نِکّو

اس کا نام سعد اللہ تھا‘ شاہجہان کا وزیر اعظم تھا۔ بلا کا حاضر جواب اور نکتہ سنج۔ وہ قطعاً ''نکّو‘‘ نہیں تھا مگر ایک دوست کا کہنا ہے کہ اس کا انداز نکوئوں والا ہی تھا۔ شاہجہان نے ایران کے بادشاہ کو اس زمانے کے طور طریقے کے مطابق مقفیٰ اور مسجع خط ارسال کیا۔ خط دربار ِ ایران میں پہنچا تو وہاں کے ایک نکّو نے بادشاہ کو بتایا کہ شاہجہان تو ہندوستان کا بادشاہ ہے وہ شاہ ِ جہان کیسے ہو گیا؟ وہ تو محض شاہ ِ ہند ہے۔ یہی بات بادشاہ نے خط میں لکھی اور ایلچی خط لے کر دلّی روانہ ہو گیا۔ دربار ِ شاہ جہان میں خط پڑھا گیا تو مشکل پیش آ گئی کہ اس معمے کا کیا حل ہو اور شاہِ ہند اور شاہِ جہان کے اعتراض اور نکتے کی کیا توضیح کی جائے ؟ معاملہ اپنے پنجابی بھائی تک آیا۔ اس نے کہا: بادشاہ کا اقبال بلند ہو‘ شاہ ِ ہند اور شاہ ِ جہان دونوں کے عدد برابر ہیں۔ دربار داد و تحسین سے گونج اٹھا، بادشاہ خوش ہوا اور عدد بتانے والے کا منہ موتیوں سے بھر دیا۔
ہند و جہاں زروئے عدد چوں برابر است
بر ما خطابِ شاہ جہاں زاں مسلّم است
آپ نے اور ہم نے زندگی میں بہت سارے نکّو دیکھے ہوں گے۔ ہمارا اپنا تعلق چونکہ آج کل خط ِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں میں ہے لہٰذا بلا ناغہ کسی نہ کسی نکو کا دیدار کسی نہ کسی جگہ پر ہو جاتا ہے۔ ویسے آپس کی بات ہے کہ ہم خود بہت بڑے نکّو ہیں۔ نکّو معاشرے میں نہ ہو تو سارے کام جیسے ٹھپ ہو جائیں۔ یہ نکّو زندگی کے ہر شعبے میں وافر پائے جاتے ہیں۔ آپس کی بات ہے کہ سب سے زیادہ نکّو سیاست میں ہی پائے جاتے ہیں۔ کوئی سیاسی جماعت دیکھ لیں‘ اس میں سینکڑوں نکّو پائے جاتے ہیں۔ نکوئوں کے آگے چھوٹے نکّو ہوتے ہیں۔ یوں یہ سلسلہ کسی روحانی سلسلے کی طرح دراز تر ہوتا جاتا ہے۔ نکوں کا کام صرف سٹیج مہیا کرنا ہے یعنی سارے کام بجا لانے ہیں۔ بڑا آئے گا ایک دو احکام دے کر چلا جائے گا۔ نکو نئے سرے سے ''وڈّو‘‘ کی خوشی کے لیے دوبارہ سر دھڑ کی بازی لگا دے گا۔ نکّو کو کوئی بھی کام سونپا جا سکتا ہے‘ اس کے ماتھے پر بل نہیں پڑے گا۔ وہ کسی توضیح میں نہیں پڑنے والا۔ اسے اس وقت تک چین نہیں آئے گا جب تک وہ کام مکمل نہ کر لے۔ سیاست کے میدان کے نکّو کا کام یہ ہے کہ صبح اٹھتے ہی وہ وڈّو کے دربار میں حاضر ہو جائے کیونکہ اس کا سب سے پہلا کام اپنی حاضری لگوانا ہے۔ جس دن اس کی حاضری نہ لگے‘ اس کا دل بجھا بجھا سا رہتا ہے۔ کھٹی میٹھی ڈکاریں آتی ہیں‘ دواسے فرق نہیں پڑتا اور پیٹ میں اپھارہ ہو جاتا ہے۔ نکّو کی یہی ذمہ داری ہے کہ اپنے بڑے کے ہر کام میں کوئی گہرا نکتہ‘ کوئی افادیت تلاش کرنی ہے اور دور کی کوڑی لانی ہے۔ بڑے کے بیان میں ایسے ایسے دقیق نکتے تلاش کرنے ہیں جو بڑے کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوں۔ نکو ایسے کام کرنے کے جب ماہر ہو جاتے ہیں تو اپنا ایک نکّو رکھ لیتے ہیں۔
ہمارے گھر میں دو چھوٹے چھوٹے بھائی پڑھنے آتے تھے؛ چونکہ وہ سکول کی فیس دینے کے قابل نہیں تھے لہٰذا سکول کے بجائے وہ ہمارے گھر میں ہی پڑھتے تھے۔ بڑے کا نام وڈو اور چھوٹے کا نام نکّو تھا۔ ہم نے پہلی بار دیکھا کہ بڑے کی اہمیت اور چھوٹے کی وقعت کیا ہوتی ہے۔ جب بھی وڈو کو کوئی کام کہا جاتا وہ فوراً نکّو کی ڈیوٹی لگا دیتا۔ ہم پانی وڈو سے مانگتے لے کر آتا نکّو۔ مار پڑنی ہوتی تھی وڈو کو‘ کان نکّو پکڑ لیتا۔ کسی دکان پر وڈو کو بھیجا جاتا تو دکان سے چیز لے کر نکّو آ جاتا۔ ادھار مانگنے بھیجا جاتا وڈو کو اور لے کر آتا نکّو۔ جب ادھار کی واپسی کا معاملہ آتا تو وڈو کے بجاے نکّو کو دکان پر بٹھا لیا جاتا کہ ادھار واپس کرو اور اپنا نکّو واپس لے جائو۔ اسی شوروغوغا اور چھوٹے بڑے کے شور میں وڈو اور نکّو دونوں بڑے ہو گئے اور ان کا فرق مٹ گیا وہ دونوں ہمیشہ کے لیے نکّو ہو گئے۔
سڑک کنارے ہوٹلوں پر آپ کو بہت سے نکّو یا نکّے ملیں گے۔ اصل میں وہ نکّو ہوتے ہیں نام ان کا چھوٹو پڑ جاتا ہے۔ ان نکوئوں سے ہی ان ہوٹلوں کا کاروبار چلتا ہے۔ ادھر نکّو ایک گاہک کے پاس پہنچ نہیں پاتا کہ دوسری میز سے آواز آجاتی ہے۔ چھوٹے پانی لا‘ تازہ روٹی لا۔ اس میز سے اس میز تک‘ نانبائی سے چائے بنانے والے تک‘ سب اس کے محتاج ہیں۔ نکو نہ ہو تو آٹے کی گدی پر پانی کون لگائے گا؟ چائے کی پیالی میں ملائی کون ڈالے گا؟ اور 'ایک کپ چائے ملائی مار کے‘ کا نعرۂ مستانہ کون بلند کرے گا؟ نکّو کے دم سے ہوٹل آباد ہیں۔ ساری رونق اس کے دم سے ہے۔ جس دن نکّو بیمار پڑ جائے‘ سڑک کنارے ہوٹل پر جیسے خاموشی چھا جاتی ہے۔ آیا جی‘ آیا جی کی آوازیں نہیں آتیں۔ ایک آدھ دن نکّو کے بغیر گزارنا مشکل ہو جاتا ہے۔ گیس سٹیشن پر‘ ٹائروں کی دکان پر ایک نکّو اچانک نمودار ہوتا ہے۔ ٹائروں کی ہوا چیک کرتا ہے‘ پانی کے ٹب میں ٹائر ڈبو ڈبو کر پنکچر ڈھونڈتا ہے۔ ہم خود بھی بہت بڑے نکّو ہیں مگر ہم شاعری کے نکّو ہیں۔ ہم اپنے سوا کسی کو شاعر مانتے ہی نہیں۔ خود کو بڑا شاعر کہلوانے کی خاطر اپنا تکیہ کلام بھی ''ہیں میاں، کیوں میاں‘‘ بنا لیا ہے۔ وایا بھٹنڈہ اپنے لیے نکّو ڈھونڈ رہے ہیں مگر
اے بسا آرزو کہ خاک شدہ
ہماری طرح اور بھی بہت سارے نکّو ہیں۔ ہم شاعری والے نکّو دنیا کے نکوئوں سے علیحدہ ہیں۔ کام لیکن ہمارے وہی نکوئوں والے ہیں۔ ہمارا اصل کام خود کو وڈّو کو ثابت کرنا ہے۔ ہماری سب سے بڑی عیاشی کسی مشاعرے کی نظامت ہے۔ اس میں ہم چن چن کر بڑوں کے سینے پر مونگ دلتے ہیں۔ شاعری کے نکوئوں کے‘ یعنی ہمارے‘ بہت سارے ایشوز ہیں جن میں سر فہرست یہ ہے کہ ہم خود کو نکّو یا چھوٹو تسلیم نہیں کرتے۔ جتنے نکّو شاعری میں پائے جاتے ہیں یا یوں کہیے کہ جتنی نکوئوں کی بہتات شاعروں میں ہے‘ کہیں اور نہیں۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ ہم ہر وقت حالتِ جنگ میں رہتے ہیں اور دوسروں کو نکّو ثابت کرنے پر زورآزمائی کرتے رہتے ہیں۔ ہماری ساری زندگی یہ ثابت کرنے میں گزر جاتی ہے کہ ہم نکّو نہیں ہیں۔ ہم نکّو کوشش کرتے ہیں کہ مشاعرے کی نظامت مل جائے تو اگلے‘ پچھلے سارے قرض اتار دیں گے۔ مشاعرے میں ہماری خواہش بلکہ ہر نکّو کی خواہش ہوتی ہے کہ اسے سب سے بڑا اور سینئر شاعر سمجھ کر آخر میں دعوت ِ کلام دی جائے۔ یہ بھی کوشش ہوتی ہے کہ سٹیج پر بیٹھنے کا موقع مل جائے۔ اگر کسی نئے شاعر کی کتاب شائع ہونی ہو تو اس کا دیباچہ لکھنے کی فوراً آفر کر دیتے ہیں۔ پھر اسی نکو سے خود پر ''تنقیدی‘‘مضمون لکھنے کی فرمائش کر دیتے ہیں۔ مشاعروں میں سب سے سینئر بن کر بیٹھ جاتے ہیں تا کہ ناظرین سمجھیں کہ کوئی فلسفی شاعر ہے۔
نکّو امیروں کے بہت کام آتا ہے۔ نکّو نہ ہو تو امیر یہاں وہاں بولائے بولائے پھرتے رہیں۔ ادھر ادھر سر ٹکراتے اور مارتے پھریں۔ نکّو نہ ہو تو سچ مچ وہ کسی دیوار سے ٹکرا ٹکرا کر مر جائیں۔ نکّو نہ ہوں تو وہ کس کی پشت تھپتھپائیں گے اور اسے حوصلہ دیں گے‘ اگر وہ نہیں ملے گا تو کیسے کہیں گے کہ ہم غریبوں کے لیے تڑپتے ہیں۔ معاشرے میں انصاف ملنا شروع ہو جائے تو امیر اور طاقتور تو پاگل ہو جائیں۔ وہ کیسے کہیں گے کہ وہ معاشرے میں انصاف کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ اگر نکّو سکول میں داخل ہو جائیں تو اہل ِ حَکم کی مت ہی ماری جائے۔ وہ کیسے کہیں گے کہ تعلیم ہر غریب اور ہر امیر کا حق ہے۔ نکّو نہ ہو تو بااثر افراد کس کو چھتر کھاتے ہوئے چھڑوا کر لائیں گے۔ اگر نکوئوں کو روزگار مل گیا اور وہ دو وقت کے کھانے کی محتاجی سے بے نیاز ہو جائیں گے‘ وہ میرٹ پر ملازمت حاصل کرنے کے قابل ہو جائیں تو یہ بیچارے امرا، سفرا کہاں جائیں گے۔ ان کا کون پرسانِ حال ہو گا؟ یہ دن رات‘ یہ کشاکش‘ یہ زندگی کی بھاگ دوڑ ان کے دم سے ہے۔ سارا دن ان کے حقوق مار کر جب رات کو گھر آتے ہیں توان کا شکر ادا کرتے ہیں۔ رات کو ڈائننگ ٹیبل پر مختلف ڈشز کا ڈھیر لگا لیتے ہیں‘ چسکے سے ہر ڈش کو ناپاک کرتے ہیں‘ نجس ہاتھ لگاتے ہیں اور دل ہی دل میں مست ہو کر کہتے ہیں کہ رات کا پس خوردہ اگر نکّو نہ ہو تو کون کھائے گا؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں