دہلی

سوادِ رومۃ الکبریٰ میں دلّی یاد آتی ہے
اقبالؔ نے سچ کہا تھا لیکن اس کا دوسرا مصرع لکھنے کو جی نہیں کر رہا کہ یہ دوسرا مصرع وہ تلخ حقیقت ہے جو تیر کی طرح سینے میں ترازو ہو جاتی ہے اور دلّی کی یاد کا مزا کرکرا ہی نہیں کرتی‘ تکلیف بھی دیتی ہے۔ع
وہی عبرت، وہی عظمت، وہی شانِ دل آویزی
شانِ دل آویزی بھی درست‘ عظمت کو بھی سلام مگر اس عبرت کے نام سے ہول اٹھتے ہیں۔ ایک ہزار سالہ تاریخ کو بھول جانے کے لیے ہمت مجتمع کرنا پڑتی ہے۔ برطانیہ بھی اس رومۃ الکبریٰ کا تقریباً چار سو سال تک حصہ رہا۔ یہ عرصہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دورکے ساٹھ‘ ستر سال بعد سے ہی شروع ہو جاتا ہے کہ جولیس سیزر نے حضرت عیسٰی علیہ السلام کی ولادت سے پہلے حملہ کیا تھا۔ قرونِ وسطیٰ میں عثمانی سلطنت قائم ہو گئی اور قدیم رومن ایمپائر تاریخ کا حصہ بن گئی۔
اسی دلّی کی طرف سفر‘ جس کی یاد اقبالؔ کو سوادِ ِ رومۃ الکبریٰ میں ستاتی تھی‘ کا ارادہ باندھ لیا تھا۔ وہی دلّی جس کی یاد مرشد اقبالؔ کو تڑپاتی بھی تھی اور رلاتی بھی‘ اسی دلّی کی جانب ہمارا سفر شروع ہونے والا تھا۔ یہ ہمارے لیے ایسے تھا جیسے ہم اپنی کھوئی ہوئی میراث دیکھنے جا رہے ہیں۔ اس دلّی کے تاریخ میں کئی نام ہیں۔ شاہجہان آباد، فیروز آباد، جہاں پناہ اور تغلق آباد اور آج کل دہلی‘ بلکہ نیو دہلی‘ جس کے بارے میں میرؔ کہہ گئے ہیں ؎
دلّی کے نہ تھے کوچے اوراقِ مصور تھے
جو چیز نظر آئی تصویر نظر آئی
اسی دلّی کا سفر ہم نے دوستی بس سروس کے ذریعے کیا۔ یہ لش پش بس لبرٹی مارکیٹ کے پچھواڑے سے فجر کے وقت نکلتی اور شام ڈھلنے تک دلّی انڈیا گیٹ جا پہنچاتی۔ اس دن بھی تڑکے تڑکے یہ سفر شروع ہوا۔ رستے میں پہلا باقاعدہ پڑائو سرہند شریف تھا۔ یہاں ایک نہر کے بیچ جھولتے پل پر آراستہ ریسٹورنٹ میں ہمارا دوپہر کا کھانا تھا۔ سرہند شریف کا نام آئے اور مجددِ الف ثانیؒ نہ یاد آئیں‘ یہ کیسے ہو سکتا تھا۔ یہ شہر کسی زمانے میں ہندوستان میں علمی راجدھانی تھا۔ مجدد الف ثانیؒ کے مزار کے احاطے میں ہی والیِ افغانستان زمان شاہ درانی اور ان کی بیگم کی بھی قبریں ہیں۔ زمان شاہ‘ احمد شاہ درانی کے پوتے تھے۔ کہاں پیدا ہوئے اور کہاں آخری ٹھکانہ بنا۔ مجدد الف ثانیؒ کے مخدوم زادہ خواجہ محمد معصوم کے نام لکھے خط میں لکھے لطیف نکتے کہ ''خوشی و رنج‘ تنگی و فراخی اور نعمت و عذاب دکھ‘ سکھ‘ عطا اور بلا میں اللہ کی حمد ہیں‘‘کو یاد کر کے دہلی کو یاد کر رہے تھے اور اسی سوچ میں گم تھے کہ بس اپنی منزل کی جانب روانہ ہو گئی۔ چونکہ سفر دہلی کا تھا لہٰذا دوستی بس کے مسافروں نے گفتگو بھی اسی دہلی کے حوالے سے کی۔ دہلی کے تخت کے لیے لڑنے والے لوگ بھی اور مقام بھی زیر بحث آتے رہے۔ دہلی‘ جس کے بارے میں کہا گیا ؎
شہرے چو بہشت در نکوی
چوں باغ ارم بتازہ روی
سو اس کے آباد اور برباد ہونے کے واقعات بھی یاد آتے چلے گئے۔ یہاں ہیرو کون ہے اور حملہ آور کون‘ ہارنے والے ہیرو تھے یا دور دیس سے آ کر جیتنے والے‘ یہ ایک لمبی تھکا دینے والی مگر دلچسپ بحث تھی تاآنکہ بس لدھیانہ، انبالہ سے گزرتی پٹھانکوٹ کو دائیں جانب چھوڑتی پانی پت میں داخل ہوئی تو مین ہائی وے کی سروس روڈ پر ساڑھی میں ملبوس خاتون سکوٹی پر آتی دکھائی دی۔ یہی تین بڑی جنگوں کا میدان تھا۔ پانی پت تین بڑی جنگوں کی تاریخ سمیٹے ہوا بڑا سا شہر۔ تینوں جنگوں میں مجھے آخری دو جنگوں سے زیادہ دلچسپی تھی۔ ان دو جنگوں میں پہلی جنگ اکبر اور ہیمو کے درمیان لڑی گئی۔ ہیمو بقال جس کا اصل نام سمراٹ ہیم چندرا وکراما دتیہ تھا‘ جو ہریانہ کے گائوں ریواڑی کا رہنے والا تھا؛ یعنی اپنا پنجابی گرائیں۔
پھر ہیمو نام پنجاب میں پسندیدہ نام ہو گیا‘ اس وقت پنجاب کے ہر گائوں میں ایک‘ دو ہیمو ہوتے تھے۔ خواہ مسلمان‘ خواہ ہندو‘ ہوتے ضرور تھے۔ اختر حسین اخترؔ نے کہا: وہ پنجاب نہیں‘ ہریانے کا رہنے والا تھا۔ کسی نے کہا: اب وہ علاقہ خواہ ہماچل پردیش میں ہو‘ اصل تو پنجاب کا ہی تھا۔ خود دہلی کو اب بھی تین اطراف سے پنجاب نے گھیرے میں لے رکھا ہے۔ پنجاب‘ جسے آپ ہریانہ کا نام دے لیں۔ ہیمو کی سمادھی بھی یہیں پانی پت میں ہے۔
یہ یادگار سفر اجیت کور کی دعوت پر تو نہیں ہوا تھا ؛البتہ وہاں دلّی میں میزبان وہی تھیں۔ وہ خود لاہور شہر میں پیدا ہوئیں‘ اس شہر سے ان کا عشق بھی والہانہ ہے۔ وہی اس کانفرنس کی میزبان بھی تھیں جس میں بنگلہ دیش، سری لنکا، بھوٹان، نیپال، افغانستان اور دیگر کئی ممالک کے ادبا بھی شامل تھے۔ ہندوستان کے لکھاریوں اور ادیبوں سے ملاقاتیں ہوئیں جن میں سب سے زیادہ خوشی ہمیں دیوندر اسر، جوگندر پال، نند کشور وکرم اور گلزار صاحب سے مل کر ہوئی۔ جب ہم نے گلزار کو بتایا کہ ہم آپ کے شہر میں ایک نجی بینک میں چیف منیجر ہیں تو باقی دن وہ ہمیں چیف صاحب کہہ کر بات کرتے تھے۔ تب ان کی آنکھوں میں ایک خاص چمک ابھرتی جو ان کے آبائی وطن اور شہر کے ذکر پر چھپاے نہیں چھپتی تھی۔ ہم نے دیکھا کہ سات سمندر پار بھی آپ اس مٹی کو نہیں بھول سکتے جہاں آپ نے جنم لیا ہو اور کوئی آپ کے شہر کا رہنے والا مل جائے تب خوشی دُگنی کیا چار گنی ہو جاتی ہے۔ یہی گلزار کی آنکھوں سے ظاہر و باہر تھا۔ دیوندر اسر اور زبیر رضوی سے تو سرسری ملاقات ہی ہو پائی؛ البتہ جوگندر پال اور نند کشور وکرم کے گھر ان دونوں سے بڑی تفصیلی ملاقاتیں ہوئیں جو ہماری زندگی کا حاصل ہیں۔ جوگندر پال کے گھر ہم اسلم سراج الدین کو بھی لے گئے اور بہت دیر بیٹھے رہے۔ رات کو نند کشور وکرم کے ہاں البتہ طاہرہ اقبال، حمیرا راحت اور اسلم سراج الدین اکٹھے گئے اور پو پھٹنے کے وقت تک باہمی محبت نے اٹھنے نہیں دیا اور وقت گزرنے کا پتا بھی نہ چلا۔
سارک رائٹرز کانفرنسوں کا ماحول کافی کھلا ڈُلا ہوتا تھا کہ ہر ادیب دیگر ممالک کے ادبا کے ساتھ بہتر گفتگو بھی کر لیتا تھا اور ایک خاص دائرے اور حدود میں رہ کر اُن پالیسیوں کو ہدفِ تنقید بھی بنا لیتا تھا جو سارک ممالک کے درمیان دوستی میں مانع تھیں۔ اس میں وہاں نجی محفلوں میں کشمیر کی آزادی اور ستر سالوں سے جاری مظالم پر بات بھی ہو جاتی تھی۔ سری لنکا کے ادیب بھی بھارت کی غاصبانہ حکمت عملی کے ناقد تھے۔ صبح کی چائے پر دوپہر اور رات کے کھانے پر ان ادبا سے ہر موضوع پر بات ہوتی تھی۔ ایک دوسرے سے گفتگو اور مکالمے کے درمیان ایسی باتیں بھی ہم آپس میں کر لیتے تھے جن کا اصل مقصد یہی ہوتا تھا کہ اس خطے کے لوگوں کے درمیان میل جول‘ آنا جانا بڑھنا چاہیے۔ ذرائع آمد و رفت کھلنے چاہئیں۔ ویزا پالیسی آسان ہونی چاہیے تا کہ ایک دوسرے سے مل کر ایک محبت اور بھائی چارے کی فضا قائم کی جا سکے۔ ایک دوسرے کے مسائل کا علم ہو‘ باہمی رقابت سے درگزر کیا جائے تا کہ ان ممالک کے عوام ایک دوسرے کے نزدیک آ کر اپنی اپنی حکومتوں اور ملکوں کو بتا سکیں کہ ساری دنیا میں ہمسایے اب جنگوں سے تھک گئے ہیں۔ اب امن کی بات ہو اور مسائل پیدا کرنے کے بجائے ایک دوسرے کے نزدیک آنے کے وسائل پیدا ہوں۔ سارک کا آئیڈیا بہت اچھا تھا مگر تف ہے اس ہمسایہ ملک پر جو علاقائی حکمرانی کے خواب میں تاریخ اور جغرافیے سمیت ہر چیز کو ملیا میٹ کرنے پر ادھار کھائے بیٹھا ہے مگر ہمیں دہلی اب بھی یاد آتی ہے۔ وہی دہلی جس کے ساتھ جمنا بہتی ہے۔ کمال ہے یہاں بھی راوی بہتا نہیں بہتی ہے‘ ویسے ہی جمنا بھی بہتا نہیں بہتی ہے !

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں