پی ٹی آئی اور ’معمولِ نو‘ (New Normal)

اپریل 2022ء میں تحریکِ عدم اعتماد کے ذریعے محرومِ اقتدار ہونے کے بعد تحریک انصاف کے سامنے ایک راستہ تو وہی تھا جو جمہوری فکر کی حامل‘ سیاست کا وسیع تجربہ رکھنے والی بالغ فکر جماعتیں اختیار کیا کرتی ہیں۔ وہ سیدھے سبھائو اپوزیشن بینچوں پر بیٹھ جاتی۔ صرف دو ووٹوں کی برتری سے قائم‘ معجونِ مرکب جیسی مخلوط حکومت کا ناطقہ بند کیے رکھتی اور سائفر جیسے ناٹک رچانے اور فوج کو نشانے پر رکھ لینے کے بجائے تحمل اور استقامت کے ساتھ انتخابات کی طرف پیش قدمی کرتی۔
گزشتہ تین برس میں‘ اس کے سفر کو ایسا سفرِ رائیگاں قرار دیا جا سکتا ہے اور وہ قومی سیاست کی ایسی داستانِ عبرت بن چکی ہے جس کے ہر صفحے پر اُس کے بانی کی بے حکمتی‘ اَنا پرستی‘ ہٹ دھرمی‘ خود شکنی اور سیاسی فہم وفرست سے محرومی کے نوشتے رقم ہیں۔
تحریکِ عدم اعتماد کی چاپ سنتے ہی‘ عمران خان نے پہلے ہدف کا تعین کرتے ہوئے تحریکِ عدم اعتماد کو ''رجیم چینج‘‘ (حکومتی تبدیلی) کی عالمی سازش قرار دیا۔ سائفر لہراتے ہوئے اُسے امریکی اور مقامی ''میرجعفروں‘ میر صادقوں‘‘ کی ملی بھگت کا نام دیا۔ مظلومی سے جڑے جرأت وبہادری کے خود تراش نظریے کو ''ہم کوئی غلام ہیں؟‘‘ ''غلامی نامنظور‘‘ اور ''آزادی‘‘ جیسے انقلابی نعرے دیے۔ اسی دوران جنرل باجوہ سے ملاقاتوں میں التماس کی کہ پی ڈی ایم کو فارغ کر کے اُنہیں پھر سے وزارت عظمیٰ کی مسند پر بٹھا دیا جائے۔ اس کے عوض جنرل باجوہ کو تاحیات آرمی چیف بنانے کی پیشکش کی۔
عمران خان کا دوسرا اہم ہدف یہ تھا کہ پاکستان معاشی طورپر سنبھلنے نہ پائے اور دیوالیہ قرار پا کر زمیں بوس ہو جائے۔ اس ہدف کیلئے اُنہوں نے دلجمعی سے بھرپور مہم چلائی۔ اگست 2022ء میں خان صاحب کے وزیر خزانہ شوکت ترین کی آڈیو سامنے آئی جس میں وہ خیبر پختونخوا اور پنجاب کے وزرائے خزانہ کو تلقین کرتے پائے گئے کہ آئی ایم ایف کو عدم تعاون کے خطوط لکھے جائیں تاکہ پاکستان کو کوئی نیا پروگرام نہ مل پائے۔ 23 مئی 2024ء کو عمران خان نے اڈیالہ جیل سے آئی ایم ایف کو ایک طویل خط میں تنبیہ کی کہ وہ ''انتخابات کا آڈٹ‘‘ کیے بغیر پاکستان کو قرض دینے سے باز رہے۔ اس خط کے تین ہفتوں بعد‘ 15مارچ کو پی ٹی آئی نے واشنگٹن میں آئی ایم ایف کے ہیڈ کوارٹرز کے سامنے ایک شعلہ صفت مظاہرہ کیا۔ فروری 2025ء میں عمران خان کے حکم پر پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما عمر ایوب نے آئی ایم ایف کے کنٹری ہیڈ برائے پاکستان سے ملاقات میں ایک فتنہ پرور خط حوالے کیا جس کے ساتھ پاکستان کی ''غزہ‘‘ جیسی صورت حال بارے ایک بھاری بھرکم ''ڈوزیئر‘‘ بھی منسلک تھا۔ عرضداشت یہ تھی کہ پاکستان کو دیوالیہ پن کے بحرِ ظلمات میں غرق ہونے دیا جائے۔ پاکستان کی معاشی ناکہ بندی کیلئے عمران خان نے جنوری 2024ء میں سمندر پار پاکستانیوں سے پُرزور اپیل کی کہ وہ اپنی رقوم پاکستان نہ بھیجیں۔ یہ اپیل عین اُس دن جاری کی گئی جس دن پی ٹی آئی اور حکومت کے مابین مذاکرات کی بساط بچھ رہی تھی۔
عمران خان کا تیسرا اہم ہدف (جس کی منصوبہ بندی وہ اپنے عہدِ حکومت ہی میں کر چکے تھے) یہ تھا کہ جنرل عاصم منیر کو کسی طور آرمی چیف نہ بننے دیا جائے۔ آئی ایس آئی کا سربراہ ہوتے ہوئے‘ جنرل عاصم سے ''دو گستاخیاں‘‘ سرزد ہو چکی تھیں۔ پہلی یہ کہ انہوں نے ٹھوس شواہد اور دستاویزات کے ساتھ وزیراعظم عمران کو بتایا تھا کہ اُن کا گھر کرپشن کا گڑھ بن چکا ہے۔ دوسری یہ کہ نیک نفس جرنیل نے دوٹوک انداز میں انکار کر دیا کہ وہ خان صاحب کے سیاسی مخالفین کے خلاف جعلی مقدمات بنائیں اور انہیں جیل میں ڈالیں۔ عاصم منیر سے خفگی اتنی بڑھی کہ انہیں صرف سات ماہ اکیس دن بعد ڈی جی آئی ایس آئی کے منصب سے ہٹا کر کنیزِ حرم جیسا کردار ادا کرنے والے فیض حمید کو کمان سونپ دی گئی۔ عاصم منیر کا راستہ روکنے کیلئے خان صاحب نے آخری فیصلہ کن یلغار‘ تقرری کے اعلان سے دو دن قبل کی جب وہ زخمی ٹانگ لیے‘ تھکا دینے والا سفر طے کرکے راولپنڈی پہنچے۔ عوام کا مجمع ایک دو ہزار سے آگے نہ بڑھا تو مایوس ہوکر واپس چلے گئے۔ جنرل باجوہ نے آخری لمحے تک عاصم منیر کی بھرپور مخالفت کی لیکن ایک فیصلہ لوحِ قضا وقدر پر کندہ ہو چکا تھا۔ عمران فیض حمید گٹھ جوڑ نے ہمت نہ ہاری۔ 9 مئی 2023ء کو تین سو کے لگ بھگ فوجی تنصیبات‘ فضائیہ کے اڈوں اور شہدا کے مزاروں کی تاخت وتاراج بھی فوج کے اندر ارتعاش پیدا کرکے عاصم منیر کا تختہ الٹنے کی سازش تھی۔
سید عاصم منیر سے مخاصمت کے ساتھ ساتھ‘ خان صاحب نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو بھی نیزے کی اَنی پہ رکھا ہوا تھا۔ اُن کے چہرے پر رسوائیاں تھوپ کر گھر بھیجنے کیلئے بڑے پاپڑ بیلے گئے لیکن قاضی صاحب‘ وقت آنے پر چیف جسٹس بنے اور پوری تمکنت کے ساتھ اپنی میعاد پوری کی۔ عمران خان نے اپنے ڈھب کی عدلیہ تخلیق کرنے کیلئے بھی بڑے جتن کیے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ سے چھ جج صاحبان کا مکتوب گرامی طلوع ہونے کے بعد اڈیالا جیل سے بھی رنگا رنگ خطوط آنے لگے۔ پھر خود عدالتیں بھی مشقِ سخن میں شامل ہو گئیں۔ خان صاحب کی شاخِ آرزو پر کونپلیں پھوٹ ہی رہی تھیں کہ چھبیسویں آئینی ترمیم آ گئی اور ''انقلاب‘‘ جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔
اب برسرِ زمین حقیقت یہ ہے کہ سارے اہداف اور سارے منصوبے گورستانِ تاریخ کا رزق ہو چکے ہیں۔ سائفر کے ناٹک اور بیسیوں جلسوں کے باوجود کسی انقلاب نے انگڑائی نہیں لی۔ عوام اب اس کارِ لاحاصل سے لاتعلق ہو چکے ہیں۔ ''فائنل کال‘‘ کی بڑی ہزیمت نے پی ٹی آئی کے دست وبازو کی قوت کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے۔ آئی ایم ایف کا پروگرام کامیابی سے جاری ہے۔ معیشت اپنے پائوں پر کھڑی ہو چکی ہے اور اللہ کے فضل وکرم سے دیوالیہ پن کا خطرہ بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ خان صاحب کی اپیل کے باوجود سمندر پار سے ترسیلاتِ زر نئے ریکارڈ قائم کر رہی ہیں۔ سید عاصم منیر‘ بھارت کے خلاف جنگ میں فتحِ مبین کے بعد فیلڈ مارشل کے بلند ترین منصب پر فائز ہو چکے ہیں۔ خان صاحب کی سپاہِ سوشل میڈیا کا نشانہ بننے والی پاک فوج‘ اہلِ وطن کے دلوں کے بہت قریب آ گئی ہے۔ ''صداقت وامانت‘‘ کی سنداتِ فضیلت بانٹنے اور ''گڈ ٹو سی یو‘‘ کہہ کر استقبال کرنے والی عدلیہ قصّہ ماضی ہو چکی۔ سپریم کورٹ فوجی عدالتوں سے دی جانے والی سزائوں کی توثیق کر چکی۔ سپریم کورٹ ہی کی ہدایت کے مطابق 14 اگست تک انسدادِ دہشت گردی کی عدالتیں 9 مئی کے ملزموں کے مقدر کا فیصلہ کرنے جا رہی ہیں۔ فیض حمید کا کورٹ مارشل‘ فیصل ہونے کو ہے۔ خود فریبی کی کارگاہ میں تراشا گیا‘ ڈونلڈ ٹرمپ نامی مسیحا‘ اڈیالا جیل سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتا۔
یہ ہے وہ نیو نارمل (New Normal) یا ''معمولِ نو‘‘ جو پاکستان میں نہایت مضبوطی کے ساتھ خیمے گاڑ چکا ہے۔ اس ''معمولِ نو‘‘ کی چولیں عمدگی کے ساتھ ایک دوسرے میں پیوست ہیں۔ مودی کی بے سروپا جنگجوئی نے پاکستانیت کے احساس کو نئی جِلا بخشی ہے۔ اس توانا اور تازہ دم ''معمولِ نو‘‘ کے سامنے ایک ایسا شکست خوردہ گروہ ہے جو اپنے تمام پتے کھیل چکا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کے دروازے پر دستک دیتے دیتے اس کے ہاتھوں سے لہو رسنے لگا ہے لیکن کوئی شنوائی نہیں ہو رہی۔ ایسے میں ایک بار پھر شاہراہوں کو بندکرنے‘ عوام کو سڑکوں پہ لانے اور انقلاب بپا کرنے کے منصوبے بن رہے ہیں۔ ''معمولِ نو‘‘ (New Normal) یہ سب کچھ دیکھ رہا ہے‘ مسکرا رہا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں