"JDC" (space) message & send to 7575

آہ سید افتخار مرشد

گزشتہ ہفتے ایک عظیم پاکستانی، قد آور دانش ور اور شاندار سفارت کار اس دارِ فانی سے رخصت ہوئے۔ میں اس دن لاہور میں تھا اور کچھ دن وہاں ٹھہرنے کا پروگرام تھا‘ لیکن فوری واپسی کا فیصلہ کیا کیونکہ ایک سراپا اخلاص شخصیت کو بذاتِ خود الوداع کہنا ضروری تھا۔ میری اُن سے آخری ملاقات وفات سے چار پانچ روز پہلے ہوئی۔ لمبی بات کرنے سے قاصر تھے۔ ویل چیئر پر بیٹھے ہوئے تھے۔ پھر بھی میری فیملی کے ایک ایک فرد کے بارے میں استفسار کیا۔ کہنے لگے: سالہا سال پائپ پینے سے پھیپھڑے کمزور ہو گئے ہیں۔ لیکن ذہنی طور پر اب بھی بہت توانا تھے۔ افکار پر مکمل قدرت تھی۔
مرشد صاحب کا تعلق ڈھاکہ کی معروف فیملی سے تھا۔ ان کے والد سید مقبول مرشد کئی ملکوں میں پاکستان کے سفیر رہے۔ ان کے چچا جسٹس محبوب مرشد ایسٹ پاکستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس تھے۔ افتخار مرشد نے اپنے والد کا پیشہ یعنی سفارت کاری منتخب کیا‘ اور فارن آفس کے سرکردہ افسروں میں شمار ہوئے۔ ماسکو سے بطور سفیر ریٹائر ہوئے۔ اسلام آباد آ کر Criterion کے نام سے سہ ماہی میگزین نکالا۔ اس میگزین میں ریسرچ پر مبنی سنجیدہ مضامین شامل ہوتے ہیں۔ تحقیق اور مواد کے لحاظ سے کرائٹیرین اپنا ایک مقام رکھتا ہے۔
افتخار مرشد نے تعلیم برن ہائی سکول ایبٹ آباد اور گورنمنٹ کالج لاہور سے حاصل کی۔ لاہور میں محبت پر مبنی شادی کی۔ پچاس سالہ رفاقت ختم ہونے کی وجہ سے عصمت بھابھی غم سے نڈھال ہیں۔ کالم لکھنے سے پہلے میں نے ان کے بیٹے مشفق مرشد سے رابطہ کیا۔ کہنے لگا: انکل! ابو کے بارے میں سب سے زیادہ تو امی جانتی ہیں لیکن فی الحال وہ بات کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ میں نے جواب دیا کہ بیٹا میں خود آپ کے والد کے بارے میں اتنا جانتا ہوں کہ کالم کے لئے کافی ہے۔ 1970ء میں جب افتخار مرشد نے فارن سروس جوائن کی تو پاکستان نازک دور سے گزر رہا تھا۔ 1971ء میں ٹریننگ ختم ہونے پر پوسٹنگ میڈرڈ ہو گئی اور یہاں مرشد صاحب کو اپنی زندگی کا اہم ترین فیصلہ کرنا پڑا۔ مارچ 1972ء میں انہیں رات گئے ایک فون آیا۔ پہلا سوال تھا کہ آیا اس وقت آپ اکیلے ہیں؟ جواب مثبت ملا تو کالر نے کہا کہ میرا نام بیدی ہے اور میں انڈین ایمبیسی میں سیکنڈ سیکرٹری ہوں۔ مجھے انڈین گورنمنٹ نے آپ سے رابطہ کرنے کو کہا ہے۔ کیا کل شام ہم کسی اچھے سے ریسٹورنٹ میں مل سکتے ہیں۔ مرشد صاحب نے کہا: میں کل آپ کو بتائوں گا۔ جنرل بلگرامی ان دنوں سپین میں پاکستان کے سفیر تھے۔ افتخار مرشد نے اگلے روز ایمبیسی جاتے ہی سفیر صاحب کو ٹیلی فون کال کے بارے میں تفصیل سے بتایا اور کہا کہ میں انڈین سفارت کار کو ملنے کے حق میں نہیں۔ سفیر صاحب دور کی سوچ رہے تھے۔ کہنے لگے کہ تم انڈین ڈپلومیٹ کو ضرور ملو اور ظاہر کرو کہ انڈیا کو حقیقی معنوں میں اپنا ہمدرد سمجھتے ہو۔ ان ملاقاتوں کا تمام احوال ہم من و عن اسلام آباد فارن آفس کو بتا دیں گے۔ عین ممکن ہے کہ ہمیں انڈین سوچ سے متعلق مفید معلومات مل جائیں۔ افتخار مرشد کی ملاقات اس شام مسٹر بیدی سے بھی ہوئی اور چند روز بعد انڈین سفیر سے بھی۔ انہیں پیغام ملا کہ بنگلہ دیش ڈیفیکٹ کر جائیں اور اخراجات تمام کے تمام انڈین حکومت برداشت کرے گی۔ مرشد صاحب نے جواب دیا کہ ان کے دو شیر خوار بیٹے لاہور میں نانا نانی کے پاس ہیں‘ میں فی الحال بنگلہ دیش نہیں جا سکتا۔
پھر ایک روز افتخار مرشد کی والدہ ماجدہ میڈرڈ پہنچ گئیں اور کہا کہ تم ہمارے اکلوتے بیٹے ہو‘ پاکستان کو خیر باد کہو اور ہمارے پاس ڈھاکہ آ جائو۔ بنگلہ دیش کی فارن سروس میں بھی شاندار کیریئر تمہارا منتظر ہے۔ بیٹے نے ادب سے جواب دیا کہ میں نے سوچ سمجھ کر پاکستان میں رہنے کا فیصلہ کیا ہے اور یہ فیصلہ بدل نہیں سکتا۔ والدہ مایوس ہو کر واپس ڈھاکہ چلی گئیں۔ مرشد صاحب کی پاکستان سے محبت اٹل تھی۔
افتخار مرشد وضع قطع سے بہت ماڈرن لگتے تھے۔ انگریزی ایسی شستہ بولتے تھے گویا ان کی اپنی زبان ہو۔ کئی سال ایک مؤقر روزنامہ میں انگریزی کے کالم لکھتے رہے۔ انگلش کے مفردات، مرکبات، تشبیہیں‘ استعارے اور ایڈیمز Idioms یوں لگتا تھا کہ ان کے سامنے مؤدب کھڑے رہتے ہوں۔ ان کا ہر کالم زبان اور مواد کے لحاظ سے شاندار ہوتا تھا۔ دیکھنے میں صاحب بہادر آدمی اندر سے بڑا دیسی تھا۔ اپنے سٹاف سے انہیں خاص الفت تھی۔ دوستوں کے ساتھ ناصح سے زیادہ غم گساری اور چارہ سازی کا رویہ تھا۔ چہ عجب کہ آج سارے دوست غم سے نڈھال ہیں۔ وہ اس شگفتہ پھول کو یاد کر رہے ہیں‘ جس کی خوشبو پوری محفل میں پھیل جاتی تھی۔
سابق سفیر ایاز وزیر نے مرشد صاحب کے ساتھ فارن آفس میں دو تین سال کام کیا۔ 1996ء میں افغانستان کے صدر برہان الدین ربانی نے حکومتِ پاکستان سے درخواست کی کہ شمالی اتحاد اور طالبان کے درمیان اختلافات کم کرائے۔ مرشد صاحب اس وقت فارن آفس میں ایڈیشنل سیکرٹری تھے۔ افغانستان کے متحارب دھڑوں میں صلح کرانے کے لئے پاکستان کی جانب سے شٹل ڈپلومیسی شروع ہوئی۔ ایک ٹیم بنائی گئی۔ افتخار مرشد ٹیم لیڈر تھے۔ ایاز وزیر اور رستم شاہ مہمند ٹیم کے ممبر تھے۔ ایک ہوائی جہاز ٹیم کو دیا گیا اور افغانستان کے متعدد دورے ہوئے۔ 
ایمبیسیڈر ایاز وزیر کو ان دوروں میں مرشد صاحب کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ وہ ان کی ذاتی خوبیوں کے آج بھی معترف ہیں۔ آج ہی صبح ایک واقعہ سنا رہے تھے کہ شٹل ڈپلومیسی کے سلسلہ میں احمد شاہ مسعود کو ملنے فرخار ویلی گئے ہوئے تھے۔ دن میں ملاقاتیں ہوئیں اور مغرب کے وقت اسلام آباد کے لئے روانہ ہوئے۔ مرشد صاحب نے حسبِ معمول محفل کو کشت زعفران بنایا ہوا تھا۔ اتنے میں جہاز کے عملے کا ایک شخص پریشان حالت میں آیا اور کہا کہ جہاز میں ٹیکنیکل فالٹ ہے ایک انجن بند ہو گیا ہے۔ پٹرول بھی کم ہے۔ لہٰذا نزدیک ترین ایئر پورٹ پر ہنگامی لینڈنگ کرنی ہے۔ اور یہ بھی ڈر تھا کہ ایئر پورٹ والے دشمن کا جہاز سمجھ کر گرا نہ دیں کیونکہ افغانستان میں ایئر کنٹرول ٹاورز کے ذریعے کمیونیکیشن کا نظام بھی واجبی سا تھا۔ اس گمبھیر مسئلے کو ٹیم لیڈر کے سامنے پیش کیا گیا۔ وہ بہت پُر سکون تھے۔ آسمان میں چودھویں کا چاند اپنا نور بکھیر رہا تھا۔ مرشد صاحب بولے؛ میں فی الحال چاند کی خوبصورتی پر غور کر رہا ہوں‘ خدا خیر کرے گا۔ چنانچہ جہاز نے مزارِ شریف ایئر پورٹ پر ہنگامی لینڈنگ کی اور گرائونڈ عملے نے بتایا کہ ہم آپ کے جہاز پر فائر کرنے ہی والے تھے کہ اچانک ریڈیو سے رابطہ ہو گیا۔ جسے اللہ رکھے۔
مرشد صاحب بہت پڑھے لکھے انسان تھے۔ قرآن کریم روزانہ مع انگریزی ترجمہ پڑھتے۔ انگلش کلاسیکی ادب کا چسکا آخری دنوں تک قائم رہا۔ ان کے کالموں میں قرآنی آیات کے حوالے ملتے ہیں۔ پکے اور سچے مسلمان تھے؛ البتہ ملائیت کے سخت خلاف۔ انہیں کامل یقین تھا کہ قائد اعظمؒ کی 11 اگست 1947ء والی تقریر ہی اصل نظریۂ پاکستان ہے۔
مجھے کافی عرصہ سے کہہ رہے تھے کہ کرائیٹیرین کے لئے لکھو۔ پاکستان کو انتہا پسندی سے دور رکھنا ہم سب کا فرض ہے۔ میں اکثر دیگر مصروفیات کا بہانہ کرتا رہا۔ سچی بات یہ ہے کہ اس مجلّے کے لئے لکھنا اتنا آسان نہیں۔ تحقیق اور حوالوں کے بغیر بات ہی نہیں بنتی۔ پچھلے سال پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ فاٹا سے ایک بچی سی ایس ایس میں بہت اچھی پوزیشن لے کر ڈی ایم جی میں آئی اور یہ ایمبیسیڈر ایاز وزیر کی صاحبزادی زرمینہ وزیر ہے۔ ایاز صاحب خوشی کی یہ خبر سنانے فوراً مرشد صاحب کے پاس گئے اور یہ بھی بتایا کہ میری بیٹی آپ کا مجلّہ پورے کا پورا پڑھتی رہی ہے۔ مرشد صاحب بے حد خوش ہوئے اور اس موضوع پر ایک کالم بھی لکھا۔ ایک روشن خیال شخص ایک سچا پاکستانی اور مخلص دوست ہمیں چھوڑ گیا ہے۔ حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں