تعلیم حاصل کرنا‘ کسی سکول میں داخل ہونا ہی کارے دارد ہے چہ جائیکہ ایک ٹرانس جینڈر ڈاکٹر ہو جائے اور وہ بھی ہمارے نیم تعلیم یافتہ اور فرسودہ رسوم میں الجھے ہوئے معاشرے میں۔ یہ ایک جنگ ہے جو سارہ گل نے جیتی ہے‘ ایک پیغام ہے جو اس نے دیا ہے۔
ریاض ایک ٹرانس جینڈر ہے۔ چالیس کے پیٹے میں اور مضبوط گٹھے ہوے جسم والا ‘ بھرپورصحت مند‘ کوئی بھی کام کرنے کی اہلیت رکھنے والا۔ ریاض خانیوال کا رہنے والا ہے۔ وہ اور ایک دوست لاہور کی ایک بستی رسول پور میں ایک کمرے میں رہتے ہیں۔ اسی کمرے میں کھانے پینے کا انتظام ہے۔ انتظام کیا‘ جو یہاں خیرات میں کوئی چیز دیتا ہے‘ وہ کھا پی کے سو جاتے ہیں مگر اتنا گہرا میک اَپ! کہنے لگا:بچے دیکھ کے خوش ہوتے ہیں، مگر ہمیں دیے جانے والے بیہودہ القابات اس میک اپ سے بھی زیادہ تکلیف دہ ہیں۔
ٹرانس جینڈرز یا عرف عام میں خواجہ سرائوں نے اپنی صلاحیتوں سے دنیا پر ثابت کیا ہے کہ اگر خاندان، ملک، معاشرہ اور اس کے فرسودہ رسوم و رواج راہ میں حائل نہ ہوں بلکہ معاون ہوں تو یہ معاشرے میں نہ صرف ممتاز مقام حاصل کر سکتے ہیں بلکہ دوسروں کے لیے ایک رول ماڈل بھی بن سکتے ہیں۔ اس صنف کے بہت سارے لوگ معروف ہوئے ہیں‘ ان میں نیویارک کی خوبصورت ماڈل ہیری نیف‘ جنوبی افریقہ کے مشہور سابق آل رائونڈر جیک کیلس‘ ہمسایہ ملک کے مقبول پروگرام بگ باس سے شہرت پانے والی لکشمی نران ترپاٹھی‘ اور بھی بہت سارے ہیں جو اس صنف کے حقوق کے لیے سرگرم ہیں۔ بلجیم مشرقی یورپ کا ایک چھوٹا سا ملک ہے اور معاشرہ اب بھی کنزرویٹو ہے‘ اسی لیے وہاں بھی پیٹرا ڈی سوٹر‘ جو ایک ڈاکٹر اور اب ملک کے نائب وزیراعظم کے عہدے پر فائز ہوئے ہیں‘ کو کافی مشکلات کا سامنا ہے۔ ان کی شناخت یہ بھی ہے کہ وہ ٹرانس جینڈر ہیں۔ معاشرہ ان کو اس عہدے پر قبول کرنے میں متامل ہے مگر ٹرانس جینڈرز کو وہاں حقوق سارے حاصل ہیں۔ اگر وہاں‘ ترقی یافتہ ممالک کی یہ صورتِ احوال ہے تو یہاں پیش آنے مسائل پر تعجب نہیں ہونا چاہیے مگر دیکھتے اور جانتے ہوئے کیا ان سے تحقیر آمیز سلوک جائز ہے ؟ نہیں! اس جنس کے اپنے مسائل ہیں اور ان سے صرف ِ نظر کرنا قرینِ انصاف نہیں۔
یقینا کچھ ایسے اشخاص اور ایسی مثالیں ہیں جو قابلِ قدر ہیں اور ظاہر کرتے ہیں کہ قابلیت اور خوبیوں کے لحاظ سے یہ عام لوگوں سے کسی طرح بھی کم نہیں۔ اپنے ملک میں ارادھیا خان ہوں یا کامسیٹ یونیورسٹی سے ایم فل کرنے والی عائشہ مغل‘ انہوں نے اپنی صلاحیتوں کا اعتراف کروایا ہے۔ سارہ گل اب پہلی ڈاکٹر ہیں جنہوں نے ایم بی بی ایس کیا ہے۔ یہ ایک مثال بھی ہے اور اعزاز بھی۔
ارادھیا خان بھی ایک ٹرانس جینڈر ہیں جو ابوظہبی میں پیدا ہوئیں اور کراچی میں پلی بڑھی ہیں۔ اب سکالرشپ پر امریکا میں مزید تعلیم یا کورس کہہ لیجیے‘ کے لیے چنی گئی ہیں اور آج کل وہیں آئی وی ایل فیلو شپ یعنی انٹر نیشنل وزیٹرز لیڈر شپ پروگرام (IVLP) میں شریک ہیں۔ یہ بین الاقوامی پروگرام ان شخصیات کے لیے ہے جنہوں نے اپنے شعبے میں نمایاں خدمات سر انجام دی ہوں۔ اپنے ملک میں اور بھی بہت ساری امثال ہیں۔ خواجہ سرا ریم شریف راولپنڈی پولیس میں منتخب کی گئی ہیں۔ عائشہ مغل ایک وفاقی سرکاری افسر ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی ہمت، لگن اور جدوجہد سے اس مقام تک پہنچے ہیں۔ حکومت کی طرف سے کسی خصوصی اقدام کے تحت نہیں۔ اس صنف کے مسائل بھی اسی طرح حکومتی عدم توجہی کے شکار ہیں جس طرح باقی معاملات ہیں۔
گزشتہ مردم شماری کے مطابق پاکستان کی آبادی میں ان کی تعداد دس ہزار سے کچھ اوپر ہے یہ اس آبادی کا 0.005 فیصد ہے۔ یہ کچھ زیادہ تعداد نہیں۔ ایک معاصر نے اس کی تعداد یہی لکھی ہے مگر خود خواجہ سرا اپنی تعداد تین لاکھ کے قریب بتاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اصل تعداد ستر اسی ہزار کے لگ بھگ ہے۔ ان کے ساتھ معاشرتی طور پر جو سلوک روا رکھا جاتا ہے‘ وہ کسی طور پر قابلِ قبول نہیں ہے۔
عورت‘ مرد دونوں میں کس کو اختیار ہے کہ وہ اپنی مرضی کی جنس منتخب کرے۔ خواجہ سرا کی شخصیت کو مسخ کرنا اور ان سے امتیازی سلوک کرنا ایک بہت بڑا اخلاقی اور سماجی جرم ہے۔ کتنے دکھ کی بات ہے کہ گزشتہ مردم شماری‘ جو 2017ء میں ہوئی‘ سے قبل ان خواجہ سرائوں کو مردم شماری میں علیحدہ جنس میں شامل تک نہیں کیا جاتا تھا۔ اب بھی ان کی اصل تعداد کا کسی ادارے کو علم تک نہیں ہے۔ کتنی تکلیف دہ بات ہے کہ 2017ء کی مردم شماری کے عارضی نتائج کا اعلان ہی کیا گیا ہے اور انہی نتائج کی بنیاد پر ایسے ضروری فیصلے ہونا ہوتے ہیں جن پر اس معاشرے کی بہبود کا انحصار ہوتا ہے۔ مردم شماری میں ان کی شمولیت بھی عدالتِ عالیہ کے حکم پر ہوئی۔ اگر عدلیہ خواجہ سرائوں کے بارے میں ہدایات نہ جاری کرتی تو وہ مردم شماری میں بھی کہیں جگہ نہ پا سکتے۔ ان کی بتائی گئی تعداد اب بھی غیر مصدقہ لگتی ہے۔
آئین میں ان کو وہ سارے حقوق حاصل ہیں جو دیگر عام شہریوں کے ہیں مگر معاشرہ ان کو وہ حقوق دینے پر آمادہ نہیں۔ اس سلسلے میں بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ سلسلہ گھر کی سطح سے شروع ہونا چاہیے اور ان خواجہ سرائوں کو معاشرے کا مفید کارکن بنایا جانا چاہیے اور اس سلسلے میں بنیای طور پر ان کی شخصیت کو تسلیم کرنا شرط ہے تا کہ ایک ماں کو انہیں ایدھی سنٹر یا کسی دوسرے شیلٹر ہوم میں نہ چھوڑنا پڑے اور نہ اس کلاس کو سڑکوں پر بھیک مانگنے کے لیے چھوڑ دیا جائے۔
ایک معاصر کی ایک رپورٹ کے مطابق 2017ء کی مردم شماری میں پاکستان میں خواجہ سرائوں کی کل تعداد 10418 نفوس پر مشتمل ہے۔ پنجاب میں 6709‘سندھ میں 2527‘خیبر پختونخوا میں 913‘ بلوچستان میں 109‘فاٹا میں 27اور اسلام آباد میں کل 109ہیں۔ یہ اتنی کم تعداد ہے کہ اس کے لیے صرف حکومت کی نیت اور خلوصِ نیت درکار ہے۔ اتنی کم تعداد کو سرکاری اور غیر سرکاری محکمہ جات میں آسانی سے کھپایا جا سکتا ہے۔ ابھی ایک رپورٹ آئی ہے جن میں مختلف اداروں کے سربراہان کی تنخواہوں کی جانکاری دی گئی ہے۔ جہاں ان کو کروڑوں میں تنخواہ دی جاتی ہے‘ معاشرے کے اس طبقے کوہزاروں میں تو دی جا سکتی ہے۔ ان کا ماہانہ روزگار الائونس‘ مختلف مہلک بیمایوں سے بچنے کے لیے سہولتیں‘ الگ سکول‘ ووکیشنل سنٹرز کا جو حکومت کا منصوبہ ہے اس پر فوری عمل درآمد کی ضرورت ہے۔ میری پنجاب حکومت سے گزارش ہے کہ ان گزارشات پر خصوصی توجہ دیں اور پنجاب میں پھیلے ان سپیشل لوگوں کے لیے باعزت زندگی کا اہتمام کریں۔
سارہ گل کی بات والدین‘ معاشرے اور حکومتی بزرجمہروں کو یاد رکھنی چاہیے کہ ایسے بچوں کو گھر سے نہ نکالا جائے۔ یہ بنیادی ذمہ داری حکومت اور معاشرے‘ دونوں کی ہے کہ ان کو گداگری اور جنسی استحصال سے بچایا جائے‘ ان کو مختلف ہتک آمیز ناموں سے پکارنے پر قانونی پابندی ہونی چاہیے۔ ریاض کا کہنا ہے کہ گھر والے ان کو اون نہیں کرتے۔ بھتیجے‘ بھتیجیاں جن کو چار پانچ ماہ کی بھیک اکٹھے کر کے دیتے ہیں‘ وہ ان کا انتظار کرتے ہیں‘ رہائش دیتے ہیں‘ چند دن اپنے پاس رکھتے ہیں‘ اس کے بعد پھر یہی دھندا اور یہی روزگار۔ اسے سارہ گل اورارادھیا خان کی مثال کیا دیتے‘ اس نے شاید ان کا نام بھی نہ سنا ہو۔ ان کی فی الحال دنیا تو یہیں تک محدود ہے۔ یہ شہر کے چوک، اشارے، گہرا میک اپ، تالیوں کی آواز اور دعائوں بھرا لہجہ۔