کوئلوں کی دلالی

کامران کیانی کو مختلف ٹھیکے اپنے بھائی جنرل اشفاق پرویز کیانی کی سفارش پر ملے؟ یا اوپن ٹینڈرز کے ذریعے؟ یہ بحث فضول ہے۔ سامنے کی حقیقت یہ ہے کہ چھوٹے کیانی نے اپنے برادر بزرگ اور سابق آرمی چیف کے نام کی لاج نہ رکھی اور ان کے لیے شرمندگی کا باعث بنے۔
اس ملک میں کسی بھی بااختیار سرکاری عہدیدار کے بھائی‘ بیٹے اور قریبی رشتہ دار کو سفارش کی ضرورت ہوتی ہے نہ سرپرستی کی ع
نگاہ یار سلامت ہزار میخانے
قائد اعظم نے جب اپنے بھائی کے بزنس کارڈ پر ''برادر گورنر جنرل آف پاکستان‘‘ لکھا دیکھ کر ملنے سے انکار کیا اور تنبیہ کی کہ وہ آئندہ ان کا نام استعمال نہ کرے‘ تو جانتے تھے کہ میں کسی سے کہوں نہ کہوں‘ اپنے کسی عزیز کی سفارش کروں نہ کروں‘برصغیر کے خوشامدی کلچر میں لوگ خود بخود اسے سر آنکھوں پر بٹھائیں گے اور میرے ساتھ تعلّق کو ہر محکمے ‘ ہر شعبے میں بآسانی ایکسپلائٹ کیا جا سکتا ہے۔ مجھے علم ہو یا نہ ہو۔
فیلڈ مارشل ایوب خان کے سامنے ایک فائل آئی جس میں ان کی کابینہ کے ایک بنگالی وزیر کے بھائی یا بیٹے کے لیے کسی کاروبار کی اجازت طلب کی گئی تھی۔تمام قانونی تقاضے پورے کئے گئے تھے اور موصوف عاقل و بالغ اور کاروباری شخص کے طور پر اجازت کے حقدار تھے مگر ایوب خان نے فائل پر لکھا کہ میری کابینہ کے رکن سے رشتے داری کے سبب یہ مناسب نہ ہو گا کہ وہ اس قانونی سہولت سے فائدہ اٹھائے۔ چند سال بعد وزیر خزانہ محمد شعیب کے مشورے پر فیلڈ مارشل کے صاحبزادے گوہر ایوب خان نے فوج چھوڑ کر جنرل موٹرز کی ایجنسی لی اور اپنے سسر جنرل (ر) حبیب اللہ کے ساتھ مل کر گندھارا موٹرز قائم کی تو اُصول پسندوالد صاحب کویہ بات یاد نہ رہی‘ وہ اس بات پر خوش ہوتے رہے کہ میری سفارش پر نہیں‘ اپنی صلاحیت و ذہانت کی بنا پر بیٹا گوہر آبدار ہے۔ واقعی ''انمّا امواُلکم و اولاد کم فتنۃ‘‘تمہارا مال اور تمہاری اولادآزمائش ہے۔ 
جب مرض الموت میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے متوقع جانشینوں کی فہرست پیش کی گئی تو اس میں حضرت عبداللہ ابن عمر ؓ کا نام سرفہرست تھا۔ عبداللہ ؓکی دیانت و امانت‘ ذہانت و فراست‘ علم و حکمت اور معاملہ فہمی ضرب المثل تھی اور باپ کے ساتھ رہ کر انہوں نے آداب جہانبانی سیکھے تھے۔ مگر امیر المومنین نے ان کا نام مسترد کر دیا۔ جلیل القدرصحابہ کرام نے کہا؛ امیر المومنین کا بیٹا ہونا کوئی جرم ہے نہ نا اہلی کا ثبوت ۔مگر حضرت عمر ؓ کا جواب تھا میں اس کی اجازت نہیں دے سکتا۔ جانتے تھے کہ اُمت اسے بطور مثال پیش کرے گی اور ہر اقربا پرور اس کا حوالہ دے گا۔
ملک غلام محمد ہماری سیاسی تاریخ کا ایک ایسا کردار ہے جس پر ہمیشہ طعن و تشنیع کے تیر برسائے گئے۔ نئی نسل اسے اقتدار کے بھوکے 'سازشی‘ جمہوریت دشمن اور قانون شکن کے طور پر جانتی ہے مگر اس طاقتور و بااختیار شخص کا بیٹا انعام محمد ایک کاروباری فرم میں ایک ہزار روپے ماہانہ تنخواہ پر ملازم ‘وفاقی دارالحکومت کراچی میں کرائے کے مکان میں رہتا تھا۔ داماد حسین ملک کا نجی کاروبار تھا مگر دونوں کو گورنر جنرل ہائوس میں رہنے کی اجازت تھی نہ ملازمت وکاروبار میں سفارش اور نہ کسی سرکاری سہولت سے فائدہ اٹھانے کی جرأت۔ ہفتہ دس روز بعد دونوں اپنی بیگمات کے ہمراہ گورنر جنرل سے ملنے آتے‘ گھریلو اور دو طرفہ دلچسپی کے معاملات پر تبادلہ خیال کرتے اور اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جاتے۔
جنرل یحییٰ خان جن دنوں ہسپتال میں زیر علاج اور زیر حراست تھے‘ ان کے دیرینہ دوست آغا حسن علی عابدی انہیں ہفتے میں ایک بار ملنے کے لیے ضرور آتے۔ ایک گھنٹہ گپ شپ کرتے اور پھر خاموشی سے رخصت ہو جاتے۔ ایک دن آغا حسن علی عابدی آئے‘ کمرے میں گئے اور پھر پندرہ بیس منٹ بعد پیر پٹختے باہر نکل گئے۔ یحییٰ خان غصے میں بڑ بڑا رہے تھے۔ پتہ چلا کہ عابدی نے یحییٰ خان کے خراب مالی حالات کے پیش نظر صاحبزادے علی یحییٰ خان کے لیے ایک غیر ملکی کمپنی میں ملازمت دلانے کی پیش کش کی جس کا بڑے میاں نے سخت بُرا منایا اور اس قدر جلال میں آئے کہ حسن عابدی کو کمرہ چھوڑ کر جانا پڑا۔ 
مگر یہ پرانے زمانے کی باتیں ہیں اور ان بدنام لوگوں کے قصّے جنہیں بقول شخصے مالی معاملات میں دیانتداری کا ہیضہ تھا اور وہ اپنی اولاد کو نہ صرف ریاستی معاملات سے الگ رکھتے بلکہ اپنے عہدہ و منصب کو کئی نسلوں کی ترقی و خوشحالی کے لیے استعمال کرنا بُرا جانتے تھے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ نیک نام حکمران اپنی آل اولاد سمیت کاروبار کرتے ہیں اور بااُصول ججوں‘ جرنیلوں اور بیورو کریٹس کے بیٹے‘ بھانجے‘ بھتیجے گوہر ایوب خان کی طرح صنعت و تجارت میں ہنر آزماتے ہیں۔ لوگ ریٹائرمنٹ کے بعد بیرون ملک ملازمت کو معیوب نہیں سمجھتے۔ اولاد کو بھی سرکاری مناصب پر فائز افراد کی طرح پروٹوکول ملتا ہے اور بڑے بڑے ان کی چاپلوسی کو اعزاز سمجھتے ہیں۔کوئی پوچھ بیٹھے تو جواب ملتا ہے کہ کیا کسی عاقل و بالغ شخص کو اپنا کاروبار کرنے اور خداداد ذہانت سے فائدہ اٹھانے کا حق حاصل نہیں؟ عوامی نمائندہ اور حکمران ہونے کا یہ مطلب کہاں ہے کہ بچے اور رشتے دار بھوکے مریں اور ریاست ان کی عزت و حفاظت میں کوتاہی برتے۔کاروبار بھی کون سا؟ پراپرٹی کا۔ نری بدنامی اور کوئلوں کی دلالی۔
حضرت ابوبکر ؓ منصب خلافت سنبھالنے کے بعد کپڑا فروخت کرنے نکلے تو حضرت عمر ؓ نے انہیں مشورہ دیا کہ اب وہ کاروبار سے دستبردار ہو جائیں کیونکہ خلیفہ وقت کاروبار کریں گے تو کسی اور کا کاروبار جم نہیں پائے گا۔ حضرت عمر ؓبن عبدالعزیزؓ نے خلافت سنبھالتے ہی اپنے خاندان کو کاروبار سے روک دیا تاکہ کسی کو انگلی اٹھانے کا موقع نہ ملے۔ دونوں خُلفائے راشدہؓ نے یہ موقف اختیار کیا نہ ان کے کسی مداح و ہمنوا نے حق ترجمانی نبھایا کہ ملک کے دیگر شہریوں کی طرح انہیں خود اور ان کے خاندان کو تجارت و کاروبار کا حق حاصل ہے۔ چودہ سو سال پہلے نبویؐ تعلیمات کی بنا پر مسلمانوں کو علم تھا کہ اعلیٰ مناصب پر فائز افراد اور ان کے عزیز و اقارب اگر کاروبار کریں گے تو دوسروں کی حق تلفی ہو گی اور سفارش و بدعنوانی کا مکروہ کلچر فروغ پائے گا۔ جبکہ موجودہ ترقی یافتہ دور میں یہ جنس گراں بلکہ ناپید۔
جنرل اشفاق پرویز کیانی یقیناً اپنے بھائیوں کے کاروبار میں شراکت دار ہو ں گے نہ انہیں تعمیراتی ٹھیکے اور دفاعی سودوں کے آرڈر دلوانے میں ملوث۔ میاں شہباز شریف نے بھی کم و بیش یہی بات کہی ہے مگر جس منصب پر وہ فائز تھے اس کے کچھ تقاضے تھے اگر اُن کے چھوٹے بھائیوں کو یہ احساس نہ تھا کہ وہ اپنے محسن اور برادر بزرگ کے منصب کی لاج رکھیں تو کیانی صاحب ڈی ایچ اے اور دوسرے اداروں کو ایک خاموش پیغام دے سکتے تھے کہ ان کے بھائیوں کے ساتھ لین دین نہ کریں۔ 2008ء کے انتخابات میں انہوں نے ملک بھر کی بیورو کریسی اور انتخابی عملے کو خاموش پیغام دے کر جنرل پرویز مشرف اور کنگز پارٹی کے عزائم ناکام بنائے تھے۔ میاں شہباز شریف کی طرف سے باضابطہ اطلاع ملنے پر بھی کیانی صاحب اپنے برادر خورد کو روک نہ سکے جس طرح سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو اپنے صاحبزادے ارسلان افتخار کے کاروبار کا سکینڈل سامنے آنے تک علم نہ ہو سکا ؎
ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزرگاہوں کا
اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا
کامران کیانی اب بھی بے قصور بھائی کو مزید مشکل میں ڈالنے کے بجائے وطن واپس آ کر تحقیقات کا سامنا کرے۔ ارسلان افتخار کی طرح اس کا بھی شائد کوئی بال بیکا نہ کر سکے۔ کیونکہ یہاں طاقتوروں اور کمزوروں ‘ امیروں اور غریبوں کے لیے عدل و انصاف کے دوہرے پیمانے ہیں اور نیب کا نزلہ بھی ہمیشہ عضو ضعیف پر گرتا ہے۔ جب تک کیانی صاحب اپنے منصب پر فائز رہے ڈی ایچ اے کو ہوش آئی نہ نیب کو اور نہ نجی محفلوں میں زیر بحث ڈی ایچ اے‘ اسلام آباد‘ ڈی ایچ سٹی لاہورسکینڈل اور لاہور رنگ روڈ کے ٹھیکوں کے حوالے سے کامران کیانی کا کردار پارلیمنٹ‘ عدالتوں اور میڈیا کی نوک زبان پر آیا۔ چڑھتے سورج کی پوجا ہمارا شیوہ ہے اور جانے والوں پر پھٹکار ہماری قومی عادت‘ اگر کیانی برادران کے خلاف شفاف تحقیقات ہر طرح کے لٹیروں کے خلاف بلا امتیاز احتساب کا نقطہ آغاز ثابت ہوتو چشم ماروشن دل ماشاد ۔ یہ موجودہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا کارنامہ اور کیانی برادران کا قوم پر احسان ہو گا ۔ بریگیڈیئر(ر)امجد کیانی کو حکومت اور نیب سے یہ معقول مطالبہ کرنا چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں