"JDC" (space) message & send to 7575

ڈاکوئوں کا تعاقب

شہرکی ہر واردات سے خبر کا پہلو نکالا جا سکتا ہے‘ اصلاح احوال کا سوچا جا سکتا ہے‘ بشرطیکہ ایسا کرنے کا قوی ارادہ ہو۔ 19 مئی 2010ء کو اسلام آباد میں میرے گھر میں ڈاکہ پڑا۔ میں نے سالوں تک اس کالم میں اس خوفناک واردات کا ذکر نہیں کیا اس لیے کہ یہ کالم میرے ذاتی مسائل کے حل کے لیے نہیں ہے۔ البتہ ماجد رمضان کے گھر 2014ء میں اسلام آباد ہی میں ڈاکہ پڑا تو رئوف کلاسرا نے اپنے منفرد انداز میں کالم لکھا ۔میں نے سوچا کہ یہ مسئلہ اب ذاتی نہیں رہا بلکہ اجتماعی بن گیا ہے ‘ لہٰذا جنوری 2014ء کو میں نے اپنے گھر پر ڈاکے کا احوال اسی کالم میں تفصیل سے لکھ دیا۔ درجنوں فون اور ای میل آئے ‘ زیادہ لوگ ایسے تھے جو خود ایسے ہی سانحے سے گزر چکے تھے اور اب تو سابق چیئرمین سینیٹ وسیم سجاد بھی ہمارے کلب میں شامل ہو چکے ہیں۔ اگر ملک میں امن و امان کی یہی صورتحال رہی تو کیا کوئی خاک ہمارے ہاں سرمایہ کاری کرنے آئے گا۔
چھ سال گزرنے کے بعد مجھے یقین ہو چلا ہے کہ اصلاحِ احوال ہمارے لیڈروں کے ایجنڈے میں شامل نہیں ۔اپنے اثاثے انہوں نے ان ملکوں میں رکھے ہوئے ہیں جہاں ڈاکے نہیں پڑتے۔ ان کے اردگرد درجنوں محافظ ہیں ‘البتہ عوام کا اللہ ہی حافظ ہے۔ میں چار مختلف ممالک میں پاکستان کا سفیر رہا۔ دفتر اور گھر پر سکیورٹی اپنی حکومت نے اور میزبان حکومتوں نے فراہم کی۔ عوامی زندگی کا تجربہ ریٹائرمنٹ کے بعد ہوا اور یہ ایک تلخ تجربہ تھا لیکن اس سے زیادہ افسوسناک یہ حقیقت ہے کہ ہمارے کرپٹ نظام کو اصلاح احوال کی کوئی فکر نہیں۔ کراچی ہو یا اسلام آباد ‘ ہماری پولیس کرپٹ بھی ہے اور کمزور بھی۔ چیف جسٹس کا بیان کہ تھانے کروڑوں میں بکتے ہیں،میرے اس تاثر کو مزید توانا کر رہا ہے۔
19 مئی 2010ء کو میرے گھر پر بے شمار دوست ‘ہمدرد اور پڑوسی آئے۔ ریٹائرڈ آئی جی اور فیڈرل سیکرٹری ملک نذیر صاحب اپنی بیگم کے ہمراہ آئے کہ وہ میری بیوی کو عرصہ سے جانتی ہیں۔ میرے ہمدرد دوست ریاض الحق سی ایس پی آئے اور ساتھ وظائف کی کتاب لے کر آئے۔ ملک نذیر صاحب اور ان کی بیگم سارا دن ہمارے گھر رہے‘ ڈھارس بندھاتے رہے اور تمام اہم پولیس افسران کو فون کر کے اس واردات کی تفاصیل بتاتے رہے۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد اس بات کا تکرار کرتے کہ جاوید حفیظ تمہارا کمایا ہوا رزقِ حلال ڈاکو ہضم نہیں کر پائیں گے۔ جاتے ہوئے تاکید کر گئے کہ تم نے آئی جی پولیس اسلام آباد کو آج ہی ملنا ہے‘ میری بات ہو گئی ہے وہ تمہیں ضرور ملے گا ‘خواہ دفتری اوقات ختم ہو چکے ہوں۔ شام کو میں آئی جی اسلام آباد کلیم امام کے دفتر میں تھا۔ کلیم امام صاحب خوش اخلاق اور مستعد افسر ہیں۔ ان کے والد ایک زمانے میں فارن آفس میں ہوتے تھے۔ اس تعلق کا کلیم صاحب نے مکمل پاس کیا۔ فوری حکم دیا کہ ہمارے سیکٹر میں پولیس گشت بڑھایا جائے۔ ایس ایس پی طاہر عالم خان سے کہا کہ آپ جائے واردات کو جا کر خود دیکھیں ‘چنانچہ طاہر عالم خان اور ڈی ایس پی جمیل ہاشمی ہمارے گھر آئے۔ اگلے ہی روز میں ایک اور نیک نام اور پروفیشنل پولیس افسر جاوید نور کے دفتر میں تھا جو اس وقت ایک حساس ادارے کے ہیڈ تھے۔ جاوید نور کو میں چالیس سال سے جانتا تھا۔ اللہ ان کو غریق رحمت کرے، ریٹائرمنٹ کے جلد ہی بعد ان کا انتقال ہو گیا ‘جاوید نور اس بات سے خوش تھے کہ ڈاکو ہمارے موبائل فون بھی لے گئے ہیں ۔کہنے لگے ہماری ایجنسی کے پاس ایسی ٹیکنالوجی ہے کہ ہم اس گینگ کو ٹریس کر لیں گے۔
وقوعہ کے تقریباً دس دن بعد ہمارا ایک فون اسلام آباد کے مضافاتی قصبے بارہ کوہ میں استعمال ہوا۔ گولڑہ پولیس وہاں پہنچ گئی۔ فون استعمال کرنے والی خاتون کا نام شاہین بی بی تھا ۔اس کا مستقل پتہ شناختی کارڈ پر اٹھمقام آزاد کشمیر لکھا ہوا تھا۔ فون کال میں استعمال ہونے والی سم ظفیر احمد ولد مجنوں کی تھی جو شاہین بی بی کا بھائی ہے اور اٹھمقام آزاد کشمیر میں آج بھی رہتا ہے۔ ان تمام معلومات کا فائدہ یہ ہوا کہ کیس کی تفتیش صحیح سمت چلنے لگی۔ اس گینگ سے اسلام آباد کی پولیس عرصے سے واقف تھی ۔یہ لوگ راولپنڈی اسلام آباد سے لے کر کراچی تک درجنوں وارداتیں کر چکے تھے۔ فیڈرل حکومت کے ایک افسر کے قتل میں بھی موردالزام تھے۔
ہمارے مشاہدے کے مطابق چاروں ڈاکو چاق و چوبند نوجوان تھے۔ جسمانی طور پر بہت مضبوط اور ذہنی طور پر بے حد سمارٹ۔ اس گینگ کا سرغنہ نصیر ولد مجنوں اٹھمقام میں ایک پہاڑ کی چوٹی پر رہتا ہے ‘اس کا اپنا ٹرانسپورٹ کا بزنس ہے۔ جرائم کی بدولت وہ اپنے خاندان کا آسودہ حال آدمی ہے ‘باقی خاندان غریب ہے۔ نصیر ولد مجنوں کا گینگ ‘سنا ہے کہ دو درجن کے قریب خطرناک ڈاکوئوں اور قاتلوں پر مشتمل ہے جو کہ چار پانچ کی ٹکڑیوں میں بٹ کر پورے ملک میں وارداتیں کرتے ہیں۔
تھانہ گولڑہ شریف میں کیس کی تفتیش اے ایس آئی اسلم کے پاس تھی۔ اسلم کئی مرتبہ اسی سلسلہ میں ہمارے گھر آیا۔ میرے مشاہدے کے مطابق اسلم کے دائیں پائوں میں کچھ نقص ہے اور وہ تھوڑا لنگڑا کے چلتا ہے ۔وقوعہ کے وقت اسلم کی عمر کوئی پچاس برس ہو گی جبکہ چاروں ڈاکو اسلم سے آدھی عمر کے ہونگے۔ وہ اتنے پُھرتیلے تھے کہ وقوعہ کی رات وہ ہمیں انسان نہیں بلکہ چھلاوے لگے۔ اے ایس آئی اسلم دو مرتبہ ڈاکوئوں کو پکڑنے اٹھمقام آزاد کشمیر گیا اور نامراد واپس لوٹا۔ اب مجھے یقین ہو چلا ہے کہ اسلام آباد پولیس کے پاس ایسے خطرناک مجرموں کو پکڑنے کی صلاحیت نہیں۔ ظفیر احمد جس کی فون سم شاہین بی بی نے استعمال کی تھی ‘آزاد کشمیر ہی میں جزوقتی ایک مجاہد بٹالین میں ملازم تھا۔ پاک فوج نے میری درخواست پر اسے اسلام آباد پولیس کے حوالے کیا ‘میں اور میری بیوی اسے دیکھنے پولیس سٹیشن گئے مگر وہ اصل ڈاکو نہ تھا۔ وہ گینگ کے سرغنہ نصیر ولد مجنوں کا بھائی ضرور ہے لیکن وقوعہ کی رات ڈیوٹی پر تھا اور ہم اسے یقین سے پہچان بھی نہ سکے۔ بہرکیف اس سلسلہ میں پاک فوج کا تعاون قابل ستائش تھا۔
2011ء میں آئی جی کلیم امام کی ٹرانسفر ہو گئی۔ اب اسلام آباد پولیس کی دلچسپی واضح طور پر کم ہونے لگی۔ 2014ء میں میرا کالم لکھنے کا مقصد بھی یہی تھا کہ اس قصہ پارینہ کو طاق نسیاں سے نکالا جائے ۔پچھلے سال ایک محفل میں پولیس کے کئی سینئر ریٹائرڈ افسروں سے ملاقات ہوئی ‘سب نے کیس کے بارے میں استفسار کیا۔ ملک نذیر صاحب گویا ہوئے کہ ملک خدا بخش آج کل آئی جی آزاد کشمیر ہے ‘اچھی شہرت کا مالک ہے ‘اُسے خط لکھو۔ میرے اکیڈمی کے دوست فرید نواز نے اس تجویز کی تائید کی؛ چنانچہ میں نے آئی جی صاحب کو خط لکھنے کی بجائے روزنامہ دنیا کا اپنا ہی کالم مع ایف آئی آر بھیج دیا۔ 
آزاد کشمیر پولیس نے کمال مستعدی سے ہمارے ہی کیس کے ایک ڈاکو محمد بشیر ولد محمد اکبر کا سراغ لگا لیا۔ نصیر ولد مجنوں کی طرح یہ بھی اسلام آباد پولیس کا اشتہاری ہے ‘پھر آزاد کشمیر پولیس نے نہایت فیاضی سے گرفتاری کا تمام کریڈٹ اسلام آباد پولیس کی جھولی میں ڈال دیا ۔2 جولائی 2015ء کو مجھے تھانہ گولڑہ سے ایس ایچ او تنویر عباسی کا فون آیا کہ کل اڈیالہ جیل میں محمد بشیر کی شناخت پریڈ ہے‘ آپ دونوں میاں بیوی آ جائیں۔ اگلے روز ہم اڈیالہ جیل گئے۔ رمضان شریف کے دن تھے ‘ہم دونوں روزے سے تھے‘ سورج نصف النہار پر تھا ‘سخت گرمی اور حبس تھا۔ یہاں ہماری ملاقات اسلام آباد پولیس کے انسپکٹر یاسین بھٹہ سے ہوئی جس کی ڈیوٹی ہمیں جیل کے اندر لے کر جانا تھا۔ پارکنگ سے جیل کا دروازہ کوئی دس پندرہ منٹ کے پیدل فاصلے پر ہے ‘ ہم روزے کے باوجود نارمل سپیڈ پر چل رہے تھے کہ سالوں سے واک کر رہے ہیں۔ ذرا آگے گئے تو یاسین بھٹہ ملتمس ہوا کہ سر ذرا آہستہ چلیں ‘ میں شوگر کا مریض ہوں ‘تیز نہیں چل سکتا۔ میں نے اور میری بیوی نے علیحدہ علیحدہ محمد بشیر کو شناخت کر لیا۔ شناخت پریڈ کی نگرانی آنسہ نشا اشتیاق اسسٹنٹ کمشنر نے کی ‘بہت بااخلاق خاتون ہیں۔ بعد میں پتہ چلا کہ یہ ہمارے ہی سیکٹر کے چودھری ہمایوں اختر کے بیٹے صدیق کی منگیتر ہیں۔ صدیق پچھلے ہی سال امریکہ سے صحافت کی ڈگری لے کر آیا ہے ۔
آخری خبر یہ ملی ہے کہ اسلام آباد کی ایک عدالت نے محمد بشیر کو ضمانت پر رہا کر دیا ہے۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ جب ظالم ڈاکو کی ضمانت ہو رہی تھی تو مظلوم یعنی مجھے اور میری فیملی کو اطلاع تک نہ تھی۔ کیا شوگر زدہ اور لنگڑاتی ہوئی اسلام آباد پولیس خطرناک‘ چاق و چوبند ڈاکوئوں کو پکڑ سکتی ہے اور پکڑے جانے کے بعد بھی اگر ڈاکوئوں کی ضمانت ہو جائے تو کیا یہ مطالبہ جائز نہ ہو گا کہ نصیر ولد مجنوں اور اس کے گینگ پر فوجی عدالت میں مقدمہ چلے کہ گزشتہ دس سال سے انہوں نے اسلام آباد سے لے کر کراچی تک شرفا کا جینا حرام کیا ہوا ہے۔ شہر کی ہر واردات سے خبر کا پہلو نکالا جا سکتا ہے بشرطیکہ ایسا کرنے کا قوی ارادہ ہو۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں