داغلطی گنجائش نشتہ

خدا کسی ریاست پر یہ برا وقت نہ لائے کہ فوجی گاڑی پر حملہ ہو‘ دو فوجی شہید ہو جائیں اور پولیس اندراج مقدمہ کے بجائے تھانوں کی حدود کا تعین نہ کرپائے۔اسلامی جمہوریہ پاکستان کے علاوہ کسی دوسرے ملک میں ایسا ممکن نہیں۔ پسماندہ افریقی ممالک بھی اس سنگدلی کے متحمل نہیں۔
وقت وقت کی بات ہے۔ کسی زمانے میں ریاست اپنے رعب و دبدبہ کے حوالے سے اس قدر حساس ہوا کرتی تھی کہ ایک بار گوجرانوالہ کے نواحی گائوں میں گلی کی نکڑ پر نصب لیٹر بکس کا تالہ کسی نے توڑ دیا صوبائی دارالحکومت سے محکمہ ڈاک کے عملہ کے علاوہ اعلیٰ انگریز پولیس افسران بھی موقع پر پہنچ گئے کہ آخر سلطنت برطانیہ کی حدود میں کسی شخص کو سرکاری لیٹر بکس کا تالہ توڑنے کی جرأت کیسے ہوئی ؟انگریز حکمرانوں کا خیال تھا کہ جو ریاست اپنی املاک کی حفاظت نہیں کر سکتی وہ شہریوں کی جان و مال اور عزت و آبرو کا تحفظ کیسے کرے گی؟۔ جب تک وارداتیا پکڑا نہیں گیا صوبائی دارالحکومت میں کوئی پولیس افسر چین کی نیندنہ سو سکا۔
پاکستان بننے کے بعد طویل عرصہ تک یہ صورتحال برقرار رہی۔ مغربی پاکستان میں نواب آف کالا باغ امیر محمد خان کی حکمرانی تھی کہ کوئٹہ میں جرائم پیشہ شخص نے رات کے پچھلے پہر ڈپٹی کمشنر کے گھر کی دیوار پھلانگ کر اندر داخل ہونا چاہا۔ ڈیوٹی پر مامور پولیس اہلکاروں نے ہوائی فائرنگ کی مگر وہ شخص فرار ہو گیا گورنر نے ڈپٹی کمشنر اور ایس پی سٹی دونوں کو معزول کر دیا ڈپٹی کمشنر کا قصور یہ بتایا کہ'' کسی شخص کو یہ جرأت کیسے ہوئی کہ وہ اس کے بنگلے میں داخل ہونے کی کوشش کرے۔ یہ لاء اینڈ آرڈر کی خراب صورتحال اور حکومت کی بے وقعتی کی علامت ہے۔ ڈپٹی کمشنر ہائوس کے اردگرد تو ایک مربع میل کے علاقے میں کسی جرائم پیشہ شخص کو بری نیت سے گھومنے پھرنے کی ہمت نہیں ہونی چاہیے۔ کجا کہ وہ دیوار پھلانگے۔ ڈپٹی کمشنر کا اپنا گھرمحفوظ نہیں تو وہ دوسروں کی خاک حفاظت کرے گا‘‘۔ یہ مگر ان دنوں کی باتیں ہیں جب ریاست اور حکومت کا دبدبہ تھا اور وہ اپنی اخلاقی ساکھ برقرار رکھنے کے لیے کسی بات پر سمجھوتہ نہ کرنے کی عادی تھی۔
پاکستان میں فوج اور عوام کے مابین احترام کا رشتہ ہمیشہ برقرار رہا ۔ ملک میں پرتشدد احتجاجی تحریکوں اور بدترین ہنگاموں کے دوران بھی فوج سڑکوں پر آئی تو لوگ سب کچھ بھول بھال کر پاک فوج زندہ باد کے نعرے لگانے لگے۔ 1977ئمیں بھٹو صاحب نے فوج اور عوام کو ایک دوسرے کے مدمقابل لاکھڑا کیا تو دو بریگیڈیئر صاحبان نے عوام پر گولی چلانے کے بجائے اپنے عہدوں سے مستعفی ہونے کو ترجیح دی۔ فوج کے مدمقابل ہمیشہ ملک دشمن عناصر ہی آئے۔ 1971ء میں مشرقی پاکستان میں بھارت کے تربیت یافتہ عناصر نے یہ کارنامہ انجام دیا اور 1973ء سے اب تک بلوچستان کے علیحدگی پسندوں‘ کراچی کے ٹارگٹ کلرز‘ بھتہ خوروں اور قبائلی علاقوں کے دہشت گردوں کا یہ وطیرہ ہے۔ پاک فوج کی گاڑی پر حملہ کرنے والے بھی یہی عناصر ہوں گے جنہیں کراچی کا امن ایک آنکھ بھاتا ہے نہ پاکستان کا استحکام۔ جو آپریشن ضرب عضب کے علاوہ کراچی آپریشن کی کامیابی کو اپنی اور اپنے آقائوں کی ناکامی سمجھتے ہیں مگر اس سانحہ کے بعد تھانے کی حدود کا تنازع؟ اک معمّہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا۔ واردات کے بعد تو قاتلوں کی تلاش میں پنجابی محاورے کے مطابق ''ہٹیھلی اُتے‘‘ (نیچے کی اوپر) ہو جانی چاہیے تھی۔ سورج غروب ہونے سے پہلے قاتل گرفتار اور اگلے دو چار روز میں سمری سماعت کے بعد کیفر کردار تک پہنچ جاتے۔
دنیا بھرمیں فوج‘فوجی تنصیبات پر حملوں کو بغاوت سمجھا جاتا ہے اور باغیوں کو ان کے انجام تک پہنچانے کے لیے کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کیا جاتا۔ پاکستان میں بھی آپریشن ضرب عضب اور نیشنل ایکشن پلان ریاست کے باغیوں سے نمٹنے کی سعی ہے فوجی عدالتوں کے ذریعے ایسے باغیوں کو سزائے موت بھی ملی مگر تاحال ان کے حوصلے پست نہیں ہوئے ایک مصروف شہر میں جہاں قدم قدم پر پولیس کے علاوہ رینجرز مستعد ہے‘ کیمرے نصب ہیں اور سراغرسانی کے غیرمعمولی انتظامات کی نوید بھی سننے کو ملتی ہے۔ ایک فوجی گاڑی پر حملہ‘ دو فوجیوں کی شہادت اور قاتلوں کا اطمینان سے فرار ہو جانا ریاست اور حکومت دونوں کے لیے باعث ندامت ہے مگر جہاں پولیس اس باغیانہ کارروائی پر بھی حدود تھانہ کا تنازعہ نمٹا رہی ہو۔ شرمندگی کس بات کی؟ یہ کھوج کون لگائے کہ جائے واردات پر کیمرے خراب کیوں تھے۔ان پر شہد کی مکھیوں نے چھتے کیسے بنا لیے؟ وارداتیں ہمیشہ ان مقامات پر کیوں ہوتی ہیں جہاں کیمرے خراب ہیں؟ قاتلوں کو یہ اطلاع کون بہم پہنچاتا ہے کہ فلاں جگہ واردات مناسب رہے گی۔ ؟ شناخت کا امکان نہیں۔
کراچی پولیس اور سول حکومت پر تنقید بہت ہو چکی۔ سول اداروں کی ناکامی کا اعتراف کوئی کرے نہ کرے رینجرز کی موجودگی اور ایپکس کمیٹی کی تشکیل ناکامی کا برملا اعتراف ہے۔ جون اور جولائی میں پے درپے واقعات نے رینجرز پر بھی اعتراضات کا دروا کر دیا ہے۔ کیونکہ برس ہا برس سے رینجرز شہر میں پولیس کے فرائض انجام دے رہی ہے اور حال ہی میں جب صوبائی حکومت نے رینجرز کو اندرون سندھ کارروائیوں سے روکا تو ڈی جی رینجرز نے یہ بیان دیا کہ ان کی فورس کو نیشنل ایکشن پلان کے تحت چھاپے مارنے‘گرفتاریاں کرنے اور شر پسند عناصر سے نمٹنے کا اختیار ہے۔ کئی روز سے اختیارات میں توسیع نہ ہونے کے باوجود رینجرز نے لاڑکانہ اور کراچی میں کارروائیاں کیں اورگزشتہ شب بھی برنس روڈ سے اسلحہ برآمد کیا۔ لہٰذا ان اختیارات کے ساتھ جوابدہی بھی لازم ہے۔ تاہم صوبائی حکومت اور ادارے رینجرز کی موجودگی کا بہانہ بنا کر اپنی ذمہ داریوں سے پہلو تہی کر سکتے ہیں نہ اتنے سنگین واقعہ کا ملبہ کسی دوسرے پر ڈال کر بری الذمہ قرار پاتے ہیں۔بار بار یہ عرض کیا جا چکا کہ فرض شناس ‘دبائو سے آزاد‘ مستعد اور تجربہ کار پولیس‘ سیاسی عصبیتوں اور مصلحتوں سے بالاتر حکومت اور رینجرز و پولیس کے مابین بہترین کوآرڈی نیشن کے بغیر کراچی میں پائیدار امن کا قیام محض خواب رہے گا۔ جب تک شہر میں ایک بھی باغی‘ دہشت گرد‘ ٹارگٹ کلر اور بھتہ خور کے علاوہ ان کا سہولت کار زندہ ہے۔ پناہ گاہیں موجود ہیں اور سیاست و جرم میں تال میل ہے خوش فہمی نقصان دہ ہو گی۔
بھارت سرینگر سے عالمی برادری کی توجہ ہٹانے کے لیے کراچی پر ایک بار پھرتوجہ مرکوز کر چکا ہے وہ کراچی کے حالات اس قدر خراب کر دینا چاہتا ہے کہ عالمی میڈیا اسے فوکس کرے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں ایسے نام نہاد دانشوروں ‘ تجزیہ کاروں اور سیاسی نابغوں کی کمی نہیں جو کراچی اور بلوچستان کے حالات کا موازنہ سرینگر اور مقبوضہ کشمیر سے کرتے اور اپنی جہالت و ہٹ دھرمی پر ہرگز نہیں شرماتے۔ جموں و کشمیر متنازع علاقہ ہے‘کشمیری عوام حق خود ارادیت کی جنگ لڑ رہے ہیں انہیں یہ حق اقوام متحدہ کی قرار دادوں اور تقسیم برصغیر کے ایجنڈے کے ذریعے ملا جبکہ فاٹا‘ کراچی اور بلوچستان پاکستان کا غیر متنازع حصہ ہیں اور یہاں فوج اور دیگر ریاستی اداروں سے لڑنے والے دہشت گرد‘ باغی‘علیحدگی پسند‘ ٹارگٹ کلر اوربھتہ خور ہیں جن کی سرکوبی عوام کا مطالبہ اور ریاست کا فرض ہے فاٹا‘ کراچی اور بلوچستان میں لاکھوں عوام سڑکوں پر نکل کر آزادی کے نعرے لگا رہے ہیں نہ فوج اور رینجرز ان پر پیلٹ گن سے فائرنگ کر رہی ہے اور نہ کہیں کرفیو نافذ ہے۔ اگر 12مئی کو خون کی ہولی کھیلنے ‘ فوجی جوانوں اورامجد صابری پر حملہ کرنے والے بدکردار عناصر پکڑے جانے پر اپنے آپ کو مظلوم ثابت کریں تو یہ ڈھٹائی ہے جس کی تائید وہی شخص کر سکتا ہے جس کے دل میں خوف خدا ہے نہ آنکھ میں شرم و حیا ۔جو رہتا پاکستان میں مگر وفادار بھارت کا ہے یا دہشت گردوں اور باغیوں کا۔کراچی میں قیام امن کے لیے آپریشن کی رفتار بڑھانی ہو گی۔ سول حکومت اور عسکری اداروں کو بلی چوہے کا کھیل ختم کر کے تیز رفتار حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے اور ایک مقررہ مدت میں یہ آپریشن پائیہ تکمیل تک پہنچے ۔سندھ میں حکومت کی تبدیلی کے بعد یہ گھی سیدھی انگلیوں سے نہیں نکلتا تو متبادل حکمت عملی پر غور کرنے میں حرج نہیں‘ میاں نواز شریف اور چودھری نثار علی خان ‘مراد علی شاہ کو ‘خوش آمدید کہیں مگر یہ بھی باور کرائیں کہ حضور ! آپ نے حلف پاکستان کی وفاداری اور صوبے کی خدمت کا اٹھایا ہے۔ اس کی پاسداری فرمائیں۔ دھرتی کا قرض چکائیں اس نے دکھ بہت اٹھا لیے۔ خون بہت بہہ چکا ۔ تماشہ بن چکی‘ داغلطی گنجائش نشتہ۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں