ سڑک کے دائیں طرف کی پٹی خراب حالت میں ہے۔
اسی دائیں پٹی کی کثیر تعداد غیر ممالک بالخصوص یورپ میں مقیم ہیں۔ وہ زر ِ مبادلہ کی خطیر رقم وطنِ عزیز میں بھیجتے ہیں لہٰذا ان کا یہ اولین حق ہے کہ مذکورہ سڑکیں ہنگامی بنیادوں پر نئے سرے سے بنائی جائیں اور جہاں جہاں سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار اور مخدوش حالت میں ہیں‘ ان کی فی الفور مرمت کا آغاز کیا جائے اور سفر کے قابل بنایا جائے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں