"JDC" (space) message & send to 7575

اکنامک ڈپلومیسی

یوں تو اکنامک ڈپلومیسی صدیوں پہلے شروع ہوئی جب قوموں میں تجارت کا آغاز ہوا تو تجارتی تنازعات کے حل اور تجارتی سرگرمیوں کو محفوظ بنانے کے لیے تجارتی سفارت کاری پروان چڑھی۔ بحری تجارت عام ہوئی تو بحری قزاقوں سے نبٹنے کے دو ہی طریقے تھے، طاقتور بحریہ اور سفارت کاری کا عمل۔ لیکن آج کے گلوبل ویلیج میں قوموں کے اقتصادی مفادات ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ پاکستان کی ہی مثال لیں؛ ہم عرصے سے ورلڈ بینک، آئی ایم ایف اور ترقی یافتہ ممالک سے مالی امداد اور قرضے لے رہے ہیں۔ ستر لاکھ پاکستانی ملک سے باہر کام کرتے ہیں اور زرمبادلہ بھیجتے ہیں ۔ ہماری درآمدات اور برآمدات کی ڈیوٹی کا تعین حکومت پاکستان تنہا نہیں کرتی، یہاں عالمی تجارت تنظیم (ڈبلیو ٹی او) کا بھی عمل دخل ہے۔ پھر بیرونی سرمایہ کاری کو راغب کرنا ہمہ وقتی کام ہے۔ تمام دنیا میں ریجنل اکنامک بلاک بن رہے ہیں۔
سفارت کاری کا عمل تیزی سے بدل رہا ہے۔ ایک زمانہ تھا جب سفیر کو پیغام پہنچانے میں ہفتے لگ جاتے تھے۔ اس زمانے میں لازم تھا کہ ارجنٹ قسم کے فیصلے سفیر خود کرے، لہٰذا سفیروں کا انتخاب بڑی احتیاط سے اور سوچ سمجھ کر ہوتا تھا۔ اکثر سفیر بادشاہ کے رشتہ دار یا دوست ہوتے تھے۔ آج سے چالیس پچاس سال پہلے کا زمانہ تو ہم میں سے کئی ایک نے دیکھا ہے۔ ٹی وی ریڈیو اور اخبار تو تھے لیکن انٹرنیٹ نہیں تھا، سیٹلائٹ ٹی وی چینل نہیں تھے۔ عالمی اطلاعات پر حکومتوں کا کنٹرول تھا۔ حساس خبریں دبا دی جاتی تھیں۔ مجھے یاد ہے کہ 1967ء میں عربوں کو اسرائیل سے شکست ہوئی تو حکومت پاکستان نے اپنے ذرائع ابلاغ کو چوبیس گھنٹے تک خاموش رکھا کیونکہ دوستوں کو شکست ہوئی تھی۔
اس زمانے میں سفرا کا بڑا کام سیاسی رپورٹیں لکھنا ہوتا تھا۔ اگر کوئی ارجنٹ یا اہم حساس قسم کی بات ہوتی تو اسے کوڈ کی زبان میں خفیہ طریقے سے کراچی اور پھر اسلام آباد بھیجا جاتا تھا۔ عام طور پر یہ رپورٹیں ایسے شروع ہوتی تھیں ''میرے یہاں کے اہم ارباب اختیار سے گہرے مراسم ہیں۔ آج ہی دوپہر کے کھانے پر مجھے فلاں شخصیت نے بہت ہی اہم معلومات دی ہیں‘ جنہیں میں فوری طور پر حکومت پاکستان تک پہنچا رہا ہوں۔ اس زمانے میں ٹائم، نیوزویک اور اکانومسٹ جیسے رسالے عام ہوئے۔ سفیر یہ رسالے اور اچھے اخبار باقاعدگی سے پڑھتے تھے اور وقتاً فوقتاً رسالوں کی معلومات بھی اپنی رپورٹوں میں شامل کر لیا کرتے تھے۔ اچھے پروفیشنل قسم کے سفیر رسالے کا حوالہ دے کر اپنی رائے الگ سے لکھتے تھے۔ ایک سفیر صاحب نے اہم خفیہ رپورٹ پاکستان بھیجی جس کے مخاطب فارن سیکرٹری تھے۔ رپورٹ میں کسی رسالے کا حوالہ نہ تھا۔ فارن سیکرٹری نے جواب دیا: آپ کا بہت بہت شکریہ! معلومات اعلیٰ پائے کی تھیں لیکن میں پہلے ہی ٹائم میگزین میں پڑھ چکا تھا۔
آج کے زمانے میں جب خبریں روشنی کی رفتار سے زیادہ تیزی سے گردش کرتی ہیں‘ سفیروں کا کام آسان بھی ہو گیا ہے اور مشکل بھی۔ آسان ایسے کہ اب ہر موضوع پر لکھنا ضروری نہیں‘ صرف وہ موضوع اہم ہیں جن کا پاکستان پر کوئی اثر ہو اور مشکل اس لیے کہ اب ہر اچھے سفیر کے لیے لازمی ہے کہ فرید زکریا اور اوون بینٹ جونز سے بہتر تجزیہ لکھے۔ ایسی عمدہ رپورٹیں لکھنے والے چند ایک سابق سفیر‘ ان دنوں پاکستانی اخبارات میں خوب اچھے کالم لکھ رہے ہیں۔
آج کے بدلتے ہوئے تناظر میں سفرا کا اکنامک ڈپلومیسی میں رول بڑھ گیا ہے۔ سیاسی رپورٹیں لکھنے کا زمانہ لد گیا۔ اب سب سے اہم کام اپنے ملک کے معاشی مفادات کا دفاع ہے۔ برآمدات کا فروغ ایک اہم ہدف ہے‘ اب سفیروں کی کارکردگی جانچنے کے لیے یہ معلوم کرنا ضروری ہے کہ کون سا سفیر کتنی سرمایہ کاری پاکستان لایا ہے۔ کیا اس نے اپنے میزبان ملک کا کمرشل سروے کرایا ہے‘ کیا برآمداتِ پاکستان کے فروغ کے لیے اس کے ذہن میں واضح پلان ہے؟
اور اب دیکھنا یہ ہے کہ اختصاص یعنی Specialization کے اس دور میں پاکستان اکنامک ڈپلومیسی کے حوالے سے کہاں کھڑا ہے۔ عرصہ ہوا پاکستان میں کامرس اور ٹریڈ گروپ تشکیل دیا گیا۔ مقصد یہ تھا کہ یہ افسر تجارتی امور پر عبور حاصل کریں۔ پاکستان کے اندر اور سفارت خانوں میں ملک کے معاشی مفادات کا تحفظ کریں۔ لیکن ہمارے ارباب اختیار نے اس سکیم کا بھی بیڑہ غرق کر دیا۔ وہ میرٹ پر لوگوں کو باہر بھیجنے کی بجائے اپنے عزیزوں اور چہیتوں کو ہی نوازتے رہے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے اپنے داماد کو ورلڈ بینک بھجوا دیا تھا۔ اسی طرح 2013ء میں اپنے اقتدار کے ختم ہونے سے صرف ایک ماہ قبل پیپلز پارٹی نے 41 افسروںکو تجارتی عہدوں پر باہر سفارت خانوں میں متعین کیا۔ ان میں کامرس اور ٹریڈ کے صرف چھ افسر تھے۔ چھ افسر ڈی ایم جی کے تھے۔
اب ایک ڈپٹی کمشنر بہت لائق فائق بھی ہو مگر اُس کا تجارت سے کیا تعلق۔ اُسے باہر کے ممالک کی زبانیں نہیں آتیں۔ باہر جاتے ہیں تو سال دو سال آرام سے اپنا کام سمجھنے میں لگا دیتے ہیں۔ جب کام پر عبور حاصل کر لیتے ہیں تو واپس آنے کا وقت ہو جاتا ہے۔ لیکن ہمارے فیوڈل مائنڈ سیٹ کو ابھی تک میرٹ کی اہمیت کا ادراک نہیں کہ ایسے لوگوں کو فائدہ پہنچانا ضروری ہے جو آپ کی جی حضوری کر چکے ہوں‘ یا آئندہ کام آ سکیں‘ رہے ملکی مفادات تو ان کی کسے پروا ہے؟ 
آج کی دنیا میں صحیح انفارمیشن حاصل کرنا اور جلد حاصل کرنا ضروری ہے۔ غالباً2002ء کی بات ہے غیر جانبدار ملکوں کی سربراہ کانفرنس میں جنرل پرویز مشرف اور ملائیشیا کے وزیر اعظم مہاتیر محمد کی ملاقات ہوئی۔ ملائیشیا بیرونی سرمایہ کاری کی وجہ سے معاشی ترقی میں پاکستان سے بہت آگے جا چکا تھا۔ جنرل صاحب نے مہاتیر محمد سے پوچھا کہ آپ کے ملک کی تیز ترقی کا کیا راز ہے؟ جواب ملا کہ ملائیشیا میں غیر ملکی سرمایہ محفوظ ہے اور منافع باہر بھیجنے پر کوئی پابندی نہیں۔ جنرل صاحب بولے کہ اگر اسی قسم کی ضمانت ہم بیرونی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں دیں تو ہم بھی آپ کی طرح ترقی کرسکتے ہیں؟ مہاتیر صاحب بولے، جنرل صاحب! اب بس گزر چکی ہے، ہر چیز کا ایک مناسب وقت ہوتا ہے۔ یاد رہے کہ 1990ء کا عشرہ پاکستا ن میں دو بڑی سیاسی جماعتوں میں سرد جنگ کا زمانہ تھا۔ ہم آپس میں خوب لڑ رہے تھے اور افغانستان میں طالبان حکومت سے دوستی کی غلط پالیسی اپنا کر اپنا انٹرنیشنل امیج خراب کر رہے تھے۔
معاشی اور سیاسی طور پر صحیح مشورہ حاصل کرنے کے لیے آج کی دنیا کی بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیاں‘ مشہور انفارمیشن کمپنیوں کے پاس جاتی ہیں۔ انفارمیشن ہینڈلنگ سروسز (IHS)ایسی ہی ایک معروف کمپنی ہے جو سرمایہ کاری کے حوالے سے مفید مشورے دیتی ہے۔ بین الاقوامی فرمیں سرمایہ کاری سے پہلے اس جیسی کمپنیوں سے بھاری فیسیں دے کر پوچھتی ہیںکہ فلاں ملک کے حالات سرمایہ کاری کے حوالے سے کیسے ہیں۔
ہالینڈ میں پاکستان کے ناظم الامور شعیب سرور نے پچھلے دنوں آئی ایچ ایس لندن کے ساتھ مل کر ہیگ میں پاکستان کے بارے میں سیمینار کرایا۔ جب میں فارن آفس میں ایڈیشنل سیکرٹری تھا تو شعیب نیا نیا فارن سروس میں آیا تھا، بعد میں اس نے چھٹی لے کر نیویارک کی مشہور یونیورسٹی سے ایم بی اے کیا۔ اس سیمینار میں آئی ایچ ایس سے متعلق عمر حامد نے پاکستان کے بارے میں رپورٹ پیش کی جو کہ بہت ہی مثبت تھی۔ سیمینار میں ملٹی نیشنل کمپنیوں کے نمائندے بینکار اور سفارت کار موجود تھے۔ ان کے لیے یہ امر خوشگوار حیرت کا باعث تھا کہ آئی ایچ ایس جیسی ساکھ والی کمپنی لوگوں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کا مشورہ ٹھوک بجا کے دے رہی ہے۔ استدال یہ تھا کہ پاکستان کے اقتصادی اشاریے (Indicators) بہتر ہو رہے ہیں۔ چینی سرمایہ کاری آ رہی ہے؛ لہٰذا 19کروڑ آبادی کے اس اہم ملک میں سرمایہ کاری کا وقت اب ہے، کل کو دیر ہو جائے گی۔ شعیب سرور نے خود پاکستان چائنا راہداری کے حوالے سے مفصل بریفنگ دی۔ پورے سیمینار کا خرچ حبیب بینک نے سپانسر اور برداشت کیا۔ حکومت پاکستان کا ایک روپیہ بھی خرچ نہیں ہوا۔ ایسے سیمینار ہمیں پوری دنیا میں کرنے کی اشد ضرورت ہے خاص طور پر لندن، نیو یارک، ہانگ کانگ، سنگا پور اور دبئی میں۔ اکنامک سفارت کاری کے حوالے سے شعیب سرور نے شاندار مثال قائم کی ہے۔ کاش باقی مشن بھی اپنا اپنا حصہ ڈالیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں