ایک سال قبل ہم نے خود کو 'ادبی مختارا‘ کہا تھا، اللہ کا شکر ہے کہ سب نے ہمارے مؤقف کو تسلیم کیا۔ کہیں سے اختلاف کی ہلکی سی بھی آواز نہ اٹھی اور ہمیں ادبی مختارا ہونے کا شرف ہوا۔ اس پر ادب شناسوں کا جتنا بھی شکریہ ادا کریں‘ کم ہے۔ بہت سے ادبی مختاروں نے بہت ناک بھوں چڑھائی کہ یہ ان کے ساتھ ناانصافی ہے۔ یہ کہاں سے ادبی مختارا بن گیا‘ اس میں آٹھ آٹھ پہر مشقت ہوتی ہے‘ اس میں نام نہیں کام دیکھا جاتا ہے۔ ہم بھی اپنی ضد اور ہٹ کے پکے تھے۔ اس ادبی اعزاز کی خبریں تمام جریدوں کو بھیجیں مگر کیا کہیں ان کی ادب ناشناسی کو کہ انہوں نے خبر شائع ہی نہ کی مگر ہمیں پروا بھی نہیں تھی اور ہم نے حوصلہ نہیں ہارا۔ ہمیں معلوم تھا اور اندازہ درست ثابت ہوا کہ قومی جرائد ہمارا اعزاز ِ ادبی مختارا ہضم نہیں کر پائیں گے۔ اس کا اپائے ہم نے ادبی صفحات کے انچارجوں کے ذریعے کرنے کی سعی نامشکور کی مگر اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔ ہم نے بھی کچی گولیاں نہیں کھیلی تھیں۔ اس سلسلے میں ہمارے استاد نے ہمیں انوکھا گر بتایا ہوا تھا۔ اس کو آزمایا اور یوں اپنی ادبی ساکھ مستحکم کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ وہ ایسے کہ ہم نے ایک پمفلٹ کمپوز کیا جس میں جلی حروف میں اپنے اعزاز کو بطورِ عنوان لکھا۔ اس کی دس کاپیاں کروائیں۔ یوں تو ہم بے صبرے نہیں اور معلوم ہے کہ ادب میں نام آہستہ آہستہ پھیلتا ہے اور ایک دن آتا ہے جب آپ چھا جاتے ہیں‘ مگر جب فوٹو کاپیئر نے پچاس روپے طلب کیے تو ہم نے اسے کہا کہ تم خوش قسمت ہو کہ ادبی مختارا خود تمہارے پاس آیا ہے‘ مگر اس کے کان پر جب جوں تک نہ رینگی تو بادلِ نخواستہ رقم ادا کی اور اپنے فرض کی ادائیگی کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔
دو نقاد تو ڈُبن پورہ میں رہتے تھے‘ سب سے پہلے ادھر کا رخ کیا۔ سب سے پہلے ہم نے جاسوسی کی کہ کیا اس وقت نقاد صاحب نمبر ایک گھر پر ہیں‘ معلوم ہوا کہ وہ کہیں سبزی وغیرہ لینے گئے ہیں۔ گھر میں کوئی موجود نہیں تھا‘ سو ہم تسلی سے ان کے گھر سامنے آلتی پالتی مار کر بیٹھ گئے۔ ایک عدد پمفلٹ نکالا اور اس کا جہاز بنانے لگے کہ چند ناہنجار لڑکوں نے ہمیں مشکوک نظروں سے دیکھا مگر ہم اپنے کام میں مشغول رہے۔ پمفلٹ کا جہاز بنایا، نقاد کے گیٹ سے ذرا اندر جھانکا اور کس کر نشانہ باندھا۔ جہاز یعنی پمفلٹ مستی میں لہراتا‘ جھولتا صحن کے عین بیچ گرا۔ ہم نے ادھر ادھر دیکھے بغیر وہاں سے راہ ناپی اور نقاد نمبر دو کے گھر کی طرف رواں ہوئے۔ ہم اپنے دھیان میں اڑے جا رہے تھے کہ اپنے اصل مقصد سے آگاہ تھے اور اقبال کا شعر یاد کیا ہوا تھا:
چلنے والے نکل گئے ہیں ؍ جو ٹھہرے ذرا‘ کچل گئے ہیں
ہم نے خود نقادوں کو کچلنے کا تہیہ کیا ہوا تھا۔ اچانک ہم نے کیا دیکھا کہ نقاد نمبر دو آگے سے کشاں کشاں ہماری سمت چلا آ رہا ہے۔ ہم نے پمفلٹ ہاتھ میں لپیٹ کر رکھ لیا کہ جونہی نقاد نمبر دو مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھائے گا‘ ہم جھٹ سے پمفلٹ اس کی تلی پر دھر دیں گے۔ اس خیال میں ہم بھی افتاں و خیزاں اس کی طرف لپکے۔ ہماری توقع کے برعکس وہ پاس سے ایسے گزر گیا جیسے ہمیں جانتا ہی نہیں۔ ہم بھی جون ایلیا بن گئے اور بے نیازانہ پاس سے گزر گئے۔ فوراً اپنی حماقت کا احساس ہوا‘ ادب میں اپنی آخری منزل کا جذبہ دل میں ٹھاٹھیں مارنے لگا۔ ہم فوراً مڑے اور ان کے کندھے پر ہولے سے ہاتھ رکھا۔ انہوں نے اِک ادائے بے نیازی سے ہماری طرف ایسے دیکھا جیسے پوچھ ہو رہے ہوں کہ تم کون ہو بھائی۔ ہمیں پہلے ہی ان کی تنقیدی بصیرت اور صلاحیتوں پر شک سا تھا‘ اب یقین ہو چلا تھا کہ ان میں واقعی تنقیدی اور تحقیقی صلاحیتوں کا از حد فقدان ہے۔ ہم نے بھی اپنا تعارف کرانا اپنی شان کے خلاف سمجھا اور پمفلٹ ان کے ہاتھ پر رکھا اور جلدی جلدی وہاں سے نکلنے کی ٹھانی۔ نقاد نمبر دو بڑے استاد نکلے۔ ایک اچٹتی سی نظر پمفلٹ پر ڈالی۔ ہم سمجھے کہ اب ان کا دل پسیج گیا ہے مگر نصیبِ دشمناں‘ انہوں نے خاموشی سے وہی پمفلٹ واپس ہمارے منہ پر دے مارا۔ اب بندہ کیا کہے اتنی بھی تمیز نہیں تھی‘ بھلا منہ پر مارنے کی کیا ضرورت تھی؟ دو حرف بول دیتے‘ ہم کسی مضمون میں ان کا حوالہ دے دیتے کہ پمفلٹ کے موضوع پر وہ ہمارے ہم خیال ہیں۔
اس واقعے کے بعد ہمیں سبق سیکھ لینا چاہیے تھا مگر ہم نے اسے ادب کی بدقسمتی پر محمول کیا۔ اب ایک اور خیال آیا‘ خیال کیا‘ القا سمجھیے کہ گھر گھر پمفلٹ چوری چوری پھینکنے کے بجائے ڈاک کے ذریعے بھیجے جائیں۔ اس القا کے بعد از خود ہم نے سوچا کہ نامور شعرا اور ادیبوں کو یہی پمفلٹ بیرنگ بھیجا جائے۔ اسی نقاد کے گھر کے پچھواڑے میں بیٹھ کر ایڈریس لکھے‘ سب سے پہلے اسی ادب ناشناس نقاد کا نام لکھا جس نے پمفلٹ لینے سے نہ صرف انکار کیا بلکہ زبردستی ہمیں واپس تھما دیا تھا۔ جب ہم اس کا ایڈریس لکھ رہے تھے تو دل میں طرح طرح کے لڈو پھوٹ رہے تھے جیسے ہمارا دل دھڑکنے کے بجائے کہہ رہا ہو کہ اب سنا بچّو! بے رنگ خط وصول کر کے مزہ آیا؟ جب ہم ڈاک خانے کے لال ڈبے کے پاس کھڑے تھے اور اسے فاتحانہ انداز میں دیکھ رہے تھے‘ ہماری نظر ایک شاعر پر پڑی جو پچھلے سال سے ادبی مختارا بننے کی تگ و دو کر رہا تھا مگر کہاں ہم اور کہاں وہ کم نصیب۔ ہم تو چند ماہ میں ادبی مختارے کا اعزاز لے اڑے تھے۔ تھوڑے سے تذبذب کے بعد ہم دونوں ایسے ہو گئے جیسے کسی زمانے میں ہماری دوستی مشہور تھی۔ کیا زمانہ تھا کہ ہم دونوں مصرع ایسے چراتے تھے کہ اصل شاعر کو ہوا بھی نہ لگنے دیتے تھے۔
ہم ہینگ بھی لگاتے تھے اور پھٹکڑی بھی‘ مگر رنگ چوکھا نہیں آتا تھا۔ ہم بڑے ڈاک خانے کی دھوپ میں بیٹھ گئے اور شعر و شاعری کا سلسلہ شروع کر دیا۔ ایک دو شعر ہی سنائے تھے کہ ڈاکخانے کا گارڈ آیا اور ہمیں فوراً وہاں سے نکل جانے کا کہا۔ ہمارے دوست نے ہمارا تعارف بھی کرایا ہے کہ یہ اول درجے کے ادبی مختارا ہیں مگر اس نے بات سنی اَن سنی کر دی۔ ہم نے اسے اس کی بدقسمتی اور ادب ناشناسی پر محمول کیا۔ ہمارے دوست نے گارڈ سے پوچھا: کیا تم نے شاعرِ دوراں کا نام نہیں سنا ؟ اس احمق کو کیا پتا ہونا تھا کہ ادب اور اس کی کیا کیا نکتہ آفرینیاں ہیں‘ یہ بیچارے روٹی پانی کے غلام‘ جوہر کی قدر تو جوہری ہی جان سکتا ہے۔ ہم خوش ہوئے کہ دوست‘ دوست ہی ہوتا ہے۔ آخرِ کار اس نے اپنی ادبی زیادتیوں کا بدلہ چکا دیا تھا۔ ہم اس کی پرانی غلطیاں جس میں غلطیاں کم اور بلیغ گالیاں زیادہ تھیں‘ یکسر بھول گئے۔ آگے بڑھ کر اسے سینے سے لگایا‘ اس کے ماتھے پر بوسہ دیا۔ ہم نے دیکھا کہ اس کی آنکھیں تشکر سے بھری جا رہی تھیں۔ ہمیں بھی ماضی کی اپنی ساری کوتاہیاں ایک ایک کر کے یاد آنے لگیں۔ ''میبل اور میں‘‘ کے 'میں‘ کی طرح ہمارا ضمیر جاگا۔ پطرس بخاری بے طرح یاد آئے۔ ضمیر جاگ چکا تھا اور میبل سے محبت کرنے والے کی طرح اپنی کی ہوئی زیادتیاں ایک ایک کر کے یاد آتی جا رہی تھیں۔ ہم کیسے کٹھور دل واقع ہوئے تھے کہ ایک ادب شناس کو نہ پہچان سکے۔ آج یہ خوش قسمت دن آیا ہے کہ ہم اس کے مقابلے میں خود کو حقیر سمجھنے لگ گئے تھے۔ ہم آگے بڑھے اور اپنی بانہیں پھیلا دیں‘ اس کو سینے سے لگایا۔ استاد ذوق کا ہمدمِ دیرینہ والاشعر پڑھا۔ معانقے کے دوران ہی اس سے معافی کے خواستگار ہوئے۔ ہماری آنکھیں بھی بھر آئی تھیں۔ شدت ِ جذبات سے گویا ہوئے: شکریہ دوست! تم نے قدر شناسی کی انتہا کر دی اور ادبی مختارے سے ہمیں شاعرِ دواں کے اعزاز سے نوازا۔ اس ناہنجار نے ایک دھکے سے ہمیں پیچھے دھکیلتے ہوئے کہا: تم کہاں سے شاعرِ دوراں آ گئے‘ میں تو گارڈ کو اپنے بارے میں کہہ رہا تھا کہ میں شاعرِ دوراں ہوں۔ ہمارے خواب پر گھڑوں پانی پڑ چکا تھا لیکن ہمارا بھی آخری خواب یہی ہے کہ مشاعروں میں اپنے اعزاز ''شاعرِ دوراں‘‘ کے ساتھ دندناتے پھریں۔ خواب آخر کار پورا ہو ہی جاتے ہیں۔ علامہ اقبال نے بھی تو پاکستان کا خواب ہی دیکھا تھا جو آ ج ایک حقیقت ہے اور بڑی بڑی طاقتوں کی آنکھ کا کنکر بنا ہوا ہے۔