یورپی یونین میں ٹھہرنے یا باہرنکلنے کے لیے ہونے والے ریفرنڈم میں چند ہی دن باقی تھے کہ لیبر پارٹی کے رکن ِپارلیمنٹ ، جو کوکس (Jo Cox) کی ہلاکت نے ہونے والی تیز و تند بحث کو کسی حد تک خاموش کرا دیا؛ اگرچہ سکوت کا یہ وقفہ ایک آدھ دن کے لیے ہی تھا۔ گزشتہ ہفتے سے ہونے والے پول سروے اگرچہ سخت مقابلے کو ظاہر کر رہے ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ یورپی یونین میں رہنے والوں کا موقف کمزور پڑ رہا ہے۔ یورپی یونین میں رہنے کی وجہ سے حاصل ہونے والے معاشی مفاد اورچھوڑ جانے کی صورت میں متوقع معاشی نقصان کوڈیوڈ کمیرون اور ان کی ٹیم کی طرف سے شہریوں کو خائف کرنے کی تدبیر کے طور پر دیکھا جارہا ہے تاکہ وہ معاشی نقصان کے ڈر سے یورپی یونین سے نکلنے کا فیصلہ نہ کریں۔ طاقتور چانسلر، جارج اوسبورن نے اپنے تئیں ایک طاقتور پتا کھیلا کہ اگر یونین سے نکلنے کا فیصلہ کیا گیا تو بہت سے اخراجات میں کٹوتی اور ٹیکسز میں اضافہ ناگزیر ہوگا۔ مسٹر چانسلر کا کہنا تھا کہ یورپی یونین سے نکلنے کے بعد محصولات کی شرح گر جائے گی؛ چنانچہ ایسے سخت اقدامات کئے بغیر کوئی چارا نہیں ہوگا۔ تاہم کنزرویٹو ارکان، جن میں جارج اوسبورن کے ساتھی وزیر مائیکل گوو بھی شامل ہیں، نے یہ کہتے ہوئے اس دلیل کو رد کردیا کہ چانسلر پارٹی منشور، جس میں ٹیکسز میں اضافہ نہ کرنا شامل تھا، کی یک طرفہ طور پر خلاف ورزی کرنے کے مجاز نہیں۔
جب رائے عامہ کو یورپی یونین میں ٹھہرنے یا اس سے نکلنے پر قائل کرنے کے لیے چند ماہ پہلے یہ مہم شروع ہوئی تو بہت سوں کا خیال تھا کہ یہ بحث تہذیب و شائستگی کے دائرے میں ہی رہے گی، نیز جو بھی فیصلہ ہو، وزیرِاعظم ڈیوڈکیمرون ہی رہیں گے۔ تاہم جیسا کہ حالیہ دنوں کی جانے والی تقریریں اور پیش آنے والے کچھ واقعات ظاہر کرتے ہیں، اس ریفرنڈم کے نتیجے میں لگنے والا گھائو بہت جلد مندمل نہیں ہوگا۔ بہت سے مبصرین کا خیال ہے کہ اگر تیئس جون کو ہونے والے ریفرنڈم میں یورپی یونین سے نکلنے کا فیصلہ کرلیا گیا تو وزیر اعظم ڈیوڈکیمرون کی پوزیشن خاصی کمزوراور غیر مستحکم ہوجائے گی اور عین ممکن ہے کہ اُنہیں نتائج کے فوری بعد مستعفی ہونا پڑے ۔ ایسی صورت میں ان کے ممکنہ جانشین لند ن کے سابق میئر، پرکشش رہنما بورس جانسن ہوں گے۔ جب اُنھوں نے یورپی یونین سے نکلنے کے تصورکی حمایت کرنے والوںکی صفوں میں شمولیت اختیارکی تو بہت سے ناقدین نے اُنہیں موقع پرست قرار دیا کہ وہ ڈیوڈ کیمرون کے استعفے کی صورت میں اُن کی جگہ لینے کے لیے پرتول رہے ہیں۔ اب ہوسکتا ہے کہ ''آئوٹ گروپ‘‘ کا چہرہ بورس جانسن ہوں لیکن اس گروپ کا دماغ مائیکل گوو ہیں۔ اگرچہ اُن کی ڈیوڈ کیمرون کے ساتھ ذاتی دوستی ہے لیکن وہ ''آئوٹ گروپ ‘‘ کے سب سے سرگرم رہنما ہیں۔ اس کے بعد ''یو کے آئی پی‘‘ (یونائیٹڈ کنگڈم انڈی پنڈنٹ پارٹی ) کے نیگل فاریج بھی'' آئوٹ گروپ‘‘ کی پرزور وکالت کر رہے ہیں۔ یہ نیگل فاریج کی جماعت کا چند سال قبل مقامی حکومتوں کے انتخابا ت میں حیرت انگیز کارکردگی کا مظاہرہ تھا جس نے ڈیوڈ کیمرون کو اپنے 2010ء کے منشور میں ریفرنڈم کا وعدہ کرنا پڑا۔
کنزرویٹو پارٹی میں یورپی یونین سے نکل جانے کا موقف غالب ہے۔ اس وقت ایک سو سے زائد ارکان ِ پارلیمنٹ'' آئوٹ گروپ‘‘کے موقف کی وکالت کر رہے ہیں۔ دوسری طرف لیبر پارٹی بڑی حد تک یورپی یونین میں ٹھہرنے کے موقف کی حمایت کر رہی ہے، اگرچہ اس کے رہنما جرمی کوربین پر الزام ہے کہ وہ اپنے حامیوں کو اس موقف پر قائل کرنے کے لیے زیادہ گرم جوشی کا مظاہرہ نہیں کر رہے ہیں۔ سروے ظاہر کرتے ہیں کہ لیبر پارٹی کے زیادہ ووٹرز، خاص طور پر جن کا تعلق ورکنگ گروپ سے ہے، وہ آئوٹ گروپ کی حمایت کر رہے ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ تارکین وطن کے آنے والے سیلاب کا خوف ہے۔
ہونے والے ریفرنڈم میںملک میں غیر ملکیوں کی کثرت ایک اہم ترین ایشو بن کر ابھر رہا ہے۔ نیگل فاریج اسی نقطے کو اپنی مہم کی بنیاد بنا کر رائے دہندگان کو قائل کرنے کی کوشش میں ہیںکہ یورپی یونین سے نکل جانا کیوں ضروری ہے۔ حالیہ دنوں اس مہم میں اُس وقت مزید شدت آگئی جب حکومت نے اعتراف کیا کہ 2015 ء میں برطانیہ میں تارکین وطن کی تعداد تین لاکھ تیس ہزار سے تجاوز کرچکی ہے۔کاسموپولیٹن شہر لندن میں دنیا بھر سے آئے ہوئے افراد کی ایک بڑی تعداد موجود ہے اوریہ ایک حقیقت ہے کہ لندن کا رویہ آنے والوں کو خوش آمدید کہتا ہے، لیکن مسلۂ یہ ہے کہ برطانیہ کے دیگر شہروں اور قصبوں میں لندن کی سی گرم جوشی عنقا ہے، خاص طو ر پر چھوٹے قصبوں میں مقامی افراد غیر ملکیوں کو قیام کرتے دیکھ کر پریشان ہو جاتے ہیں۔ پرانی نسل سے تعلق رکھنے والے بہت سے برطانوی شہری اپنے علاقوں میں نئی نسل کے افراد اور اُن کے نت نئے طور طریقے دیکھ کر غصے میں آجاتے ہیں۔ ''یوکے آئی پی‘‘ نے اسی ایشو کو اپنی سیاسی کی بنیاد بنا کر عوامی ہمدردیاں حاصل کرنے اور یورپی یونین سے نکل جانے والوں کے ہاتھ مضبوط کرنے کی کوشش کی ہے۔
زیادہ تر ورکنگ کلاس سے تعلق رکھنے والے الزام لگاتے ہیں کہ تارکین ِوطن کی وجہ سے بے روزگاری کا مسلۂ سنگین ہوچکا ہے، اس کی وجہ سے کام تلاش کرنا مشکل اور تنخواہیں کم ہیں۔ یہ طبقہ زیادہ تر لیبر پارٹی کا حامی ہے، لیکن اس مسئلے پر وہ اپنی شہری قیادت سے اختلاف کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ اس بات پر ناراض ہیں کہ اُن کی شہری قیادت تارکین ِوطن کی آمد کو ایک مثبت پیش رفت کے طور پر دیکھتی ہے۔ کچھ تحقیقاتی جائزے یہ ظاہر ضرور کرتے ہیں کہ تارکین ِوطن ٹیکسز کی صورت میں ریاست کو ا س سے زیادہ دیتے ہیں جتنا وہ طبی اورتعلیمی سہولیات اور رعایتی نرخوں پر ہائوسنگ کی صورت میں اس سے حاصل کرتے ہیں۔ دوسری طرف اس حقیقت سے بھی مفر ممکن نہیں کہ تارکین وطن کی وجہ سے سکول پر ہجوم ہیں، ایک ''جی پی‘‘ سے ملنے کے لیے کئی ہفتے قبل وقت لینا پڑتا ہے جبکہ ہائوسنگ کی سہولت لینے کے لیے انتظار کی فہرست بہت طول ہے۔ ان معروضات کی وجہ سے غیر ملکیوں، خاص طور پر رومانیہ، بلغاریہ اور پولینڈ سے آنے والوں کے لیے ناراضی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
اب '' آئوٹ گروپ ‘‘ کے رہنما رائے دہندگان کو خبردار کر رہے ہیں کہ ترکی کی یورپی یونین میں ممکنہ شمولیت کے بعد لاکھوں ترک شہری برطانیہ چلے آئیںگے۔ اگرچہ اس بات کے امکانات معدوم ہیں لیکن اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس ریفرنڈم میں کس طرح حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جا رہا ہے۔ طرفین ایسے اعدادوشمار پیش کر رہے ہیں جو اُن کے موقف کی حمایت کریں۔ رائے دہندگان کو کنفیوژن میں مبتلا کرنے کے لیے متضاد دعوے بھی کیے جارہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں زیادہ تر ووٹر ابھی تک یہ طے نہیں کرپائے کہ اُنہیں تیئس جون کو کس موقف کی حمایت کرنی ہے۔ اس وقت میں بھی برطانوی شہری ہونے کے ناتے ووٹ دینے کا حقدار ہوں۔ میں بھی اس سوچ میں ہوں کہ کس پلڑے میں اپنا ''وزن‘‘ ڈالوں(جو یقینا زیادہ نہیں ہے۔) میں ذاتی طور پر یورپی یونین میں ٹھہرنے کا فیصلہ کرنے کا سو چ رہاہوں کیونکہ میں نیگل فاریج اور بورس جانسن کے ہاتھ مضبوط کرنے کا الزام نہیں لینا چاہتا۔