"JDC" (space) message & send to 7575

مجھے کیوں نکالا؟

مجھے کیوں نکالا؟ کا فقرہ سپریم کورٹ کی جانب سے نااہل قرار دیئے گئے وزیراعظم کے حوالے سے بڑا مشہور ہوا ہے۔ اس ایک جملے پر سوشل میڈیا میں بہت کچھ کہا گیا ہے ایک دلچسپ پنجابی نظم اسی عنوان سے بیحد مقبول ہوئی ہے ‘ سابق وزیراعظم کا یہ سوال قانونی لحاظ سے تو برمحل نہیں کیونکہ عدالتِ عظمیٰ کے پانچ فاضل ججوں نے نااہلی کی وجہ صاف صاف بیان کر دی ہے۔ لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ وزیراعظم ‘ ان کی صاحبزادی اور حواری اس قانونی فیصلے کو سیاسی رنگ دینے پر تُلے ہوئے ہیں۔ چند روز پہلے مجھے یونہی خیال آیا کہ مجھے کیوں نکالا والا سوال کچھ اور لوگ الٹا میاں نوازشریف سے پوچھ سکتے ہیں۔
آئیے آپ کو 1993ء کے اہم سال میں لئے چلتے ہیں ‘صدر غلام اسحاق خان نے آئین کے آرٹیکل 58(2)B کا استعمال کرتے ہوئے میاں صاحب کی حکومت کو برطرف کر دیا۔ اُن پر الزام کرپشن کا لگا۔ غلام اسحاق خان مرحوم کا اپنا طویل کیرئیر بہت صاف ستھرا تھا۔ آپ کو یاد ہو گا کہ لاہور‘ اسلام آباد موٹروے تب بننا شروع ہوگئی تھی اور غالباً لندن والے اپارٹمنٹ بھی اسی سال خریدے گئے تھے لیکن صدر کی طرف سے عائد کئے گئے الزامات میں یہ ساری تفاصیل نہیں تھیں ‘برطرف وزیراعظم نے یہ فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا۔ سپریم کورٹ کے گیارہ رکنی فل بنچ نے کیس سُنا ‘ دس فاضل ججوں نے فیصلہ دیا کہ حکومت کو بحال کیا جائے۔ صرف ایک اختلافی نوٹ تھا اور وہ جسٹس سجاد علی شاہ کا تھا۔
1997ء میں میاں نوازشریف کا دوسرا دورِ حکومت تھا اور وہ ہیوی مینڈیٹ لے کر آئے تھے ‘جسٹس سجاد علی شاہ چیف جسٹس آف پاکستان بن چکے تھے۔ حکومت کے خلاف توہین عدالت کا کیس زیرسماعت تھا۔ آپ کو یاد ہو گا کہ وزیراعظم نوازشریف بنفس نفیس عدالت کے سامنے ایک مرتبہ پیش ہوئے تھے مقصد یہ ظاہر کرنا تھا کہ ہم عدالتوں کا بڑا احترام کرتے ہیں۔ عدالت عظمیٰ کچھ مشکل سوال کر رہی تھی۔ ایک روز جب جناب ایس ایم ظفر دلائل دے رہے تھے کہ عدالت پر حملہ کر دیا گیا۔ حملہ کرنے والوں میں وزیراعظم کے پولیٹیکل سیکریٹری اور ایک ایم این اے پیش پیش تھے۔ فاضل جج صاحبان نے بھاگ کر اپنی جانیں بچائیں ‘یہ دن پاکستان کی تاریخ کے سیاہ ترین ایام میں اپنی جگہ بنا چکا ہے۔
بقول گوہر ایوب خان وزیراعظم نے اُن سے پوچھا کہ رولز کے مطابق چیف جسٹس کو پارلیمنٹ کی استحقاق کمیٹی کے روبرو بلایا جا سکتا ہے یا نہیں ؟گوہر صاحب نے جواب دیا کہ ایسا ممکن نہیں۔ رولز اس بات کی اجازت نہیں دیتے وہ یہ رائے سابق سپیکر نیشنل اسمبلی کی حیثیت سے دے رہے تھے‘ پھر وزیراعظم نے ایک نہایت ہی دلچسپ رائے مانگی اور وہ یہ تھی کہ گوہر صاحب کوئی ایسا طریقہ بتائیے کہ ہم چیف جسٹس کو ایک رات کے لیے جیل بھیج سکیں۔ گوہر ایوب خان نے پھر جواب دیا کہ ایسا بھی ممکن نہیں اور پھر عدلیہ کو منقسم کر کے جسٹس سجاد علی شاہ کو نکالنے کا بندوبست کیا گیا۔ جسٹس شاہ آج حیات ہوتے تو میاں صاحب سے پوچھ سکتے تھے کہ مجھے آپ نے کیوں نکالا تھا۔
1997ء میں وزیراعظم نے دو معرکوں میں فتح حاصل کی۔ پارلیمنٹ سے آئین میں ترمیم کرا کے آرٹیکل 58(2)B کو ختم کرایا اور پھر صدر فاروق لغاری کو چوٹی زیریں جا کر ''حکم‘‘ دیا کہ آئینی ترمیم پر دستخط کر دیں۔ صدر لغاری نے دستخط تو کر دیئے مگر لگتا ہے کہ یہ عمل ان کے ضمیر پر بوجھ کی صورت میں قائم رہا کہ آئین میں چپک اینڈ بیلنس ختم ہو گیا تھا۔ انہیں معلوم تھا کہ ہمارے ملک میں مطلق العنان جمہوریت ڈکٹیٹرشپ میں تبدیل ہو سکتی ہے۔ صدر لغاری نے 1997ء کے اواخر میں خرابی صحت کی بناء پر استعفا دے دیا۔ چیف جسٹس سجاد علی شاہ جا چکے تھے ‘ آئین میں من پسند تبدیلی ہو چکی تھی ایک اور صدر گھر چلے گئے تھے۔
جب یہ سارے کام ہو رہے تھے تو جنرل جہانگیر کرامت آرمی چیف تھے۔ وہ بیحد شریف النفس اور غیر سیاسی انسان ہیں ‘ فوج بھی مکمل طور پر جمہوریت کے حق میں تھی البتہ یہ سوچ بھی پاک فوج میں نظر آ رہی تھی کہ وزیراعظم کو مطلق العنان نہیں ہونا چاہیے اور یہ کہ ملکی نظام کی بہتری کے لیے فوج اور سول میں مشاورت جاری رہنی چاہیے۔ اکتوبر 1998ء نیول سٹاف کالج لاہور میں تقریر کرتے ہوئے آرمی چیف نے چند تجاویز دیں جن میں سے تین اہم ترین تھیں ‘پہلی تجویز یہ تھی کہ ملک میں نیشنل سیکورٹی کونسل ہونی چاہیے تاکہ سویلین لیڈر اور ملٹری افسر اسے مشاورت کے ریگولر فورم کے طور پر استعمال کریں۔ دوسری تجویز یہ تھی کہ سول بیورو کریسی نیوٹرل اور قابل افسروں پر مشتمل ہونی چاہیے۔ معلوم ہوتا ہے کہ فوج کی سوچ یہ تھی کہ سویلین لیڈر سول بیورو کریسی کو سیاسی اغراض کے لیے استعمال کر رہے تھے ‘تیسری تجویز یہ تھی کہ چاروں صوبوں میں لوکل گورنمنٹ نظام قائم ہونا چاہیے ۔بظاہر یہ تمام تجاویز ملک کی بہتری کے لیے بڑے خلوص سے دی گئی تھیں۔ اس تقریر کے فوراً بعد وزیراعظم نے 6 اکتوبر 1998ء کو جنرل جہانگیر کرامت کو اپنے دفتر میں بلایا اور اُن سے استعفا طلب کیا۔ سرتاج عزیز صاحب نے اپنی کتاب Dreams & Realities Between میں لکھا ہے کہ جنرل جہانگیر کرامت کو اس انداز میں ان کے عہدے سے ہٹانا بہت بڑا بلنڈر Blander تھا۔ مجھے کیوں نکالا یہ سوال جنرل صاحب میاں صاحب سے کر سکتے ہیں۔ لیکن طاقت کا نشہ بھی عجیب ہوتا ہے اور یہ جب حد سے بڑھ جائے تو حکمران عدل و انصاف کو بھول جاتے ہیں۔ میاں صاحب اور زرداری صاحب کا ایک مسئلہ مشترکہ ہے کہ وہ سیاست اور بزنس دونوں کو ساتھ ساتھ چلانا چاہتے تھے۔ ان کے ذہن میں Conflict of Interest کی اصطلاح کچھ مخبوط الحواس لوگوں کی گھڑی ہوئی ہے ‘جیسا کہ اوپر کی سطور میں لکھا گیا ہے 1997ء کے آخر تک میاں صاحب دو بڑے معرکے جیت چکے تھے اور سیاسی طور پر بہت مضبوط نظر آ رہے تھے۔
1997ء کے اوائل میں دوشنبے میں سفیر تھا ‘ اس خوبصورت دارالحکومت میں تب کوئی انگلش میڈیم سکول نہیں تھا اور فارن آفس کی اصطلاح میں یہ ہارڈشیپ اور نان فیملی سٹیشن تھا۔ میری فیملی بچوں کی تعلیم کی غرض سے اسلام آباد میں رہی۔ جون 1997ء میں فارن آفس نے مجھے رنگون بھیج دیا جہاں تعلیم کا مناسب بندوبست تھا۔ میں خوش تھا کہ فیملی پھر اکٹھی ہو رہی تھی۔ بچے ایجوکیشن کے لحاظ سے اہم کلاسوں میں یعنی اے اور او لیول میں تھے چھوٹا بیٹا جو اس وقت بیرون ملک مینجمنٹ کنسلٹنٹ ہے ‘اس وقت ساتویں جماعت میں تھا۔ رنگون جانے سے پہلے میں نے صدر لغاری سے الوداعی ملاقات کی۔ مرحوم بہت پڑھے لکھے اور باخبر انسان تھے اور بے حد محب وطن بھی۔ اللہ انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔ مجھے کہنے لگے کہ رنگون میں ہمارا سفیر ویت نام میں غیر مقیم سفیر کا بھی کام کرتا ہے اور میری اطلاع کے مطابق ویت نام والے اپنی شوگر انڈسٹری کی توسیع کر رہے ہیں۔ ٹیکسلا میں بنائے جانے والے شوگر پلانٹ ویت نام کو ایکسپورٹ کئے جا سکتے ہیں۔
میں رنگون میں کاغذاتِ نامزدگی پیش کر کے پہلی فرصت میں ہنوئی گیا۔ متعلقہ وزارتوں سے رابطہ کیا کیونکہ وہاں ہنوز سوشلسٹ نظام زندہ تھا اور شوگر ملیں حکومت چلا رہی تھی۔ لغاری صاحب کی بات سو فیصد درست نکلی۔ میں نے ویت نام کے حکام کو پاکستان کا دورہ کرنے پر رضامند کر لیا اور مفصل رپورٹ اسلام آباد بھیج دی۔ لاہور کے ایک مخصوص بزنس ہائوس کے کان کھڑے ہو گئے۔ پوسٹنگ کے عین پانچ ماہ بعد مجھے رنگون سے کوچ کا حکم ملا اور جہاں جانے کے لیے کہا گیا وہاں میرے بچوں کی تعلیم کا بندوبست نہیں تھا۔ میری جگہ پرائیویٹ سیکٹر سے ایک شخص کو بھیجا گیا جو سفارت کاری کی ابجد سے بھی واقف نہیں تھے لیکن وزیراعظم کے ہم زلف ضرور تھے۔ اگلے دس ماہ میں نے اسلام آباد میں گزارے۔ بچوں کی تعلیم متاثر ہوئی۔ اب میں بھی میاں صاحب سے پوچھ سکتا ہوں کہ مجھے رنگون سے کیوں نکالا تھا؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں