"JDC" (space) message & send to 7575

انڈین فارن سیکرٹری کی سارک یاترا

انڈین فارن سیکرٹری کے دورئہ اسلام آباد کے بارے میں پریس ٹرسٹ آف انڈیا کا کہنا ہے کہ یہ سارک یاترا ہوئی ہے‘ پاکستان یاترا نہیں۔ ایک موقر انڈین کالم نگار آکر پٹیل کا کہنا ہے کہ بھارت کو پاکستان سے دوستی کرنے میں کوئی جلدی نہیں۔ آکر پٹیل کا استدلال یہ ہے کہ بھارت کی رائے میں دونوں ممالک کے درمیان سب سے اہم مسئلہ دہشت گردی ہے جبکہ پاکستان کے لیے کشمیر نمبرون ایشو ہے۔ پٹیل کا دعویٰ ہے کہ انڈیا میں دہشت گردی کے واقعات میں واضح کمی آئی ہے۔ دوسری طرف پاکستان میں تمام سیاسی جماعتیں اس بات کے حق میں ہیں کہ بھارت سے تعلقات اچھے ہونا چاہئیں۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ منافقت کی مناسب مقدار ہمیشہ سے سفارت کاری کا حصہ رہی ہے۔ صدیوں سے کئی سفارت کار یہ کہتے آئے ہیں کہ ملک و قوم کے مفادمیں جھوٹ بولناجائز ہے۔ لہٰذا انڈیا کے فارن سیکرٹری بھی سارک کی چادر اوڑھ کر آئے لیکن دوطرفہ معاملات پر انہیں بات کرنا پڑی۔ پاکستان کے بارے میں دبنگ قسم کی خارجہ پالیسی بی جے پی کی سوچ کا حصہ ہے۔ اس سوچ کا مظاہرہ ہمیں لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کی صورت میں نظر آئی۔ پھر پاکستانی ہائی کمشنر اورکشمیری لیڈر شبیر شاہ کی ملاقات کا بہانہ بنا کر گزشتہ سال مذاکرات منسوخ کر دیے گئے۔ اصل مقصد کشمیر میں ووٹ حاصل کرکے حکومت بنانے کا تھا اوروہ مقصد بھی حاصل نہ ہوسکا۔ اب الٹا سری نگر میں کولیشن حکومت کے لیڈر اور وزیراعلیٰ مفتی سعید نے کہا ہے کہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان بیک چینل ڈپلومیسی دوبارہ شروع ہونی چاہیے اور اس کا ایک رائونڈ پچھلے ہفتے ہی اسلام آباد میں ہوا ہے۔ میرے ایک دوست جو انڈیا پر گہری نظر رکھتے ہیں‘ بتا رہے تھے کہ آزادی کے تھوڑے عرصے کے بعد کراچی میں انڈیا
کے سفیر نے اپنے فارن آفس کو مشورہ دیا کہ ہمیں کشمیر میں وعدے کے مطابق ریفرنڈم کرانا چاہئے‘ اگر کشمیریوں نے انڈیا کا حصہ بننے کا فیصلہ کیا تو بہت اچھا ہے اور اگر وہ پاکستان کا حصہ بننے کے حق میں ووٹ دیتے ہیں تو بھی علاقائی امن و سلامتی کے لیے مفید ہوگا۔ اس وقت وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو وزارت خارجہ کا قلمدان بھی رکھتے تھے۔ پنڈت صاحب نے سفیر کو سمجھایا کہ اخلاقی اعتبار سے تمہاری بات درست لگتی ہے لیکن زمینی حقائق کی طرف دیکھیں تو صاف نظر آتا ہے کہ انڈیا پاکستان کو تھکا سکتا ہے جبکہ پاکستان ایسا کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ لہٰذا ہمیں ریفرنڈم کرانے میں کوئی جلدی نہیں کرنا چاہئے۔ پنڈت نہرو کی سوچ کا پر تو ہمیں آج کے انڈیا کی پالیسیوں میں بھی نظر آتا ہے؛ بلکہ مودی سرکار کی سوچ پاکستان کے بارے میںاور زیادہ سخت ہے۔
پچھلے ماہ نئی دہلی میں سفیر رہنے والے ایک ریٹائرڈ کو لیگ سے ملاقات ہوئی‘ میں نے ان سے پوچھا کہ پاکستان کے حوالے سے بی جے پی اور کانگریس کی سوچ میں کیا فرق ہے؟ کہنے لگے‘ بہت واضح فرق ہے۔ کانگریس کے ذہن میں ایک احساس گناہ ہے کہ ہم پاکستان کی علیحدگی کے فیصلے میں شریک تھے جبکہ بی جے پی کو ایسا کوئی احساس گناہ نہیں۔
وزیراعظم نریندر مودی کے ذہن میں انڈیا کا ایک وژن ہے۔ وہ پورے بھارت کو تیزاقتصادی ترقی کے اس عمل سے گزارنا چاہتے ہیں جس سے صوبہ گجرات ان کی قیادت میں گزر چکا ہے۔ وہ انڈیا کو عالمی طاقت بنانا چاہتے ہیں۔ یو این سکیورٹی کونسل میں دائمی نشست حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ جو تیز اقتصادی ترقی وہ چاہتے ہیں‘ اس کا حصول پاکستانی راہداری سے اور بھی آسان ہو جائے گا۔ اب پاکستان سے راہداری یا تو ڈرا دھمکا کے لی جا سکتی ہے یا برابری کی بنیاد پر دوستی کرکے۔ دھونس اور غلبے کی سیاست پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کی وجہ سے ممکن نہیں رہی۔ دوستی کرنے میں بھارت کو کوئی جلدی نہیں تو پھر گھوم پھر کر وہی پرانے والا سوال آتا ہے کہ انڈیا آخر کیا چاہتا ہے؟ اور جواب وہی ہے جو پہلے بھی اس کالم میں دیا جا چکا ہے کہ انڈیا کو ایک کمزور اور تابع فرمان پاکستان چاہیے۔ ایسا پاکستان ایٹمی ہتھیاروں سے پہلے عسکری غلبے سے حاصل ہوسکتا تھا لیکن اب یہ ممکن نہیں‘ لہٰذا اب پورا زور اس بات پر ہے کہ پاکستان کو اندرونی طور پر کمزور کیا جائے۔
بات موضوع سے ہٹ گئی۔سبرامینیم جے شنکر کو آئوٹ آف ٹرن خارجہ سیکرٹری لگایا گیا ہے۔ موصوف چین اور امریکہ میں بطور سفیر بہت کامیاب رہے۔ دونوں ملکوں سے تعلقات بہتر کرنے میں ان کا واضح رول تھا۔ ان کی پیش رو محترمہ سجاتا سنگھ کچھ موٹی عقل کی مالک تھیں۔ وہ سنگل ٹریک سخت گیر خاتون تھیں۔ امریکہ میں ایک بھارتی سفارت کار کے غلط موقف کی سپورٹ ایسے انداز میں کی کہ بھارتی حکومت کو انسانی حقوق کے حوالے سے خفت اٹھانا پڑی اور یہ حقوق اس انڈین نوکرانی کے تھے جسے وعدے سے کم تنخواہ دی گئی تھی۔ انڈین فارن آفس نے جس بھونڈے طریقے سے اس معاملے کو ڈیل کیا اس سے دوطرفہ تعلقات میں تنائو کی کیفیت پیدا ہوئی۔ آپ کو یاد ہوگا کہ پچھلے سال وزیراعظم نواز شریف نئی دہلی گئے تو محترمہ کی پریس کانفرنس نے جو تھوڑی سی خیر سگالی پیدا ہوئی تھی وہ بھی کافور کردی۔ سچی بات یہ ہے کہ سفارت کار کا کام سنار والا ہوتا ہے‘ لوہار والا نہیں۔
سبرامنیم جے شنکر کے دورے میں تمام امور پر بات ہوئی۔ وزارت خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم نے کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان برف کسی حد تک پگھلی ہے۔ وزیراعظم نواز شریف نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ ہم بھارت کے ساتھ تعلقات کا نیا باب کھولنا چاہتے ہیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ پچھلے سال مذاکرات بھارت نے ختم کیے تھے۔ اس کے بعد ہمارا موقف یہ تھا کہ اب بات چیت کا دوبارہ آغاز بھی اس وقت ہوگا جب انڈیا درخواست کرے گا۔ پاکستان کا موقف اصولی طور پر صحیح تھا اور پھر ہم نے دیکھا کہ پہل انڈیا کو ہی کرنا پڑی اوراس کے لیے سارک کا بہانہ استعمال کرنا پڑا۔ بہانہ کا لفظ میں اس لیے استعمال کر رہا ہوں کہ انڈیا اس وقت سارک کانفرنس کا چیئرمین نہیں ہے۔ اس سال کے لیے چیئرمین نیپال ہے اور سارک کا ہیڈ کوارٹر بھی نیپال میں ہے۔ اگلی سارک سمٹ پاکستان میں ہوگی تو صدارت ہمارے پاس آ جائے گی۔ وزیراعظم نریندر مودی کی شخصیت بھارت کے پہلے لیڈروں سے خاصی مختلف ہے اور میں اس وقت پاکستان کے بارے میں سوچ کی بات کر رہا ہوں۔ اٹل بہاری واجپائی بہت نستعلیق انسان تھے۔ شاعری کرتے تھے‘ ان کی شدید خواہش تھی کہ پاکستان کے ساتھ قیام امن کا کریڈٹ تاریخ میں ان کے حصے میں آئے‘ مگر کارگل کے واقعے نے ان کی خواہش پر پانی پھیر دیا۔ فرزند پوٹھوہار ڈاکٹر من موہن سنگھ پڑھے لکھے انسان ہیں۔ اقتصادیات میں پی ایچ ڈی کی ڈگری رکھتے ہیں۔ وہ پاکستان آنے کی آرزو رکھتے تھے مگر بوجوہ نہ آ سکے۔ ایک تو سردار جی سیاسی طور پر کمزور تھے‘ انڈین اسٹیبلشمنٹ اور میڈیا کی بات انہیں سننا پڑتی تھی۔ سونیا گاندھی بھی ان پر حاوی تھیں۔ سونیا چونکہ غیر ملکی ہیں اس لیے وہ بھی محتاط طریقے سے چلتی تھیں۔
انڈین فارن سیکرٹری کا دورہ پیش قدمی ضرور ہے لیکن صرف ایک قدم۔ ابھی یہ سفر لمبا ہے اور دشوار گزار راستوں سے گزرے گا اور یہ بھی ذہن میں رہے کہ ممبئی کے واقعے کا مودی کے دماغ پر بڑا اثر ہے۔
اگر ہم اندرونی مشکلات پر قابو پالیں تو انڈیا ہمیں نظرانداز نہیں کرسکتا۔ ایک ابھرتا ہوا پاکستان انڈین برآمدات کے لیے خاص بڑی مارکیٹ ہوگا۔ سنٹرل ایشیا سے انڈیا کی تجارت کے لیے بہترین راستہ بھی پاکستان ہی ہے۔ شطرنج کی اس گیم میں ہمارے مہرے کمزور نہیں۔
اور اکیسویں صدی اپنے ساتھ نئے چیلنج لے کر آئی ہے۔ موسموں کی غیر یقینی صورت حال‘ سیلاب اور زلزلوں جیسی قدرتی آفات‘ دونوں ممالک میں پانی کی کمی‘ انرجی کی بڑھتی ہوئی طلب... ہوسکتا ہے کہ دونوں ملکوں کو ٹکرائو کی بجائے تعاون کی طرف راغب کرسکیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں