"JDC" (space) message & send to 7575

اسلام آباد کا شہرِ آشوب… (1)

1958ء میں جب جنرل ایوب خان نے اقتدار سنبھالا تو کراچی دارالحکومت تھا۔ نئی حکومت اس امر کے بارے میں کچھ زیادہ خوش نہ تھی۔ کہا گیا کہ کراچی کی آب و ہوا صحت افزا نہیں، سرکاری ملازمین کی صحت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں لیکن اس سے وزنی دلیل یہ تھی کہ کراچی ملک کے وسط میں واقع نہیں۔ عوام کو دور دراز سے آنے میں دشواری ہوتی ہے۔ چنانچہ جنرل یحییٰ خان کی سربراہی میں ایک کمیٹی بنی‘ جسے نئے دارالحکومت کی جگہ تلاش کرنے کا کام سونپا گیا۔ فیصلہ راولپنڈی اور مارگلہ کی پہاڑیوں کے درمیان واقع خالی پٹی پر ہوا۔ کئی نام تجویز ہوئے مگر اسلام آباد زیادہ پسند کیا گیا۔ سطح سمندر سے دو ہزار فٹ بلند ہونے کی وجہ سے یہاں کا موسم گرما باقی علاقوں کے مقابلے میں معتدل تھا۔ 
ویسے اسلام آباد بھی ملک کے وسط میں واقع نہیں۔ تاریخی طور پر دیکھا جائے تو دنیا کے تمام بڑے شہر دریائوں کے کنارے آباد ہوئے۔ دہلی جمنا کے کنارے ہے تو راوی کی لہریں ایک زمانے میں شاہی قلعے سے ٹکراتی نظر آتی تھیں۔ دریائے ٹیمز لندن کے وسط سے گزرتا ہے، دریائے نیل خرطوم اور قاہرہ کے بیچوں بیچ رواں دواں رہتا ہے۔ اسلام آباد کے آس پاس کوئی بڑا دریا نہیں تھا۔ دو چھوٹے دریا مری کی پہاڑیوں سے اسلام آباد کی طرف ضرور بہتے ہیں یعنی دریائے کرنگ اور دریائے سواں لیکن ان دونوں سے بہت زیادہ پانی ذخیرہ نہیں کیا جا سکتا۔ میرے خیال میں اسلام آباد پر نظر انتخاب اس لئے بھی پڑی کہ یہ راولپنڈی کے بالکل ساتھ ہے اور جنرل ایوب خان کے گائوں ریحانہ سے بھی زیادہ دور نہیں۔ ورنہ وادی سون میں واقع سکیسر کا مقام بھی خوبصورت اور صحت افزا ہے اور دارالحکومت ملک کے وسط میں بنانا مقصود تھا تو فورٹ سنڈیمن بہت مناسب مقام تھا۔ اسلام آباد کا ماسٹر پلان تیار کرنے کے لئے مشہور یونانی ٹائون پلانر ڈوکسیاڈس (Doxiadis) کا انتخاب کیا گیا جو ہر لحاظ سے مناسب تھا۔ ڈوکسیاڈس نے ٹائون پلاننگ کی اعلیٰ تعلیم جرمنی سے حاصل کی تھی‘ دوسری جنگ عظیم کے بعد اسے یونانی کابینہ میں اس غرض سے وزیر بنایا گیا تاکہ وسیع تر ایتھنز کی پلاننگ کر سکے۔ جنگ عظیم کے دوران بہت سارے مہاجرین ایتھنز آ گئے تھے‘ ڈوکسیاڈس نے قاعدے قانون سے گریٹر ایتھنز کی پلاننگ کی اور لاکھوں لوگوں کو آباد کیا اور وہاں کوئی سلم (Slum) نہیں بننے دیا۔ لیکن ایتھنز پر آبادی کا اتنا شدید دبائو تھا کہ شہر کی پہاڑیوں پر بھی رہائشی علاقے بن گئے۔ ایتھنز میں ٹریفک کا بے پناہ رش میں خود دیکھ چکا ہوں۔ میرا گھر سفارت خانے سے بیس کلومیٹر تھا اور یہ فاصلہ ایک گھنٹے میں طے ہوتا تھا۔ میں آفس جاتے جاتے پورا اخبار پڑھ لیتا تھا۔ ڈوکسیاڈس کا عزم تھا کہ وہ اسلام آباد کو ایتھنز نہیں بننے دے گا۔ اسلام آباد کی پلاننگ میں اس عظیم ٹائون پلانر نے جس تھیوری سے استفادہ کیا وہ تھی Entopia اور یہ آئیڈیلزم اور زمینی حقائق کا حسین امتزاج تھی۔ اسلام آباد پراجیکٹ پر کام شروع کرنے سے پہلے ڈوکسیاڈس سے پوچھا گیا کہ کراچی شہر کی مزید ڈویلپمنٹ کر کے دارالحکومت کو وہیں رکھنا مالی طور پر مناسب رہے گا یا اسلام آباد کا نیا شہر آباد کرنا تو ڈوکسیاڈس نے نئے شہر کے حق میں ووٹ دیا۔ اسے مارگلہ کے پہاڑی سلسلے اور پہاڑوں پر سبزے اور درختوں نے ضرور مسحور کیا ہو گا۔ ڈوکسیاڈس کا کہنا تھا کہ نیا شہر بسانے میں مشینری کم اور لیبر زیادہ استعمال کی جائے گی تاکہ مقامی لوگوں کو روزگار ملے۔ ڈوکسیاڈس اسلام آباد کو مستقبل کا جنت نظیر شہر بنانا چاہتا تھا، اس کے کہنے کے مطابق کسی بھی شہر میں پانچ عناصر کا توازن قائم کرنا ضروری ہوتا ہے اور وہ پانچ عناصر ہیں رہائشی لوگ‘ عمارتیں‘ سڑکیں‘ درخت اور پانی۔ اسلام آباد کے تمام سیکٹر چار مربع کلومیٹر کے رقبہ میں ہیں یعنی دو کلومیٹر لمبے اور دو کلومیٹر چوڑے۔ ہر سیکٹر کے چاروں اطراف میں سروس روڈز ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ غیر ضروری ٹریفک رہائشی علاقوں میں نہ آئے۔ ہر سیکٹر کے مرکز میں کمرشل ایریا ہے۔ ہر سیکٹر کے چار سب سیکٹر (Sub Sector) ہیں۔ ہر سب سیکٹر کی اپنی ایک یا دو مارکیٹ ہیں تاکہ شہریوں کو دودھ انڈے اور ڈبل روٹی لینے کے لیے کمرشل مرکز نہ جانا پڑے۔ ہر سیکٹر کے چاروں طرف تین سو فٹ چوڑی گرین بیلٹ ہے۔ پارک اور پلے گرائونڈز اس کے علاوہ ہیں۔ ڈوکسیاڈس ایتھنز کی گنجان آبادی اور بلند و بالا عمارتوں سے تنگ آ گیا تھا۔ اسی لیے وہ اسلام آباد کو ایک کشادہ اور ہرا بھرا گارڈن سٹی بنانا چاہتا تھا جہاں ٹریفک رواں دواں رہے۔ ہر دو سیکٹرز کو ملانے کے لیے انٹرچینج فلائی اوور انڈر پاس بننا تھے۔ یہ سارے کام چالیس سال بعد جنرل مشرف کے دور میں شروع ہوئے یا اب مسلم لیگ کے دورِ حکومت میں ہو رہے ہیں۔ پنڈی‘ اسلام آباد میٹرو بس سروس اور پشاور موڑ فلائی اوور موجودہ حکومت کے کام ہیں۔ پیپلز پارٹی اپنے پانچ سال میں ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھی رہی۔ ان سے کشمیر ہائی وے تک نہ بن سکی‘ یہ سڑک لاہور اور پشاور سے دارالحکومت کو ملاتی ہے لہٰذا بے حد اہم ہے۔ خیر اسلام آباد کے باسیوں نے بھی پیپلز پارٹی سے خوب بدلہ لیا اور 2013ء کے الیکشن میں دارالحکومت میں پیپلز پارٹی کو مکمل اور جامع شکست ہوئی۔
ڈوکسیاڈس نے حسین و جمیل گارڈن سٹی کا خواب دیکھا تھا نیشنل پارک اور زرعی فارم اس خواب کی تکمیل کی جانب دو واضح اور اہم اقدام تھے۔ نیشنل پارک کے تین اہم جزو ہیں ایک مارگلہ کی پہاڑیاں‘ دوسرا راول جھیل اور تیسرا شکر پڑیاں کی پہاڑی۔ نیشنل پارک کا مقصد اسلام آباد کے قدرتی حسن کی حفاظت کرنا تھا۔ نیشنل پارک میں کوئی گھر نہیں بن سکتا تھا۔ یہاں نہ کوئی انڈسٹری لگ سکتی تھی اور نہ ہی کمرشل عمارت بن سکتی تھی۔ مارگلہ کی پہاڑیوں میں انواع و اقسام کی جنگلی حیات پائی جاتی ہیں اور اس میں نباتات اور حیوانات دونوں شامل ہیں۔ 1980ء کی دہائی میں مَیں خود مچھلی کے شکار کے لئے راول جھیل جاتا رہا ہوں۔ آج یہ جھیل آلودہ ہو چکی ہے اور اس کی مچھلی کی بارے ماہرینِ غذائیات منفی رائے رکھتے ہیں۔ 1990ء کے آس پاس راول لیک کے آس پاس گھر بننے لگے۔ گھر تعمیر کرنے والوں میں چند بہت بااثر شخصیات شامل تھیں۔ سی ڈی اے خاموش تماشائی بنی رہی۔ اب وہاں سینکڑوں گھر ہیں اور سیوریج جھیل میں گرتا ہے۔ ڈپلومیٹک انکلیو کا سیوریج بھی راول لیک میں جاتا ہے اور راولپنڈی شہر کو ملنے والا پینے کا پانی اسی جھیل سے جاتا ہے۔ اس پانی کو کس طرح اور کتنا صاف کیا جاتا ہے‘ یہ مجھے معلوم نہیں۔ میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ماسٹر پلان کے مطابق راول لیک اور نیشنل پارک میں گھر نہیں بن سکتے‘ یہ ماحولیات کے ساتھ کھلواڑ ہے۔
سی ڈی اے کی شہرت اچھی نہیں۔ پیپلز پارٹی کے عہد کے دو چیئرمین‘ نیب کے مہمان رہ چکے ہیں۔ جنرل مشرف کے عہدِ حکومت کا ایک چیئرمین ایگزٹ کنٹرول لسٹ پر ہے۔ پیپلز پارٹی کے زمانے میں ایک صاحب بغیر کسی سرکاری حیثیت کے سی ڈی میں پائے جاتے تھے‘ ان کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ ایک بڑی شخصیت کے فرنٹ مین ہیں۔ انہیں سی ڈی اے کا اصل چیئرمین بھی کہا جاتا تھا‘ دورغ بر گردن راوی۔ مگر نون لیگ کی ٹھیکیدار فرینڈلی حکومت نے تو کمال ہی کر دیا‘ پارٹی قائد کے ذاتی ٹھیکیدار کو چیئرمین سی ڈی اے لگا دیا۔ (جاری)

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں