کُبری

شوکیہ کا علاقہ اور عبداللہ بن عباس روڈ‘ مکہ پاک میں ہمیں دو شاہراہوں کے ہی نام یاد ہوئے۔ ایک شاہراہِ ابراہیم خلیل‘ جس کی نشانی ہم نے کُبری (پُل) رکھی ہوئی تھی اور دوسری عبداللہ بن عباس روڈ‘ جہاں البیک ریسٹورنٹ تھا۔ البیک وہاں کی مقبول ترین فاسٹ فوڈ چین ہے۔ ویسے چین کا ترجمہ سلسلہ بہت مناسب ہے اور اسی کی جمع سلاسل ہے۔ مکہ مکرمہ کی ایک خوبصورت دلآویز اور متبرک شام‘ خانہ کعبہ سے نکل کر شہر کی سڑکوں سے ہوتے ہواتے البیک تک جانا ہوا۔ اس پر اللہ کا شکر ادا کیا جس نے بار کے ایک دور افتادہ گائوں میں آنکھ کھولنے اور وہیں بڑے ہونے والے کو وہاں پہنچا دیا تھا۔ یہ روح پرور شہر دیکھنے کی تمنا تو کب سے دل میں موجزن تھی۔ پیڑھی سے دوسری پیڑھی تک ست پیڑھیاں‘ عشق بالآخر اپنی مراد کو پہنچا۔ کہاں کھیتوں کے بنّوں پر چلنے والا ، گرمی کی فصلوں کا حبس سہنے والا اور کہاں شاہراہِ ابراہیم، کہاں الخالدیہ‘ کہاں گائوں کی کچی گلیاں اور کہاں صفا اور مروہ کے شعائر اللہ۔ کہاں گائوں کے سکھ سردار کُوکے سنگھ کا کھوہ اور کہاں چاہِ زمزم۔ جسم کا رویں رویں خشیت اور اس کے فضل کے تصور ہی سے کانپتا رہتا تھا۔ مکہ مکرمہ جہاں نبی پاکﷺ کی ولادت ہوئی‘ جہاں سیدہ فاطمۃ الزہراؓ نے آنکھ کھولی۔ یہ بے مایہ انسان اور یہ انعام!
یہ جمعہ کا دن تھا‘ اور نمازِ جمعہ کی ادائیگی کعبۃ اللہ میں ادا کرنے کی کوئی کشش تھی کہ صبح دم تیار ہو گئے۔ ہمیں بتایا گیا کہ جتنا جلدی ہو سکے‘ حرمِ پاک میں پہنچ جائو‘ ورنہ جگہ کی دستیابی کا مسئلہ ہو گا۔ سو ہم الخالدیہ سے ٹیکسی لے کر روانہ ہوئے۔ ہم نے خالدیہ میں اپنی رہائش کی نشانی البدر بیکری رکھی ہوئی تھی جو ہماری رہائش کے بالکل قریب تھی۔ ٹیکسی میں بیٹھے تو معلوم ہوا ایک اور نشانی بھی یاد رکھنی چاہیے۔ سامنے ہی ''برگر ویلی‘‘ نام کی شاپ تھی اس کے ساتھ عربی عبارت میں لکھا تھا ''وادی البرجر‘‘ ۔ یہ ترجمہ پسند بھی آیا اور یاد بھی ہو گیا۔ عربی زبان کے حروفِ تہجی میں ''گ‘‘ نہیں ہوتا‘ سو برگر عربی میں البرجر ہو گیا۔ یہ نشانی بہت ہی اہم تھی‘ جو ہم بھول ہی نہیں سکتے تھے۔ البدر بیکرز کے ساتھ ہی ایک مدرسہ تھا جس کا نام مدارس العلم النافع بنات تھا۔ اس میں ایک پَل جانے کا اتفاق ہوا‘ اتنی پُرسکون اور خاموش جگہ تھی کہ جی کرتا تھا کچھ دیر یہاں ٹھہرا جائے مگر جمعہ کی نماز کی مسجد الحرام میں ادائیگی کا تصور کہیں رکنے نہیں دیتا تھا۔
وہ مدرسہ بھی ایک نشانی تھی مگر حرم پاک سے الخالدیہ کا بتاتے تو ٹیکسی ڈرائیوروں کو پتا چل جاتا۔ ہماری رہائش حرم پاک سے پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر تھی۔ ہمیں دوستوں نے بتایا کہ کبری پل سے الخالدیہ کا کرایہ تین‘ چار ریال سے زیادہ نہیں دینا لیکن یہاں ٹیکسی ڈرائیور جی بھر کے (ہماری زبان میں ٹکا کے) کرایہ وصول کرتے۔ زیادہ تر ہم رات گئے حرم شریف سے لوٹتے تو ڈرائیور خوب من مانی کرتے۔ بالخصوص رات کے وقت وہ دو سو ریال مانگنے سے بھی نہیں چوکتے تھے۔ جب انہیں کہا جاتا کہ کچھ خدا کا خوف کرو تو جواب دیتے یہی تو کمائی کے دن ہیں۔ وہ ایک پیسہ کم کرنے کے بھی روادار نہیں تھے۔ وہاں آن لائن ٹیکسی سروس بھی تھی مگر ہم نے اسے آزمایا نہیں۔ لگتا تھا کہ وہاں ٹیکسی والوں کا راج ہے۔ باقی دنوں میں شاید آن لائن ٹیکسی سروس کا کام چلتا ہو مگر ان ایام میں انہی ٹیکسی والوں کی حکمرانی تھی۔ جب الخالدیہ سے روانہ ہوئے تو ایک برمی ڈرائیور سے ٹاکرا ہو گیا۔ ہم نے پوچھا: برما کے کس شہر سے آپ کا تعلق ہے؟ ہنس کر کہنے لگا: کراچی سے۔ ہم تینوں‘ یعنی ہم اور دو انجینئر دوست ظہور اور بشیر‘ اس کے جواب سے خوب محظوظ ہوئے۔ ہم نے پوچھا: روہنگیا؟ اس نے کہا: نہیں! ہم تو پاکستانی ہیں‘ پہلے کبھی برما میں رہتے تھے۔ اب ہم اس سے کیا پوچھتے‘ ساری کہانی اس نے از خود سنا دی تھی۔ البتہ یہ پوچھ لیا کہ گاڑی آپ کی اپنی ہے؟ کہنے لگا: یہاں کسی کی اپنی گاڑی نہیں ہوتی‘ کفیل کی ہوتی ہے۔
کبری پر پہنچے تو اعلان ہو رہا تھا کہ حرم شریف میں اب نمازیوں کی گنجائش نہیں‘ مسجد الحرام کی طرف مت جائیں‘ سارے گیٹ بند کر دیے گئے ہیں۔ ہم نے گھڑی دیکھی‘ ابھی صبح کے نو بجے تھے۔ لوگوں نے اسی شاہراہِ ابراہیم خلیل پر جائے نماز بچھا لیے تھے۔ حرم کے راستے میں کبوتر چوک کے پاس سوچا کہ یہیں نماز پڑھ لیتے ہیں مگر دونوں انجینئر دوست بارہا حج کی سعادت حاصل کر چکے تھے‘ سارے رستوں اور گلیوں کا انہیں بخوبی علم تھا۔ سامنے باب العزیز تھا مگر بند تھا۔ ان دونوں نے ہمیں ساتھ لیا اور ایک لمبا سا موڑ لے کر حرم کے اندر لے گئے۔ وہ ساتھ نہ ہوتے تو ہمیں سڑک پر ہی جمعہ کی نماز پڑھنی پڑ جاتی۔ گرمی زوروں پر تھی اور ابھی جمعہ کی نماز میں کم از کم تین گھنٹے باقی تھے۔
ہمیں خانہ کعبہ کے صحن میں نہیں‘ اس کی حدود میں جگہ مل گئی تھی۔ رش بہت تھا اور ہم سب ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے تھے۔ درمیان میں ایک انچ کا فاصلہ نہیں تھا۔ بازو سے بازو اور زانو سے زانو جڑے پڑے تھے۔ دھوپ کافی تیز تھی۔ ہم نے دیکھا کہ ایک بہت موٹے تازے بھائی اس پوزیشن میں تھے کہ بیٹھے نہیں بلکہ لیٹے ہوئے تھے جیسے گھر میں کسی پلنگ پر آرام سے لیٹے ہوں۔ ہم نے سوچا کہ اس سے کہیں کہ بھائی نمازیوں کی سہولت کے لیے اٹھ کر بیٹھ جائیں۔ ان سے تعارف کی غرض سے پوچھا کہ آپ پاکستانی ہیں؟ انہوں نے گٹھی ہوئی توند سے جگہ اور گھیر لی اور خشمگیں نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا: نہیں بنگلہ دیشی! دل میں سوچا شاید تاریخ کا بدلہ جگہ نہ دے کر چکانا چاہتے ہیں۔ ہم خاموش ہوئے تو جمعہ کا خطبہ شروع ہو گیا۔
سورہ حج کی تلاوت ، کعبۃ اللہ میں حاضری اور دنیا وما فیھا سے بے نیازی۔ ٹھنڈی ہوا کے جھونکے آتے اور چلچلاتی دھوپ میں سینہ ٹھار دیتے۔ نماز کی ادائیگی کا وقت ہونے والا تھا۔ کہیں سے بپھرے ہوئے ہجوم کی آوازیں جیسے نزدیک آتی جا رہی تھیں‘ یہ وہم نہیں حقیقت تھی۔ سینکڑوں نمازی پولیس (شرطوں) کے بنائے ہوئے بیریئر کو توڑ کر وہاں آنا چاہتے تھے جہاں ہم ٹھنسے ہوئے تھے۔ حجاج جیسے بیریئر کو توڑ دینا چاہتے تھے مگر پولیس ان کو محبت بھری تکنیک سے روکنے کی کوشش کر رہی تھی۔ پہلے ہم نے انجینئر دوستوں کی طرف دیکھا تو انہوں نے اشارے سے کہا: بے فکر ہو جائیں‘ پریشان نہ ہوں۔ ہم نے اس بنگالی بھائی کو دیکھا مگر وہ اسی ٹھسے سے لیٹا ہوا تھا۔ خیر نماز سکون سے ادا کی اور پھر ابو ایوب انصاریؓ کی مسجد سے ہوتے ہوئے کبری (پل) پہنچے۔ کبری کے نزدیک ٹیکسی ڈرائیور تھے اور حجاج کرام کی ٹولیاں‘ جو ان سے بحث مباحثہ کر رہی تھیں۔ ہم نے کبری کے نیچے کھڑے ہو کر آس پاس کا جائزہ لیا تو اس شور شرابے میں ہمیں اپنے بالکل سامنے ایک پرانی قدیم گلی اوپر کی سمت نکلتی دکھائی دی۔ اب وہ گلی غیر آباد تھی‘ ان پہاڑیوں کے درمیان گھاس اگی ہوئی نظر آ رہی تھی جیسے اب وہ راستہ‘ وہ گلی متروک ہو گئی ہو۔
پل کے نیچے کبوتروں کا چوگ بیچنے والی خاتون کا سامان موجود تھا مگر وہ خود نہیں تھی۔ دونوں انجینئر دوستوں سے کہا کہ ٹیکسی کا کرایہ ذرا کم کروا کے گاڑی میں بیٹھنا۔ ان ڈرائیورز کے بقول‘ ان کا یہی کمائی کا سیزن ہے۔ تب انہوں نے بتایا کہ عرفان ہم سب کو لینے آ رہا ہے۔ یہاں سے ہم اس کے فلیٹ میں جائیں گے۔ اتنے میں اسی پل کے نیچے رش کو چیرتا‘ دور سے ہاتھ ہلاتا ہوا وہ ہمیں مل گیا۔ ایک ہنستا مسکراتا خوبصورت نوجوان۔ چکوال کا رہنے والا اور چکوال کی دیسی گھی کی خستہ میٹھی ریوڑیوں کی طرح میٹھا۔ عرفان نے بتایا کہ اس نے بھی حرم پاک میں ہی جمعہ کی نماز ادا کی ہے اور یہ بھی کہ وہ اور ان کے دوست ہمارے لیے گاڑی لے کر آئے ہیں۔ ٹیکسی سے جان چھوٹنے کا سنا تو جان میں جان آئی۔
ایک ٹنل پیدل کراس کرتے ہی عرفان اور ملک غضنفر کی گاڑی نظر آ گئی مگر گاڑی کیا تھی‘ جنگ عظیم اول کے کسی کمانڈر کی سنبھالی ہوئی نشانی تھی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں