یہ خونِ خاک نشیناں تھا

بیس مزدوروں کے قاتلوں اور ان کے سرپرست ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ اور گہرام بلوچ نے اصل ظلم بلوچستان کے بے وسیلہ اور بے زبان عوام پر ڈھایا۔
سرائیکی وسیب‘ رومانوی کردار پُنل (میر پنوں خان ہوت) کی وجہ سے کیچ (تربت) سے محبت کرتا ہے۔ سرائیکی شاعری میں پنوں اور پُنل کا ذکر اس تواتر سے ملتا ہے کہ رانجھا‘ مہینوال اور پنجاب کے دیگر رومانوی کردار مبتلائے رشک ہوتے ہیں۔ بلوچستان کے علیحدگی پسند درندوں کو کیا علم کہ کیچ کا شہزادہ پُنّوں جس سسّی سے محبت میں شاہی آرام و آسائش چھوڑ‘ ایک غریب دھوبی کا ملازم بنا‘ کپڑے دھونے پر تیار ہوا وہ صادق آباد (ضلع رحیم یار خان) کے قریب قصبہ بھٹہ واہن میں پیدا ہوئی اور سسّی دی ماڑی (سسّی کا محل) اب بھی یہاں زیارت گہہ اہل عزم و ہمت ہے۔
میر پنوں خان ہوت کیچ کا شہزادہ تھا۔ سسّی بھی ایک راجہ کے گھر پیدا ہوئی۔ سسّی کا مطلب چاند چہرہ ہے۔ حسن و جمال میں بے مثال اور ناز و انداز میں یکتا یہ بچی پیدا ہوئی تو توہم پرست راجہ اور رانی کو ایک نجومی نے بتایا کہ یہ بچی آپ کے لیے بدنامی کا باعث بنے گی؛ چنانچہ ماں باپ نے بدنامی کے خوف سے اس ماہ لقا کو لکڑی کے ایک صندوق میں بند کر کے دریائے سندھ میں بہا دیا جو ان دنوں بھٹہ واہن اور جمال دین والی کے قرب و جوار سے گزرتا تھا۔ یہ سسّی بھنبھور میں ایک دھوبی کے ہاتھ لگی جس نے اسے خدائی تحفہ سمجھا‘ یہ غریب لاولد تھا۔
کیچ کا شہزاد پُنل غریب دھوبی کے گھر پرورش پانے والی سسّی کے عشق میں کیسے مبتلا ہوا‘ سسّی کو پانے کے لیے اس نے کیا پاپڑ بیلے باپ کی مخالفت کے باوجود کس طرح شادی کرنے میں کامیاب رہا اور پھر اس کے بھائی ہمدرد بن کر کس طرح راتوں رات پنل کو اغوا کر کے واپس لے گئے؟ یہ کہانی پھر سہی۔ خواجہ غلام فریدؒ، شاہ عبداللطیف بھٹائی اور سچل سرمست کی شاعری میں اس کا ذکر تفصیل سے ملتا ہے۔؎
یار بروچل کیچ دا والی‘ کیتو حال کنوں بے حالی
پربت ردہ رُلایو وے یار
اساں کنوں دل چایو وے یار
آپے شہر بھنبھور ڈوآیوں‘ یاری لا کر چھوڑ سدھایوں
مفتا کوڑ کمایو وے یار
سسّی کرہوں قطار‘ کیچ ڈہوں ہن ہن وے
جھاگ جبل تھل بار‘ نال پُنل بن تن وے
ویندیں یار نہ کھڑ مکلایا‘ کیچوں کوئی پیغام نہ آیا
جنڈری دا ججمان گل دا گیڑ تھیو سے
مگر جن کا ذوق پست‘ پیشہ نفرت‘ نظریہ تعصب اور شوق قتل و غارت ہے انہیں ہوت پنل سے سروکار نہ محروم و مظلوم بلوچیوں کی فکر اور نہ کیچ کی بدنامی کا خوف‘ صدیوں بھٹہ واہن کی سسّی کو پُنل اور کیچ کے باسیوں سے شکایت رہی کہ ع پربت روہ رلایو وے یار۔ اب خواجہ فریدؒ کی دھرتی کے باسی‘ کیچ مکران اور بلوچستان کے دوسرے حصوں سے آنے والی لاشیں اٹھانے لگے ہیں مگر انہیں آج تک سمجھ نہیں آ سکی کہ صادق آباد‘ وہاڑی‘ تونسہ‘ راجن پور اور دیگر سرائیکی و پنجابی علاقوں کے بلوچستان میں اپنا انسانی‘ اسلامی اور قومی فرض ادا کرنے والے اساتذہ‘ ڈاکٹروں‘ دکانداروں‘ حجاموں‘ مزدوروں‘ سرکاری ملازمین اور دیہاڑی داروں کا جرم کیا ہے؟ غریب بلوچی عوام کی خدمت واقعی اتنا بڑا جرم ہے جس کی سزا موت سے کم نہیں؟
لاہور کی ایک یونیورسٹی نے بلوچستان میں مسنگ پرسنز کا معاملہ قومی اور بین الاقوامی سطح پر اٹھانے والے ماما قدیر اور فرزانہ عبدالمجید کو انسانی حقوق کے حوالے سے گفتگو کے لیے مدعو کیا‘ تو بعض اداروں نے یونیورسٹی انتظامیہ کو اس متنازع کردار کی آئوبھگت سے روک دیا۔ خوب احتجاج ہوا اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے آسمان سر پر اٹھا لیا۔ صادق آباد کے اردگرد گھاس پھونس کی جھونپڑیوں سے سولہ مزدوروں کے جنازے اٹھے تو انسانی حقوق کے کسی علمبردار نے تعزیتی بیان جاری کیا‘ نہ ماما قدیر کا جذبہ انسانی ہمدردی جاگا اور نہ پورے ملک درکنار ضلع رحیم یار خان کے کسی عوامی نمائندے نے بے گناہی کے جرم میں موت کو گلے لگانے والے غریب کارکنوں کی مائوں‘ بہنوں‘ بیوائوں اور یتیم بچوں کے سر پر دست شفقت رکھا‘ تسلی کے دو لفظ بولنا گوارا کیا۔
بلوچستان کی محرومی کا ڈھنڈورا بہت پیٹا جاتا ہے‘ افلاس‘ بے روزگاری‘ جہالت اور پسماندگی ہے بھی بہت۔ ہماری اسٹیبلشمنٹ نے پہاڑ جیسی غلطیاں کیں‘ بعض علاقوں اور اقوام سے سوتیلی ماں کا سلوک روا رکھا اور وسائل کی منصفانہ تقسیم سے احتراز برتا مگر یہ تو 1947ء کے بعد کا قصّہ ہے۔ برٹش بلوچستان میں اس قدر جہالت‘ غربت‘ پسماندگی اور ظلم و استحصال کا سبب کیا تھا؟ کبھی کسی نے سوچا نہ عوام کو تفصیل سے بتایا۔ درحقیقت بلوچستان کے سردار مری‘ مینگل‘ بگتی‘ زہری‘ رند‘ باروزئی اور دیگر عوام کو‘ تعلیم‘ صحت‘ روزگار اور جدید سہولتوں سے محروم رکھنے کے ذمہ دار ہیں اور یہی اپنے مظالم کی پردہ پوشی کے لیے عوام کو پنجاب اور پاکستان کی نام نہاد زیادتیوں کی داستانیں سنا کر کبھی پہاڑوں پر چڑھا دیتے ہیں اور کبھی افغانستان و ایران کی طرف دھکیل کر اسٹیبلشمنٹ سے سودے بازی کرتے ہیں۔ خود محلات میں رہتے اور عوام کو پہاڑوں اور ریگستانوں میں قتل و غارت پر لگائے رکھتے ہیں۔
ایوب خان‘ پرویز مشرف‘ ذوالفقار علی بھٹو‘ میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کے بارے میں تو چلو مان لیتے ہیں کہ ان سب نے بلوچ عوام کو ان کا حق نہیں دیا مگر خان آف قلات‘ جام آف لسبیلہ‘ مینگل‘ بگتی‘ مری‘ اچکزئی‘ رئیسانی‘ جمالی جن اہم صوبائی اور مرکزی مناصب پر فائز تھے ان میں سے کس نے بلوچستان میں دودھ شہد کی نہریں بہانے میں دلچسپی لی؟ ماضی کو چھوڑیے پرویز مشرف اور آصف علی زرداری کے دور میں کھربوں روپے کے جو ترقیاتی فنڈز بلوچستان کے حکمرانوں کو ملے ان میں سے کتنے فیصد عوامی اور صوبائی فلاح و بہبود پر خرچ ہوئے اور کس قدر بیرون ملک اکائونٹس میں منتقل۔ یہ کل کی بات ہے اور حساب لگانا آسان۔
احساس محرومی اگر ہے بھی تو حکمران طبقے کا پیدا کردہ ہے جس میں بلوچستان کے سردار اور پنجاب و سندھ کے وڈیرے برابر کے حصہ دار ہیں لیکن ڈاکٹر اللہ نذر‘ حیربیار مری‘ براہمداغ بگتی اور مینگل کے صاحبزادے تو بلوچستان میں قلع قمع ان ڈاکٹروں‘ ٹیچرز‘ تاجروں‘ مزدوروں اور سرکاری ملازمین کا کر رہے ہیں‘ جو اس بدنصیب صوبے کی ترقی پر کمربستہ ہیں۔ ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل کے لیے کوشاں اور رزق حلال کی تلاش میں اپنے گھروں سے دور۔ ان میں سے کس نے بلوچ عوام کے حقوق تلف کئے؟ یا پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ مضبوط کئے؟ انہیں تنگ کرنا‘ قتل و غارت گری کا نشانہ بنانا‘ بلوچستان کے ساتھ دوستی ہے یا دشمنی؟ کیا سوراب ندی پر بند باندھنے کا فائدہ کسی پنجابی یا سرائیکی وڈیرے کو ہے؟ کیا ڈیرہ بگتی‘ کوہلو اور خضدار میں کسی ترقیاتی منصوبے کی تکمیل اسلام آباد یا لاہور کے مفاد میں ہے یا بلوچستان ہی ثمر بار ہو گا؟ بلوچ سردار‘ قوم پرست‘ علیحدگی پسند اور اسٹیبلشمنٹ عوام دشمنی کے یک نکاتی ایجنڈے پر متحد و متفق کیوں؟
افسوس مگر اس بات کا ہے کہ ہم شمالی وزیرستان میں آپریشن ضرب عضب کو سراہتے ہیں۔ سراہنا چاہیے کہ دہشت گردوں کا قلع قمع ہو رہا ہے کراچی میں ٹارگٹ کلرز کے خلاف کارروائیوں پر رینجرز کے حق میں تحسین آمیز کلمات کہتے ہیں؛ اگرچہ رک رک کر اور ادھر ادھر دیکھ کر مگر بلوچستان میں علیحدگی پسندوں‘ دہشت گردوں اور نام نہاد قوم پرست درندوں نے ظلم و وحشت کا جو بازار گرم کر رکھا ہے اس کی خبر لیتے ہیں نہ دہشت گردی کی کسی کارروائی کی بھرپور مذمت کرتے ہیں اور نہ ان کی روک تھام کا مطالبہ خوش دلی سے کرتے ہیں اس لیے کہ مرنے والے خاک نشین ہیں اسلام آباد میں کوئی جاننے والا نہ کوئٹہ و لاہور میں کوئی ہمدرد و غمگسار۔
البتہ اگر ماما قدیر اور فرزانہ مجید کو بھارتی تربیت یافتہ دہشت گردوں کی کارروائیوں کا جواز پیش کرنے اور فراری کیمپوں میں بیٹھ کر غیر بلوچی شہریوں کا خون بہانے والوں کی وکالت سے روک دیا جائے تو ہمارا جذبۂ انسانی ہمدردی ٹھاٹھیں مارنے لگتا ہے۔ ریاست اور ریاستی اداروں کے خلاف ہر بندوق اٹھانے اور ہمارے ازلی دشمنوں سے راتب وصول کرنے والا ہر علیحدگی پسند‘ دہشت گرد اور غریب دشمن بلوچستان کا دوست اور انسانی حقوق کے علمبرداروں کا ہیرو ہے۔ ورنہ موم بتی فیم سول سوسائٹی ان سولہ مزدوروں کی بے رحمانہ موت پر بھی چند منٹ سوگ ضرور مناتی۔ صادق آباد اور رحیم یار خان میں نہ سہی لبرٹی چوک میں شمعیں ضرور روشن کرتی اور دل سے نہ سہی دکھاوے کے لیے مگرمچھ کے چند آنسو بھی بہاتی مگر حرام ہے کہ کسی کے کان پر جوں تک رینگی ہو۔
ڈاکٹر عبدالمالک نے ایسے واقعات میں بھارت کو ملوث بتلایا۔ اور ان مزدوروں کے تابوتوں کو کندھا دیا خدا انہیں جزائے خیر دے۔ انسانی حقوق کے سارے مامے چاچے اس بیان اور اقدام پر پریشان لگتے ہیں۔ سبھی صمٌ بکمٌ عمیٌ فہم لا یعقلون (البقرہ۔171)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں