فارسی میں کہتے ہیں ''اے روشنیٔ طبع تو برمن بلا شدی‘‘ میاں اظہر کی طرح چودھری محمد سرور کو بھی ان کی صاف گوئی لے بیٹھی۔ مگر کیا وہ نہیں جانتے تھے کہ انہیں گورنر پنجاب کا منصب حکمرانوں کی ہاں میں ہاں ملانے اور اپنی زبان بند رکھنے کے لیے عطا ہوا‘ ہر معاملے میں ٹانگ اڑانے کے لیے نہیں۔
بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ چودھری محمد سرور مئی 2013ء کے انتخابات سے قبل پاکستان آ گئے تھے۔ پاکستان مسلم لیگ ن اور شریف برادران کے پاس میاں اظہر کے بعد ایسا کوئی کیمیا گر نہیں تھا جو پنجاب کے دیہی حلقوں (بالخصوص جہاں ارائیں برادری موثر ووٹ بنک رکھتی ہے) میں ناراض دھڑوں کو اپنی سابقہ جماعت میں واپسی پر آمادہ کر سکے۔ عمران خان کی جارحانہ پیش قدمی نے مسلم لیگی قیادت کو پریشان کر رکھا تھا اور وہ پرویز مشرف کے ساتھیوں کی جملہ خطائیں معاف کرنے پر مجبور تھی مگر ان الیکٹ ایبلز کے تحفظات تھے‘ وہ واپسی کی صورت میں ٹکٹ ملنے کی ضمانت مانگتے تھے اور ماضی کے تجربات کی روشنی میں وہ مسلم لیگی قیادت کے وعدوں اور یقین دہانیوں پر اعتماد کرنے کے لیے ہرگز تیار نہ تھے۔
چودھری سرور نے بعض ڈویژنوں میں ناراض عناصر پر اپنی خوش خلقی‘ شیریں لسانی اور ملنساری کے علاوہ اعتبار و یقین کا جادو جگایا اور مضبوط امیدوار‘ دھڑا دھڑ مسلم لیگ کا رُخ کرنے لگے۔ ٹکٹوں کی تقسیم میں بھی چودھری سرور کا کردار اہم تھا مگر انہیں پہلا دھچکا اس وقت لگا جب وہ حامد ناصر چٹھہ‘ سلیم سیف اللہ خان‘ میاں آصف سمیت مسلم لیگ ہم خیال گروپ کے کسی امیدوار کو ٹکٹ دلوانے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ چودھری سرور نے ہم خیال گروپ کو ٹکٹ دلانے کی یقین دہانی کرائی تھی نہ وہ مسلم لیگ ن اور مسلم لیگ ہم خیال کے مابین طے پانے والے تحریری معاہدے کے ضامن تھے مگر میاں صاحب نے دونوں جماعتوں کے مابین دو رکنی مذاکراتی کمیٹی میں شامل کیا تو انہیں یہ جان کر حیرت ہوئی کہ مسلم لیگی قیادت تحریری معاہدے پر عملدرآمد کا ارادہ نہیں رکھتی اور وعدہ خلافی پر شرمندہ نہیں۔ برطانیہ میں کونسلر سے رکن پارلیمنٹ تک کا سیاسی سفر طے کرنے والے سیاستدان کو شاید علم نہیں تھا کہ پاکستان میں معاہدے اور وعدے قرآن و حدیث نہیں محض ردی کا ٹکڑا ہوتے ہیں اور مطلب براری و وقت گزاری کا ذریعہ۔ اس معاملے میں الا ماشاء اللہ سب سیاستدان نہلے پہ دہلا ہیں۔
چودھری محمد سرور نے گورنر پنجاب کا حلف اٹھایا تو انہیں یقین تھا کہ سماجی خدمت اور تعلیم کا شعبہ ان کی جولا نگاہ ہوگا اور وہ ان شعبوں میں اپنی صلاحیتوں اور توانائیوں کو آزادی سے بروئے کار لا سکیں گے۔ وہ برطانیہ کی شہریت چھوڑ کر کم و بیش ستر ایکڑ قطعہ اراضی پر محیط گورنر ہائوس میں سبزیاں اگانے کے لیے پاکستان نہیں آئے تھے‘ مگر انہیں گورنر بنانے والوں کے خیال میں چودھری سرور اب عملی سیاست چھوڑ کر پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کے آئینی سربراہ کے طورپر آرام کرنا چاہتے تھے۔
گورنر نے اپنی مرضی کا سٹاف لینا چاہا تو مزاحمت ہوئی‘ جلد ہی چودھری صاحب کو احساس ہوا کہ پنجاب میں بڑے میاں تو بڑے میاں چھوٹے میاں بھی ان کی سرگرمیوں کی باریک بینی سے جانچ پڑتال کرتے اور بڑوں کو آگاہ رکھتے ہیں۔ ایک بار برطانیہ سے آئے اپنے بعض دوستوں کے ساتھ انہوں نے شارع قائداعظم پر واقع ایک پنج ستارہ ہوٹل کا رُخ کیا۔ ایک ریستوران میں بیٹھ کر بے تکلفی سے گپ شپ کی اور پروٹوکول کے بغیر لابی میں آ گئے جہاں ایک فیملی نے انہیں پہچان کر روک لیا‘ وہیل چیئر پر بیٹھی ایک بزرگ خاتون نے انہیں قریب بلا کر دعائیں دیں اور کہا ''شکر اے پنجاب نوں کوئی بندے دا پُتر حکمران ملیا اے جہدی گردن وچ سریا نہیں‘‘ پھر گورنر سے مخاطب ہوئیں ''وے توں باقیاں نوں وی سمجھا‘ او بندے دے پُتر کیوں نئیں بن دے‘‘ سب سے علیک سلیک کے بعد گورنر ہائوس پہنچے تو انہیں کال موصول ہوئی کہ گورنر صاحب ہر ایرے غیرے کی گفتگو سننا اور قیادت کو لیٹ ڈائون کرنا اچھی بات نہیں۔ چودھری سرور حیران رہ گئے کہ انہوں نے کیا بُرا کیا؟ اور ان کی اتنی کڑی نگرانی؟
چودھری سرور کو جلد اندازہ ہو گیا کہ حکومت میگا ترقیاتی پراجیکٹس پر یقین رکھتی ہے جس سے عوام کی آنکھیں چندھیا جائیں تعلیم‘ صحت اور صاف پانی کی فراہمی سے زیادہ موٹروے‘ میٹرو بس‘ انڈر پاسز اور فلائی اوورز اہم ہیں اور انصاف کا موجودہ نظام برقرار رکھنا اشرافیہ کی سیاسی مجبوری ہے کیونکہ صرف اسی طرح عام آدمی جاگیرداروں‘ وڈیروں‘ تمنداروں‘ سرمایہ داروں اور الیکٹ ایبلز کے رحم و کرم پر زندگی گزار سکتا ہے اور چھوٹے موٹے کاموں کے لیے طاقتور لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے کا کلچر ''سٹیٹس کو‘‘ پر مبنی موجودہ نظام کی اصل کامیابی ہے۔
چودھری سرور کو یہ تجربہ اس وقت ہوا جب انہوں نے برطانوی دور کی یادگار ایک تعلیمی ادارے میں میرٹ کا نظام رائج کرنے کی کوشش کی اور بڑے خاندانوں کے نالائق بچوں کے بجائے غریب لوگوں کے لائق اور ہوشیار بچوں کو داخل کرنے پر اصرار کیا۔ پورے پنجاب میں کہرام مچ گیا اور انہیں اس بات پر مطعون کیا گیا کہ وہ اشرافیہ کے اس تعلیمی ادارے کی شاندار روایات کی بیخ کنی کر رہے ہیں جہاں صرف انہی بچوں کو داخلہ ملتا تھا جن کے باپ دادا‘ تایا‘ چچا میں سے کوئی چند روز تک پڑھتا رہا ہو۔ اتفاق سے اس فیصلے کی زد ایک بااثر خاندان پر پڑی جن کے مبینہ طورپر پانچ بچوں کے داخلے میرٹ پر پورا نہ اُترنے کی بنا پر روک لیے گئے۔ یہ تعلقات میں سرد مہری کا آغاز تھا جبکہ سانحہ ماڈل ٹائون‘ عوامی تحریک اور حکومت کے مابین مذاکرات کے دوران چودھری سرور کے اصولی موقف نے اس سردمہری میں مزید اضافہ کیا۔
عمران خان اور علامہ طاہر القادری کا دھرنا جاری تھا جب گورنر سرور کی ناراضگی کی اطلاعات منظرعام پر آئیں۔ چودھری سرور نے 17 جون کے واقعہ کے بعد یہ مؤقف اختیار کیا کہ سانحہ ماڈل ٹائون کے ذمہ داروں کو بہرصورت سزا ملنی چاہیے۔ انہیں میاں شہباز شریف کے اس مؤقف کے حوالے سے تحفظات تھے کہ وہ دن دیہاڑے ریاستی دہشت گردی کے اس واقعہ سے لاعلم تھے۔ غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق مذاکرات کے دوران انہیں حکومت کے مقابلے میں عوامی تحریک کا موقف درست لگا اور مذاکرات کی ناکامی کا ذمہ دار وہ حکومت کو سمجھتے تھے مگر استعفے کی اطلاعات منظرعام پر آنے کے بعد انہوں نے تردید کردی اور اب بھی پریس کانفرنس میں شریف برادران سے اختلافات کی نفی کی۔ میاں نوازشریف تالیف قلب کے لیے خود گورنر ہائوس چلے گئے؛ تاہم تعلقات کے شیشے میں بال آ گیا تھا اور دونوں فریق مناسب وقت کے انتظار میں تھے۔
تیل کے بحران‘ اوباما کے دورۂ بھارت اور دیگر معاملات پر چودھری سرور کے بیانات نے حکمران جماعت کی صفوں میں بے چینی پیدا کی۔ میاں نوازشریف کے بعض قریبی دوستوں کے خیال میں چودھری سرور کی سرگرمیاں غیر دوستانہ ا ور مخصوص حلقوں سے رابطوں کا شاخسانہ ہیں اس لیے سینیٹ کے انتخابات سے قبل فیصلہ کرنا ضروری تھا۔ ممکن ہے چودھری صاحب بعض لوگوں کو سینیٹ کا ٹکٹ دینے پر اصرار کرتے کہ عام انتخابات کے دنوں میں وعدے کیے ہوتے ہیں‘ یہ بھی امکان ہے کہ سینیٹ انتخابات کے بعد چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے عہدوں کی خواہش رکھنے والے ایک آدھ سینئر مسلم لیگی رہنما کو وزیراعظم اور ان کے قریبی ساتھی گورنر پنجاب کے طور پر اکاموڈیٹ کرنا چاہتے ہوں تاکہ ان دونوں مناصب پر وہ مطلوبہ افراد کی خدمات سے فائدہ اٹھا سکیں۔
بعض دور کی کوڑی لانے والوں کا خیال ہے کہ ایک کے بعد دوسرے بحران کا سامنا کرنے والی حکومت کے لیے چودھری سرور کا استعفیٰ بڑا دھچکا ہے۔ ناقص طرز حکمرانی اور غیر تسلی بخش کارگزاری کے الزامات کی زد میں حکومت کو اگر کسی ناخوشگوار صورتحال کا سامنا کرنا پڑا تو متبادل سیٹ اپ میں چودھری سرور کا کردار ہو سکتا ہے؛ تاہم ہر اہم واقعہ کے بعد اس طرح کی سازشی تھیوریاں گردش کرتی ہیں اور یہ بھی انہی میں سے ایک ہو سکتی ہے۔ چودھری سرور اگر واقعی شریف برادران سے ناراض ہیں اور وہ استعفے کے بعد بیرون ملک سدھارنے کے بجائے پاکستان میں مقیم رہنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو یہ مسلم لیگ ن کی حکومت کے لیے لمحۂ فکریہ ہے کیونکہ سیانے کہہ گئے ہیں ؎
یہ اِک اشارہ ہے آفاتِ ناگہانی کا
کسی جگہ سے پرندوں کا کوچ کر جانا