"JDC" (space) message & send to 7575

تُرکی کو نظر بد لگ گئی

استنبول کے گرینڈ بازار میں جائیں تو آپ کو کئی دکانوں پر چشم حاسد یعنی evil eye نظر آئے گی۔ آپ اس کے ظاہری معنوں پر نہ جائیں، یہ دراصل نظر بد کو دور کرنے کا ٹوٹکا ہے۔ لوگ اسے اپنے گھروں میں لگاتے ہیں۔ صرف ایک آنکھ شیشے یا پتھر پر بنائی جاتی ہے۔ پھر اسے تسبیح نما لڑی سے پرو دیا جاتا ہے۔ گھر یا دکان یا آفس جس جگہ کو بھی آپ چشم حاسد سے بچانا چاہتے ہیں وہاں یہ آنکھ آویزاں کر سکتے ہیں۔ حالانکہ میں ایسی باتوں پر یقین نہیں رکھتا لیکن استنبول سے خریدی ہوئی ایک آنکھ میرے گھر میں آج بھی آویزاں ہے اور میرے نزدیک یہ استنبول کی یاد کی علامت ہے۔ لیکن چشم حاسد پر یقین رکھنے والے ترک برادران آج کل اپنے اس وہم کی زد میں ضرور ہیں۔ پچھلے عشرے میں ترکی نے شاندار ترقی کی مگر حالیہ واقعات نے ترقی پر بریک لگا دی ہے۔
پہلی جنگ عظیم کے بعد جدید ترکی مصطفی کمال کی اعلیٰ قیادت کی بدولت ابھرا۔ مصطفی کمال کا خیال تھا کہ سلطنت عثمانیہ کی رجعت پسندی ترکی کے زوال کا سبب بنی، وہ ملائیت کے شدید مخالف تھے اور ترکی کو ایک ماڈرن ملک کے طور پر دیکھنا چاہتے تھے۔ مصطفی کمال نے مغربی لباس اور اطوار کی حمایت کی۔ وہ خواتین کے پردے کے خلاف تھے لیکن مسلمانوں کے دیس میں پردے کے خلاف قانون بنانا بے حد دشوار تھا۔ مصطفی کمال کے ذہین دماغ میں ایک نادر خیال آیا۔ حکم جاری کیا کہ طوائفوں کے لیے برقعہ پہننا لازم ہو گا۔ اس حکم کی وجہ سے تمام شریف زادیوں نے برقعہ اتار دیا۔
میں 1993ء میں انقرہ گیا تو مصطفی کمال کے مرقد پر بھی حاضری دی۔ وہاں پتا چلا کہ ہاتھ اٹھا کر فاتحہ پڑھنے سے اجتناب بہتر ہو گا۔ ترک فوج کمالسٹ خیالات کی امین رہی ہے۔ سیکولر آئیڈیاز جدید ترکی کی بنیادوں میں شامل ہوئے۔ طیب اردوان جب استنبول کے میئر تھے تو ان کی بیٹی کو یونیورسٹی میں داخلہ نہ مل سکا کیونکہ وہ سر کو ڈھانپتی تھیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اردوان کی صاحبزادی کو اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکہ جانا پڑا۔ 2003ء میں اقتدار میں آنے کے بعد اردوان نے ٹرکش سوسائٹی میں توازن بحال کرنا شروع کیا۔ لیکن ان کا اب بھی خیال ہے کہ افراد کو دینی مناسک ادا کرنے کی مکمل آزادی ہونی چاہیے لیکن ریاست کو سیکولر ہونا چاہیے۔ ترکی نے مغربی قوم بننے کی بھر پور کوشش کی لیکن اقوام مغرب نے اُسے یورپین یونین کا ممبر بنانے سے احتراز کیا۔ اردوان اور ان کی جسٹس اینڈ ڈیوپلمنٹ پارٹی میں یورپ کی اس امتیازی پالیسی کا ردعمل نظر آتا ہے۔
طیب رجب اردوان کے تیرہ سالوں میں ترکی کی اقتصادی حالت بہتر ہوئی ہے۔ عمومی طور پر سالانہ شرح ترقی پانچ فیصد سے اوپر رہی۔ 2010ء میں ترکی میں اقتصادی ترقی کی شرح 9.2 فیصد ریکارڈ کی گئی جو اُس سال کی چین کی ترقی کی شرح سے زیادہ تھی۔ ترکی کا انفراسٹرکچر عالمی لیول کا ہے۔ 2012 ء میں ساڑھے تین کروڑ سے زیادہ سیاح ترکی آئے۔ ترکی کی تعمیراتی کمپنیاں اور اعلیٰ تعلیم کے ادارے دنیا میں مشہور ہیں۔ ہم سے لاہور کا کچرا نہ اٹھایا گیا تو ترکی کی ایک کمپنی کو ٹھیکہ دیا گیا۔ ٹرکش کرنسی کو لیرا کہا جاتا ہے۔ 2006ء میں ایک امریکن ڈالر چھ لیرا کے برابر تھا اور 2016ء میں ایک ڈالر کے صرف تین لیرے ملنے لگے، گویا ٹرکش کرنسی کی قدر دوگنا ہو گئی۔ اقتصادی کامیابی نے اردوان کا سیاسی قد بلند کیا۔ ترکی ایک اہم ریجنل پاور کے طور پر ابھرا۔
لیکن یہ کہنا بھی غلط ہو گا کہ حکومت کی تمام پالیسیاں پاپولر تھیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ مسلسل کامیابیوں سے اردوان میں ایک قسم کا تکبّر آیا۔ 2014ء میں وہ وزیر اعظم سے صدر بنے اور اپنے نئے عہدے کو مضبوط بنانے کی کوششوں میں جُت گئے۔ فوج اور سویلین قیادت میں تنائو کی کیفیت پیدا ہوئی۔ ترکی میں فوجی مداخلت کی روایت رہی ہے اور 1960ء میں تو انقرہ میں ملٹری اکیڈیمی کے کیڈٹ فوجی انقلاب لانا چاہتے تھے جو ناکام ہوا۔ مگر عدنان مندریس کی حکومت کو بھی اقتدار چھوڑنا پڑا۔ صدر کے عہدے کو پاور فل بنانے کی وجہ سے ہی اردوان کے وزیر اعظم احمد دائود اوگلو سے اختلافات ہوئے اور پھر اردوان نے انقرہ میں وہ صدارتی محل بنوایا جس کے ایک ہزار سے زیادہ کمرے ہیں۔ ہمسایہ ملک شام میں پراکسی وار کا حصّہ بن گئے اور پھر وہی ہوا جس کا اندیشہ تھا۔ بے شمار شامی مہاجرین نے ترکی میں پناہ لی اور دہشت گردی کے واقعات بڑھنے لگے۔
16جولائی کو پی ٹی وی نے ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کے بارے میں متعدد پروگرام کئے۔ میں بھی ایک پروگرام میں شریک تھا۔ اینکر کا سوال تھا کہ سُنا جا رہا ہے مغربی طاقتوں نے ترکی میں بغاوت کروائی ہے کیونکہ وہاں کی اسلام پسند حکومت انہیں ہضم نہیں ہو رہی تھی۔ میرا جواب یہ تھا کہ اغیار ماچس کی تیلی اس گھر میں پھینکتے ہیں جہاں شعلے بھڑکنے کے امکانات موجود ہوں، لہٰذا ہمیں ترکی کی صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے داخلی اسباب کو بھی مدنظر رکھنا ہو گا۔
امریکہ اور یورپ کے لیے ترکی کئی اعتبار سے بے حد اہم ہے۔ پہلی اہمیت تو اس کے محل وقوع کی ہے، ترکی ایشیا اور یورپ کے سنگم پر واقع ہے۔ داعش پر فضائی حملوں کے لیے امریکی طیارے ترکی سے پرواز کرتے ہیں۔ دوسری اہمیت یہ ہے کہ ترکی نیٹو کا اہم رکن ہے اور اگر ترکی نے احتیاطی تدابیر نہ کی ہوتیں تو یورپ میں شامی مہاجرین کا سیلاب آ جاتا۔ یورپی ممالک نے ترکی میں اچھی خاصی سرمایہ کاری کی ہوئی ہے، ان میں سے جرمنی سرفہرست ہے۔ بغاوت کی مذمت کرنے والوں میں صدر اوباما اور نیٹو کے سیکرٹری جنرل پیش پیش تھے۔
ترکی حکومت اور متعدد شہریوں کا بھی خیال ہے کہ امریکہ بغاوت میں ملوث تھا۔ اس رائے کے حق میں ایک استدال یہ ہے کہ حکومت مخالف لیڈر فتح اللہ گولن سولہ سال سے امریکہ میں پناہ لیے ہوئے ہے، لیکن یہ بھی پیش نظر رہے کہ گولن خود اسلامی سکالر ہے۔ اگلے روز میرے ایک دوست کہہ رہے تھے کہ گولن ترکی کا طاہر القادری ہے۔ میرے لیے یہ بات سمجھنا خاصا مشکل ہے کہ ایک شخص جو ہزاروں میل دوربیٹھا ہوا ہے وہ کتنا ہی پاپولر کیوں نہ ہو ترکی کی حکومت اور سوسائٹی میں اتنا بڑا زلزلہ کیسے لا سکتا ہے۔ استنبول کی ایک عدالت نے گولن کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کر دیے ہیں۔ امریکہ کے خلاف ترکی میں نفرت بڑھی ہے اور ترکی روس تعلقات میں یکایک گرم جوشی آئی ہے۔
ترکی میں فوجی بغاوت کی ناکامی سے ہماری حکومت بہت خوش نظر آئی اور اس انبساط و مسرت کو سمجھنا مشکل نہیں۔ لیکن دونوں ممالک کی صورت حال بہت مختلف ہے۔ نواز شریف کے تینوں ادوار میں اقتصادی شرح ترقی کبھی پانچ فیصد سے اوپر نہیں رہی جبکہ صدر طیب اردوان کے دور حکومت میں ترکی نے بہت معاشی ترکی کی ہے۔ پہلے دس سال کوئی شخص اردوان کی ایمانداری پر انگلی نہیں اٹھا سکا۔ جبکہ میاں نواز شریف پر 1993ء میں کرپشن کے الزامات لگے اور1998 ء میں لندن کی جائیداد کا چرچا ہوا۔ پچھلے ہفتے اردوان نے جمہوریت کی فتح منانے کے لیے تمام پارٹیوں اور عوام کو استنبول میں ریلی نکالنے کا کہا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق بیس لاکھ لوگوں کا سیلاب سڑکوں پر امڈ آیا۔ 1999ء میں پاکستان میں نواز لیگ حکومت کا تختہ الٹا تو ہمارے شہروں میں مٹھائیاں بانٹی گئیں۔
لیکن اگر کہا جائے کہ ترکی میں سب ٹھیک ہے تو یہ بات بھی غلط ہو گی۔ وہاں تین سو سے زائد لوگ مارے گئے، ہزاروں قید ہوئے اور ہزاروں سول اور فوجی اہلکار نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ فوجی بغاوت نے ترک حکومت اور سوسائٹی کو ہلا کررکھ دیا ہے اور اس زلزلے کے جھٹکے پاکستان اور دوسرے ممالک تک گئے ہیں جہاں پاک ترک سکولوں کے پرنسپل فارغ کر دیئے گئے ہیں۔ اللہ اس برادر ملک کو نظر بد سے بچائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں