مودی کا ’’نیو نارمل‘‘ اور راکھ ہوتا سیندور!

''آپریشن سیندور‘‘ کی لاش دس مئی سے بے گور وکفن پڑی ہے۔ اب تو اُس سے تعفن بھی اُٹھنے لگا ہے۔ کھال ہڈیاں چھوڑ رہی ہے۔ مودی‘ بہار کے انتخابات جیتنے کیلئے گلی گلی محلّے محلّے جھوٹ کے سرکس سجا رہا ہے۔ آپریشن سیندور کو اپنی فتح قرار دیتے ہوئے جَنتا کو گمراہ کر رہا ہے اور اُس کی مسلح افواج کھلے عام اپنی شکست کو تسلیم کرتے ہوئے مودی کی راہ کھوٹی کر رہی ہیں۔
مودی کا ایک دعویٰ یہ ہے کہ چار روزہ جنگ کے نتیجے میں ایک ''نیو نارمل‘‘ یا ''معمول ِنو‘‘ تو جنم لے چکا ہے۔ دوسرا دعویٰ یہ کہ ''آپریشن سیندور‘‘ بدستور جاری ہے۔ مودی کے دونوں دعوے درست مان لیے جائیں تو بھی اُن کے معنی ومفہوم کو زمینی حقائق کی آنکھ سے دیکھنا ہو گا۔ درو دیوار پر لکھا سچ یہ ہے کہ اپنی پسند کا وقت‘ محاذ اور طریقِ جنگ چننے کے باوجود بھارت یہ جنگ ہار گیا۔ بُری طرح ہار گیا۔ ساری دنیا نے اس ہار پر مہرِ تصدیق ثبت کر دی۔ ابتدائی مرحلے میں بھرپور تحمل کے ساتھ پاکستان نے خود کو اپنے دفاع تک محدود رکھا۔ اور جب ''بنیانٌ مرصوص‘‘ کی باگیں ڈھیلی چھوڑ دی گئیں تو صرف تین گھنٹے پینتیس منٹ میں مودی کا سرِ پُرغرور‘ رزقِ خاک ہو گیا۔ اُس کے پاس کوئی چارہ نہ تھا کہ بارگاۂ قصرِ سفید پر دستک دیتا اور ڈونلڈ ٹرمپ کے حضور جنگ بندی کی عرضی گزارتا۔
بقول مودی‘ اگر ''آپریشن سیندور‘‘ جاری ہے‘ تو صرف اس قدر ہے کہ سوالات اُٹھ رہے ہیں اور میڈیا کا آتش کدہ دہک رہا ہے۔ فنِ دروغ گوئی میں کمال مہارت کے باوجود مودی کیلئے حقائق چھپانا مشکل ہو رہا ہے۔ پاکستان نے جنگ کے پہلے مرحلے میں ہی واضح اعلان کر دیا تھا کہ رافیل سمیت بھارت کے پانچ طیارے تباہ کر دیے گئے ہیں۔ بھارت نے ایک بار بھی اس دعوے کی واضح تردید نہیں کی؛ البتہ حیلے بہانے سے ''چُنری‘‘ پہ لگا یہ داغ چھپانے کی کوشش کرتا رہا۔ نومئی کو جب بھارتی فضائیہ کے ڈی جی آپریشنز اے کے بھارتی سے طیاروں کی تباہی کے بارے میں سوال کیاگیا تو اُس نے الفاظ چباتے ہوئے کہا ''نقصانات لڑائی کا حصّہ ہوتے ہیں۔ میں اس سے زیادہ کچھ نہیں بتا سکتا۔ ایسا کرنے سے فریقِ مخالف کو فائدہ پہنچ سکتا ہے‘‘۔ عالمی میڈیا‘ آزاد اور غیر جانبدار ذرائع سے پاکستانی دعوے کی تصدیق کرتا رہا۔ پھر مودی کی جماعت بی جے پی کے سینئر رہنما اور سابق وزیر قانون سبرامینین سوامی نے لگی لپٹی رکھے بغیر بتایا کہ ''جنگ میں پاکستان نے بھارت کے پانچ طیارے مار گرائے ہیں۔ مودی کو چاہیے کہ وہ قوم کو سچائی سے آگاہ کریں‘‘۔ آخری اور حتمی اعتراف چیف آف ڈیفنس سٹاف‘ جنرل انیل چوہان کی طرف سے آیا۔ 'بلومبرگ‘ سے انٹرویو کے دوران‘ نشانہ بننے والے بھارتی طیاروں کی تعداد بتانے سے گریز کرتے ہوئے انیل چوہان نے یہ کہہ کر بھانڈا پھوڑ دیا کہ ''طیارے گرنا زیادہ اہم نہیں‘ اہم یہ ہے کہ طیارے کیوں گرے؟‘‘ کیا بیانیہ ہے؟
مودی کے ''نیو نارمل‘‘ یا 'معمولِ نو‘ کا ایک پہلو یہ ہے کہ بات چھ طیاروں کے زمین بوس ہونے تک محدود نہیں رہی۔ اس نے دنیا بھر کے دفاعی اور جنگی حکمت کاروں کے چوپالوں میں ارتعاش پیدا کر دیا ہے۔ اس سوال کی گونج بڑھتی جا رہی ہے کہ کیا چین نے‘ سائبر اور اے آئی (مصنوعی ذہانت) کے بل پر نئی اختراعات کے ذریعے اپنے طیاروں کی ضرب اور دشمن کے فضائی دفاعی نظام کو مفلوج کر دینے میں مغربی ٹیکنالوجی پر برتری حاصل کر لی ہے؟ اس سوال میں خطے ہی نہیں‘ پوری دنیا کے نظامِ دفاع وجنگ میں‘ نئے مضمرات کے امکانات انگڑائی لے رہے ہیں۔
مودی کے 'نیو نارمل‘ کا دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ وہ اس چار روزہ جنگ میں شدید نوعیت کی عالمی تنہائی کا شکار نظر آیا۔ اُس کے پرانے اتحادیوں یا دوستوں سمیت‘ کوئی ایک ملک بھی سینہ تان کر اُس کے پہلو بہ پہلو کھڑا دکھائی نہیں دیا۔ پاکستان کے دوست ڈٹ کر اس کے ساتھ کھڑے رہے۔ عسکری میدان کے بعد سفارتی میدان میں یہ شکست‘ بھارت میں موضوع بحث بنی ہوئی ہے۔ جنگ بندی کے بعد مودی کو نہ پارلیمنٹ کا سامنا کرنے کا حوصلہ ہے نہ دنیا کو منہ دکھانے کا یارا۔ پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف اور آرمی چیف‘ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر ابھی ابھی ایران‘ ترکیہ‘ آذربائیجان اور تاجکستان کے دورے سے واپس آئے ہیں۔ وہ جہاں بھی گئے‘ پاکستان کی فتحِ مبین کا بانکپن میزبانوں کے چہروں پر بھی شفق بکھیرتا نظر آیا۔ اس ماہ وہ سعودی عرب اور چین کے دوروں پر جا رہے ہیں۔ اس سے قبل نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے چین کا نہایت اہم دورہ کیا جہاں افغانستان کے وزیر خارجہ کو بھی خصوصی دعوت پر بلایا گیا۔ چین کے توسط سے پاک افغان تعلقات میں جمود ٹوٹنے لگا ہے۔ دونوں ممالک نے اپنے اپنے ناظم الامور کا درجہ‘ سفیر تک بڑھا دیا ہے۔ مستقبل قریب میں سفارتی رابطوں میں تیزی آنے والی ہے۔
'معمولِ نو‘ کا تیسرا زاویہ‘ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا نپا تلا اور متوازن روّیہ ہے جو بھارت کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔ بھارت کو اس جنگ کے دوران امریکی حمایت کا کامل یقین تھا۔ ایسا نہ ہوا۔ ٹرمپ کوئی ایک درجن بار بطور فخر اپنے ''مدبرانہ کردار‘‘ کا ذکر کرتے ہوئے کہہ چکا ہے کہ ''میں نے دونوں ممالک کے مابین ایٹمی جنگ ٹالی‘‘۔ اس تاثر کی نفی بھی نہیں ہو پا رہی کہ بنیانٌ مرصوص کے برق رفتار ردِعمل کے بعدبھارت کے ہاتھ پائوں پھول گئے اور اس نے امریکہ سے جنگ بندی کی التماس کی۔ بھارت کو یہ بات بھی ہضم نہیں ہو رہی کہ ٹرمپ نے اپنے ٹویٹ میں مسئلہ کشمیر کے حل کا ذکر کیوں کیا؟ تجارتی اور ٹیرف معاملات پر پاک امریکہ مذاکرات کا سلسلہ پہلے ہی شروع ہو چکا ہے۔
'معمولِ نو‘ نے بھارت میں ایک اور بڑے قضیے کو جنم دیا ہے۔ اس قضیے کا نام ہے بھارت کی سیاسی اور عسکری قیادت میں بڑھتی ہوئی خلیج اور متضاد بیانیے۔ دونوں کے ہاتھ ایک دوسرے کے گریبان پر ہیں۔ دونوں راکھ بن جانے والا سیندور‘ ایک دوسرے پہ پھینک رہے ہیں۔ مودی‘ بہار کے انتخابات کے پیشِ نظر ڈگر ڈگر 'فتح‘ کی ڈگڈگی بجا رہا ہے اور اس کی اپنی مسلح افواج کے اعلیٰ عہدیدار‘ پانچ طیارے گرائے جانے کا اعتراف کرتے ہوئے‘ بھارتی شکست کا نوحہ پڑ ھ رہے ہیں۔ ''معمولِ نو‘‘ کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ اگر 'آپریشن سیندور‘ جاری ہے تو اب اس کا رُخ پاکستان کی طرف نہیں‘ خود مودی کی طرف مُڑ گیا ہے۔ جوں جوں مودی اور اُس کے دروغ گو میڈیا کی کہانیوں کا پول کھل رہا ہے‘ توں توں جَنتا کا اشتعال بڑھ رہا ہے۔ گیارہ برس بعد مودی کے چہرے کے حقیقی خدوخال نمایاں ہو رہے ہیں۔ وہ کھلی شکست سے فتح کشید کرنے کے جتن کر رہا ہے اور اُس کی اپنی سپاہ‘ اُس کے بیانیے کی دھجیاں اُڑا رہی ہے۔ جنرل انیل چوہان کا یہ انکشاف کوئی عام سی بات نہیں کہ دو دن تک بھارتی فضائیہ معطل ومفلوج ہوکر رہ گئی۔ اُدھر کانگرس سمیت تمام اپوزیشن جماعتوں نے حکومت اور مسلح افواج دونوں کو نشانے پر رکھ لیا ہے۔ بلاشبہ شکست ہمیشہ بانجھ اور لاوارث رہتی ہے لیکن بھارتی فوج اور سیاسی قیادت کے درمیان شرمناک ہزیمت کی ذمہ داری ایک دوسرے کے سر تھوپنے کی جنگ وہ ''معمولِ نو‘‘ ہے جو کسی بھی حادثے کو جنم دے سکتا ہے۔
یہ ڈراما دکھائے گا کیا سین
پردہ اُٹھنے کی منتظر ہے نگاہ

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں