بوٹی راج

ہم سب دوستوں کی اپنی اپنی حکومت ہے‘ ایک صوبے کا صدر مقام لکشمی ہے، دوسرے کا لال پل ہے، تیسرے کا چوبرجی اور چوتھے کا صدر مقام دریائے راوی کا پرانا پل ہے۔ ان چاروں صوبوں کے اپنے اپنے گورنر ہیں۔ وفاقی حکومت اندرون شہر میں واقع ہے۔
ہمارا نام ملنگ‘ ایک شیریں ذائقے والے سر سبز مشروب کی وجہ سے پڑا تھا۔ یہ شوق ہمیں گھٹی میں ملا تھا۔ تایا حضور اور تایی جان دونوں تڑکے اٹھ کر یہ مشروب تیار کرتے تھے۔ دو چار کول (گلاس) خود چڑھاتے‘ مست ہوتے تو برگد کے نیچے خوابِ خرگوش کے مزے لیتے۔ جب دو چار گھنٹے بعد تایا حضور کی آنکھ کھلتی تو زور کا ڈکار مارتے اور دوبارہ دوری (کونڈی) کی طرف حسرت آمیز نظروں سے دیکھتے۔ ایک آدھ گھونٹ بچا ہوتا تو چھوٹی سی کولی اٹھاتے اور ہم چار بھائیوں کے ہونٹوں پر دو دو قطرے انڈیل دیتے۔ جونہی وہ قطرے ہونٹوں سے پھسلتے اور ہماری زبان پر آتے تو تایا حضور وجد کی حالت میں آ جاتے۔ پوری دنیا کو بھول جاتے اور اونچی آواز میں ایک نعرۂ مستانہ بلند کرتے۔
اس نعرۂ مستانہ پر ہماری آنکھیں تھوڑی سی کھلتیں مگر لگتا غنودگی کا عالم ہے۔ تائی رانی ہمیں دیکھتیں اور کبھی کونڈی ڈنڈے کو اور زیرِ لب مسکرانے پر اکتفا کرتیں۔ اسی عالمِ جذب و مستی میں ہم چاروں دوست بچپن کی حدیں عبور کرتے ہوئے جوان ہو گئے۔ تایا حضور نے خود تو کبھی حجامت نہ کرائی تھی اور نہ غسل فرمایا تھا مگر ہم سب پر لازم کر دیا اور سر کے بال منڈوانا لازم ہو گیا۔ تایا حضور نے کہا: قلندری کے لیے ٹنڈ کرانا لازمی ہے۔ ایک دفعہ انہوں نے ہماری ٹنڈ کر کے اوپر سرسوں کے تیل کی خوب رگڑائی کی۔ اس سے دور سے ہماری چندیا چمکتی دکھائی دیتی تھی۔ یہی حکم دوسرے دوستوں پر بھی لاگو تھا۔ چند ماہ کی محنت اور تربیت کے بعد ہم دوست ایک دوسرے کی ٹنڈ خود ہی کرنے لگے۔ سارا تایا حضور کی صحبت کا فیض تھا کہ انہوں نے ہم چاروں میں قابلیت کا جوہر دیکھا تو ایک ایک کول مشروب کا اپنے دستِ کرم سے عنایت کیا۔ اور فرمایا: آج تم سب میری طرف سے آزاد ہو۔ آخری کول کے طفیل ایک کامیاب ملنگانہ زندگی کا آغاز کرو۔ دنیا سے ناتا توڑنے کا آخری فرمان جاری کیا اور شہر کے چار علاقے عنایت کیے۔ ہم اس بے پایاں عنایت کا شکر ادا کرنے کے اہل نہیں تھے۔ پھر بھی احتراماً تایا حضور کے گوڈوں کو ہاتھ لگایا۔ تایا حضور خوش ہوئے۔ اور باقی تینوں کو ایک ایک عدد کونڈی ڈنڈا عنایت کیا۔ ہمیں صرف ڈنڈا عنایت ہوا۔ ہم نے جب اس ناانصافی پر صدائے احتجاج بلند کی تو فرمایا تمہیں ڈنڈا ہی ملے گا‘ کونڈی خود تلاش کرو۔ ہم بہت جز بز ہوئے۔ حکمِ حاکم مرگِ مفاجات کے مصداق‘ وہاں سے نکل کھڑے ہوئے۔
تائی رانی شام کے کھانے کے لیے مشروب کی تیاری کر چکی تھیں۔ مسکرا کر ہمیں رخصت کیا اور ہدایت کی کہ جان چلی جائے مگر یہ مشروب پینا نہ ترک کرنا اور نہ ہی اپنا علاقہ (صوبہ) کسی اور کے حوالے کرنا۔ خدا نے خیر کی تو بہت برکت ہو گی۔ ابھی لوگ اس مشروب کی توہین کرتے ہیں اور اسے ''بوٹی‘‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ ایک دن آئے گا جب تعلیم عام ہو گی‘ لوگوں میں شعور پیدا ہو گا تو اس نعمت کے فوائد روزِ روشن کی طرح سب پر عیاں ہو جائیں گے۔ آخری بار انہوں نے دعا دی اور نصیحت کی کہ ٹنڈ پر روزانہ تیل لگانا ہے‘ صبح سویرے دن کا آغاز اس مشروب کے کم ازکم دو کول چڑھانے سے کرنا ہے۔ یہ وہ زریں اصول ہے جس کی ایک دن اہمیت واضح ہو جائے گی۔ ابھی میرا انقلاب پنگھوڑے میں سو رہا ہے‘ وقت آئے گا کہ اس ملک میں بوٹی کا راج ہو گا۔
باقی تینوں دوست اپنے اپنے علاقوں میں سریر آرائے سلطنت ہو گئے کہ ان کے پاس صوبہ چلانے کے لیے وافر اسلحہ بشکل کونڈی ڈنڈا موجود تھا۔ ایک ہم تھے‘ جو ڈنڈا لے کر سارے شہر میں گھوم رہے تھے‘ کونڈی نصیب سے مل جاتی تو اپنے صوبے میں چلے جاتے۔ ہمیں معلوم تھا کہ صوبہ چلانے کے لیے باقاعدہ ایک تازہ دم فوج کی ضرورت ہے اور وہ ہمیں اسی صورت میں مل سکتی تھی جب ہم کونڈی ڈنڈا سے مسلح ہوتے۔ شہر کے گلی کوچوں میں پھرتے ہوئے بہت سارے جانباز ہمارے ساتھ ہو جاتے تھے۔ جب انہیں معلوم پڑتا کہ ہمارے پاس فقط ڈنڈا ہے تو وہ سارے خشمگیں نگاہوں سے ہمیں تکتے اور اپنی راہ لیتے۔ ہمیں مسلسل خبریں مل رہی تھیں کہ سارے دوست اپنی اپنی حکومت احسن طریقے سے چلا رہے ہیں۔ امورِ مملکت چلانا انہیں خوب آ گیا تھا۔ ان کی سلطنت میں راوی چین ہی چین لکھتا تھا۔ انہوں نے تائی رانی کے نسخۂ کیمیا کا صحیح اور بروقت استعمال کر لیا تھا۔ کہیں سے روٹی‘ پانی‘ مکان‘ کپڑا‘ لتا اور اشیاے خورونوش کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کی اطلاع ملتی دوست بذاتِ خود لوازمات سمیت وہاں پہنچ جاتا۔ اس سے قبل کہ باغیوں کے شور کی آواز آتی‘ دوست کے گھنگھروئوں والے ڈنڈے سے مشروب گھوٹنے کی مست آواز گونجتی۔ سارے باغی دوست کے گرد کم کونڈی ڈنڈے کے گرد زیادہ چکر لگاتے۔ ادھر کونڈی میں پانی ڈلتا باغیوں کے ''کول‘‘ بھرتے جاتے وہ اس کی لمبی ڈیک لگاتے جاتے اور دوست کے قدموں میں گرتے چلے جاتے۔ اس کے پیروں کو چومنے والے اس پر قربان ہو ہو جاتے۔ آہستہ آہستہ ان کی بغاوت کا نشہ ہرن ہوتا اور وہ وہیں نڈھال ہو کر گر جاتے۔ دوست اٹھتا‘ تبرک کے طور پر مشروب کے چھینٹے ان کے منہ پر مارتا۔ وہ کئی کئی ماہ اس نشے میں مدہوش رہتے۔ گھر بار کا خیال ان کے دل و دماغ سے اتر جاتا۔ ان کے واسطے دوست ہی ماں بن جاتی‘ دوست ہی باپ ہو جاتا۔ دوسرے دو دوست بھی خوب گزر اوقات کر رہے تھے۔ بس ایک ہم تھے جو اب تک ڈنڈا لے کر بازار بازار اور گلی گلی گھوم رہے تھے۔
ہم نے بہت اعلیٰ دماغ پایا تھا اور تائی رانی نے ہم میں بچپن ہی میں بہت ساری خوبیاں دیکھ لی تھیں‘ وہ ہماری قابلیت کے نہ صرف قائل تھیں بلکہ گھائل ہو ہو جاتی تھیں۔ انہیں یہ علم تھا اس کے دماغ میں بہت سارے منصوبے ہیں اور یہ سلطنت کو مزید وسعت دے سکتا ہے۔ ہمارے پاس چونکہ صرف ایک ڈنڈا تھا‘ جو ہم لیے پھر رہے تھے لہٰذا عام خیال یہی تھا کہ اس سے اپنا صوبہ کیسے چلے گا؟ سارے دوست اپنی اپنی سلطنت میں مست تھے اور عوام کو بھی مشروبِ سبز پلا پلا کر مدہوش کر رہے تھا‘ کہیں سے بغاوت کی خبر نہیں آتی تھی بلکہ کسی مخبر نے ہمیں اطلاع دی تھی کہ باغی یہ مشروب پی پی کر ہٹے کٹے ہو گئے ہیں‘ ان کی گردنیں فربہ ہو گئی ہیں‘ پیٹ ڈھلک گئے ہیں اور بغاوت کا جذبہ ختم ہو گیا ہے۔ بھائی کی دیکھا دیکھی دوسرے دو دوستوں نے بھی وہی پالیسی اختیار کی اور کامیاب تھے۔ اپنی قسمت چمکنے کے آثار تو نہ تھے مگر تائی رانی کا کہا ہوا فرمان یاد آتا تو دل کو تسلی ہوتی۔ بسا اوقات جی کرتا کہ جا کر یہی ڈنڈا تائی رانی کو جا ماریں مگر اچھا وقت آنے کی امید پر اس خیالِ فاسد کو دل سے نکال دیتے۔ ایک دن ہم رات کو ایک بازار سے گزر رہے تھے کہ ایک چینل پر خبریں نشر ہو رہی تھیں۔ کوئی سائنس اور سائنسدان قسم کے وزیر کچھ باتیں کر رہے تھے۔ پہلے تو ہم نے نظرانداز کیا مگر ان کی گفتگو کا انداز بالکل تایا حضور والا تھا۔ وزیر صاحب فرما رہے تھے کہ آج تک کسی حکومت کے ذہن میں اس خوبصورت پودے بھنگ کا خیال نہیں آیا۔ یہ ایک بیش قیمت تحفہ ہے‘ اس میں ہزار فوائد ہیں‘ قوم کے ہر فرد کو کونڈی ڈنڈا دیا جائے گا‘ جن کے پاس کونڈی ڈنڈے ہیں‘ ان کا ماہانہ وظیفہ لگایا جائے گا۔ تائی رانی کا قول یاد آیا تو آنکھیں بھیگتی چلی گئیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں