آفتاب احمد شاہ کی اچانک رحلت کی خبر آئی تو بادشاہ پور کا سفر کیا۔ حافظ شیرازی کا رکن آباد اور ہمارا بادشاہ پور۔ نہ حافظ کا کوئی محل نہ ہم بادشاہ مگر بادشاہ پور سے محبت اتنی ہے کہ کسی بادشاہ کو اپنی سلطنت سے نہ ہو گی۔کاتب نیشا پوری نے کہا تھا ؎
ہست در کوئے تو ہر ساعت تماشائے دگر
مردن آنجا بہ کہ بودن زندہ در جائے دگر
تیرے کوچے میں ہر دم ایک دوسرا ہی نظارہ ہوتا ہے لہٰذا وہاں مرنا، کسی دوسری جگہ زندہ رہنے سے بہتر ہے۔ آفتاب احمد شاہ نے اسے سچ کر دکھایا۔
شیراز میں بھی کیا کیا ہستیاں پیدا ہوئیں اور اس شہر کو امر کر گئیں۔ بادشاہ پور میں بھی کیا کیا گمنام ہوئے ہیں کہ دل سے نکلتے ہی نہیں ہیں۔ بے سروسامان، روٹی پانی کے محتاج، روزگار کی تلاش میں نکلنے والے اور پھر کبھی واپس نہ لوٹنے والے۔ نہر لوئر جہلم کو کھودنے والے اس سے نکلنے والی مٹی کے ساتھ مٹی ہونے والے۔ عرفیؔ کا شیراز، سعدیؔ کا شیراز، حافظؔ کا شیراز، قانیؔ کا شیراز، ملا صدراؔ کا شیراز۔ صفدر عباس زیدی کا بادشاہ پور، سراج قادری کا بادشاہ پور، آفتاب احمد شاہ کا بادشاہ پور۔ ان کے علاوہ بادشاہ پور میں ہزاروں ایسے ہیں جو پیدا ہوئے اور رزقِ خاک ہوئے نہ نام نہ نشان۔ بادشاہ پور کے عظیم لوگ۔
بادشاہ پور کے ساتھ دریائے جہلم بہتا ہے بالکل ساتھ، دس قدموں کے فاصلے پر۔ اور بادشاہ پور کے سامنے دریا نمک زار کے ساتھ بہتا ہے۔ کئی ہزاریے گزر گئے نہ کوہستانِ نمک کا نمک ختم ہوا نہ جہلم دریا کے پانی کی مٹھاس۔ کوہستانِ نمک کے قدموں پر نثار ہوتا ہوا دریا۔ نہ پہاڑوں کی نمکینی گئی نہ دریا کا شیرینی۔ خوشاب یعنی خوش آب۔ میٹھا پانی دریائے جہلم کے پانی کی وجہ سے دیا گیا نام۔ بادشاہ پور کے شمال میں ایک قدیم ٹبہ ہے‘ اس کے ساتھ نہر لوئر جہلم بہتی ہے جو اس ضلع کو سیراب کرتی ہیڈ فقیریاں سے ضلع سرگودھا کی تحصیل کوٹ مومن میں داخل ہوتی ہے اور گھلاپور سے ہوتی ہوئی کنوئوں کے باغات کو سیراب کرتی ہے۔ یہ نہر بادشاہ پور اور دریا کے درمیان بفر سٹیٹ ہے۔ نہ دریا یہ عظیم نہر کراس کرتا ہے نہ بادشاہ پور اس سمت جاتا ہے۔ اسی ٹبے پر آفتاب شاہ اپنی زندگی کا آخری عشرہ گزارا۔احمد وانی فیصل مسجد میں ملے تو کہنے لگے: بادشاہ پور وہی جگہ ہے جہاں سے سکندر اعظم نے دریا پار کیا تھا۔ یہیں راجہ پورس کی سلطنت تھی۔ بادشاہ پور اولیا کی سرزمین‘ شاعروں کا مسکن‘ سید احمد شاہ، پیر مہر علی شاہ اور میراں شاہ جیسی ہستیوں کا مدفن۔ آفتاب احمد شاہ نے بادشاہ پور سے خوب نبھائی۔ تعلیم‘ نوکری اور رحلت تک اسی فقیر خانہ میں قیام رہا۔ چند دن پہلے اسی مٹی کے ایک اور بڑے آدمی ڈاکٹر نذیر احمد انور کی وفات ہوئی۔ وہ بھی ایک بے مثل انسان اور اگلے زمانوں کی شرافت کے نمونہ تھے۔ ساٹھ سال اپنے علاقے کی بلاتخصیص خدمت کی۔ کیا امیر‘ کیا نادار‘ سب پر مہربان۔ اپنا ذاتی ہسپتال جو غربا اور مستحقین کے لیے حاضر۔ اپنی وفات سے پہلے انہیں اپنے نوجوان صاحبزادے شاہد نذیر کی ڈکیتی کے دوران شہادت کا صدمہ دیکھنا پڑا۔ ڈاکٹر نذیر احمد انور کی بھی یہیں تدفین ہوئی۔
آفتاب احمد شاہ کے خانوادے سے ہمارا ایک صدی سے محبت، انس اور علم سے باہمی لگائو والا رشتہ تھا۔ ان کے والد وحیدِ جہاں قبلہ منظور حسین شاہ اور والد صاحب کے درمیان ایک لازوال محبت تھی۔ آفتاب احمد شاہ ایک بیوروکریٹ تھے‘ ایک اعلیٰ دماغ بیوروکریٹ۔ مصطفی زیدی، مختار مسعود، افسر ساجد اور حمید رازی کے لیول کا بیورو کریٹ۔ ادب سے کمیٹڈ‘ عام محفلوں سے کوسوں دور مگر سید افسر ساجد کی طرح کی کل پاکستان مشاعرے کروانے والا۔ ظفرؔ اقبال کا عاشق، پیر فضل گجراتی اور ''ڈوہنگے پینڈے‘‘ جیسی کتاب کا حافظ۔ بذلہ سنج‘ حاضر جواب‘ اس پاکستانی بیورو کریٹک سسٹم سے نالاں‘ اس سے باغی۔ اصول کا پابند۔ جس پر نہ کرپشن کا الزام نہ داغ۔ قانون کی سیدھ میں چلنے والا بیورو کریٹ۔ ڈیرہ غازی خان میں پوسٹنگ کے دوران کیا نواب‘ کیا جاگیردار‘ کیا وڈیرے اور کیا غریب کلاس کا مزدور‘ سب کو ایک نظر سے دیکھنے والا بہادر آفیسر۔ نہ کسی سے خوف نہ کسی قسم کی مرعوبیت ان کی ذات کے اندر تھی۔ کوئی نہیں کہہ سکتا اس عہد ِ زر میں اس نے کسی سے پوسٹنگ کی بھیک مانگی ہو۔ ترقی کے لیے کسی کے سامنے ہاتھ پھیلایا ہو۔ اپنے آپ میں مگن‘ اپنے آپ سے مطمن۔ یہاں ایسے ایسے افسران ہیں کہ ایک ایک سٹیشن پر ایک ایک سال کا کنٹریکٹ لینے کے لیے کیا کیا پاپڑ بیلتے ہیں۔ آخر میں ملتا کیا ہے؟ چار پیسے اور بے ضمیری کا طعنہ۔ سمجھوتے کرتے کرتے ریٹائرمنٹ کا دن آ جاتا ہے۔ ایک دوسرے کو گرا کر‘ ایک دوسرے کو کچل کر‘ ان پر کھڑے ہونے والے کیا جانیں نظامِ زر کے علاوہ بھی کوئی دنیا ہے۔
آفتاب احمد شاہ نے اپنی ادبی زندگی مجلّہ اوراق سے آغاز کی۔ شاعری کے تین مجموعوں کا خالق اور تینوں میں بغاوت‘ ایک سی بغاوت‘ جو پہلے دن باغی تھا‘ آخری دن تک باغی رہا۔ فردِ جرم، تعزیر، کچھ تو بات ہو گی اور اس پر مستزاد کوئے ملامت کے نام سے کلیات بھی شائع ہوا۔ ان مجموعوں کے نام ظاہر کرتے ہیں کہ جو راستہ انہوں نے اپنے لیے چنا تھا‘ انہیں اس کی صداقت پر یقین تھا۔ گیارہ سال اس ملک وقوم کے ضائع کرنے والے اور معاشرے کو عدم برداشت کے گڑھے میں پھینکنے والے سے لے کر سابقہ حکمرانوں تک‘ سب نے ان کے کیریئر کو تباہ کیا۔ ترقی پسندی سے عشق‘ اپنے نظریات سے عشق‘ مہد سے لحد تک برقرار رہا۔ اس کے پاس کہنے اور لکھنے کو بہت کچھ تھا۔ وہ وقت ٹپائو ادیب نہیں تھا۔ اپنے کہے کا مکمل پہرہ دینے والا ادیب تھا وہ۔ وہ وزیراعظم پاکستان کے پرنسپل سیکرٹری بھی رہے مگر مجال ہے کہ وہ رعونت جو اس عہدے پر پہنچ کر عود کر آتی ہے‘ ان کے قریب سے بھی گزری ہو۔ بلا کے حاضر جواب‘ بلا کے ذہین۔ ساٹھ ستر سال کی دوستی ان کی ہمارے بڑے بھائی توقیر احمد فاق سے اور وہ بھی بچپن سے۔ پیار محبت کا سلسلہ ہم سب بھائیوں سے۔ ہمارا گھر ان کا دوسرا گھر تھا‘ بے تکلفانہ آنا جانا تھا۔ بزرگوں کے تعلق کو انہوں نے خوب نبھایا۔ یہی محبت ان کا سرمایہ تھی‘ ہمارے ساتھ تو خصوصی محبت والا رشتہ تھا۔ انہوں نے ایک ہنگامہ خیز زندگی گزاری۔ منافقت اور دنیا داری ان کے قریب سے بھی نہیں گزری تھی۔ دوستوں کا مکھیا اپنے خاندان کا مکھیا۔
ان کی قبر پر فاتحہ خوانی کے بعد دریا کنارے گائوں کے قدیم قبرستان بھی جانا تھا۔ وہاں میری تین بہنیں مدفون ہیں، بڑی اماں اور بہن فاطمہ کی قبریں ساتھ ساتھ ہیں۔ بہن کی وفات چھ فروری 1973ء کو ہوئی تھی۔ ان کی موت کا غم بھی تازہ ہے اور قبر بھی۔ قبر کی اپنی کشش ہوتی ہے۔ دریا کنارے پر قبروں کے ہجوم میں گھری قبر۔ وَن کے قدیم پیڑ کے نیچے۔ شام کے ملگجے اندھیرے اجالے کے مابین اس ماں جائی کی قبر پر وہ آنسو بھی نذر کیے جو زندگی میں اس کے ساتھ مل کر نہیں بہا سکا تھا۔ ہم تو صائمہ آفتاب کو بادشاہ پور کی ہی بیٹی کہتے اور سمجھتے ہیں۔ اپنے ابو کو بادشاہ پور کی پاک مٹی اور سید احمد شاہ بخاری کے احاطے میں سپرد خاک کر کے وہاں چپ چاپ اپنے اہل و عیال کے درمیان گم سم کھڑی لڑکی کو یقین آ گیا ہو گا کہ آفتاب احمد شاہ بھی بادشاہ پور کے تھے۔
کبھی مشہد کبھی ترمذ کبھی قم اور بخارا
غریبانِ وطن کو روکنے والے بہت تھے
تھر کی مائی بھاگی نے اپنی قدیم بولی ڈھاڈکی میں کیا کہا تھا ؎
کھڑی نیم کے نیچے ہوں تو ہیکلی
جاتڑو بٹاڑو مانا چھانی مانی دیکھ لے
میں نیم کے پیڑ کے نیچے اکیلی کھڑی ہوں‘ میرے پیارے مجھے غور سے دیکھو تاکہ جب تُو واپس آئے تو مجھے اسی طرح پائے۔
روپلو کولہی کو انگریزوں نے گرفتار کیا اور پوچھا: تمہارا مکھیا کہاں روپوش ہے؟ روپلو نے تو کسی کو نہ بتایا مگر صائمہ آفتاب جہاں کھڑی تھی‘ وہیں ایک مکھیا بادشاہ پور میں ہمیشہ کے لیے روپوش ہو گیا تھا۔