"JDC" (space) message & send to 7575

کواڈرینگل ہوسٹل کے یادگار دن… (2)

ہوسٹل میں داخل ہوتے ہی پہلے روز بانسانوالہ بازار سے چارپائی خریدی جاتی تھی۔ لڑکے اپنے بستر خود ہولڈ آل میں بند کرکے لاتے تھے۔ میز کرسی ہوسٹل کی جانب سے ملتے تھے۔ کپڑے لٹکانے کے لیے الماریاں یعنی وارڈروب نہیں تھیں۔ دیواروں پر لگی کیلیوں کے نیچے اخباری کاغذ لگا لیتے تھے۔ کھانا البتہ تینوں وقت کا پہلے ہی دن سے پکا پکایا اور میس ٹیبل پر ملتا تھا۔ بیرے بھاگ بھاگ کر انتہائی مستعدی سے سروس کرتے تھے۔ منگل کے روز مرغ پکتا۔ سوموار کو شامی کبابوں کے ساتھ پلائو ملتا تھا۔ سنڈے کو ناشتے میں فرنچ ٹوسٹ ہوتے۔ سویٹ ڈش کو بیرے فیشن کہتے تھے۔ فیشن ہفتے میں دو دن ملتا تھا۔ کھانے کا معیار اچھا تھا اور 1961 میں میس بل تقریباً اسّی روپے ماہانہ آتا تھا۔
ہوسٹل کے ایک کونے میں کینٹین تھی‘ جو چار بجے کھلتی تھی۔ یہاں چائے‘ سموسے اور کیک پیس ملتے تھے۔ ٹک شاپ ہفتہ میں ایک دو بار کھلتی تھی۔ یہاں سے صابن ٹوتھ پیسٹ وغیرہ خریدے جا سکتے تھے۔ بیرے ہفتے کے روز کمروں سے کپڑے اکٹھے کرکے دھوبی کو دیتے تھے اور سوموار کو دھلے دھلائے استری شدہ کپڑے لا دیتے تھے۔ لڑکے بیروں کو پانچ سے دس روپے ماہانہ دیتے تھے۔ دس روپے دینے والوں کی بیرے زیادہ مستعدی سے سروس کرتے تھے۔ دھوبی کا ماہانہ بل پانچ سے چھ روپے ہوتا تھا۔ 1961 کے کواڈرینگل میں سوا سو روپے میں ہمارا شاندار گزارہ ہوتا تھا۔
ہوسٹل میں تقریباً ڈیڑھ سو لڑکے رہائش پذیر تھے۔ اکثریت بہت پڑھاکو اور محنتی قسم کے طالب علموں پر مشتمل تھی۔ میڈیکل اور نان میڈیکل کے لڑکے رات گئے تک پڑھتے تھے اور انکی اکثریت کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج اور انجینئرنگ یونیورسٹی چلی جاتی تھی۔ کواڈرینگل کے نوے فیصد لڑکے سرکاری اُردو میڈیم سکولوں سے تعلق رکھتے تھے۔ ان سکولوں کا معیار تب تک بہت اچھا تھا۔ چند ماہ میں یہی لڑکے انگریزی بولنے لگتے تھے۔ 1960 میں میٹرک میں ٹاپ کرنے والے اقدس کاظمی اور 1961 میں ٹاپ کرنے والے فیض احمد اسی ہوسٹل میں مقیم تھے۔ دونوں بلا کے ذہین تھے اور میرے آج تک دوست ہیں۔ 
اس کا مطلب یہ نہیں کہ پڑھاکو لڑکوں کی بھرمار سے کواڈرینگل میں زندگی بوریت سے عبارت تھی‘ ہوسٹل کا لٹریری سرکل فعال تھا۔ یہاں پُرمغز مقالے پڑھے جاتے اور بعد میں دلچسپ بحث ہوتی۔ کامن روم میں ٹیبل ٹینس باقاعدگی سے کھیلی جاتی۔ یہاں کالج چیمپئن ظفر رشید اکثر پریکٹس کے لیے آتا تھا۔ اچھے سے اچھے پلیئرز کو وہ چند منٹوں میں ہرا دیتا۔ ہمارا کلاس فیلو فاروق حمید بہت اچھا اتھلیٹ تھا اور فاسٹ بائولر بھی۔ فاروق حمید کی زندگی میں ڈسپلن نہیں تھا ورنہ وہ عظیم کرکٹر بنتا۔ اس نے اپنے تمام کیریئر میں صرف ایک ٹیسٹ میچ کھیلا۔ فاروق حمید کا قد تقریباً سوا چھ فٹ تھا وہ رات کو چھت سے چھلانگ لگا کر باہر چلا جاتا تھا‘ اور واپسی بھی اسی راستے سے ہوتی تھی۔ کھڑکی کی دہلیز پر پائوں رکھ کر وہ جمپ لگاتا تو چھت پر ہوتا تھا۔ ہوسٹل میں روزانہ نو بجے رات کو حاضری ہوتی تھی۔ کمروں میں ایک ایک لڑکے کو چیک کیا جاتا۔ اسکے بعد سامنے والا اور عقبی گیٹ‘ بند ہو جاتے تھے۔ ظاہر ہے کہ فاروق حمید پھلانگ چھلانگ والی حرکت نو بجے کے بعد کرتا تھا۔ مگر ایک مرتبہ وہ ڈاکٹر اجمل کے ہاتھ لگ گیا اور پھر خوب کھچائی ہوئی۔ اسکے بعد فاروق نے وہ حرکت نہیں کی۔
اب پلٹ کے دیکھتا ہوں تو یاد آتا ہے کیا کیا لوگ تھے جو اس کواڈرینگل میں رہتے تھے۔ ہمارے پہلے سپرنٹنڈنٹ تنویر احمد خان تھے‘کالج کے انگلش ڈیپارٹمنٹ کے بہت ہی پاپولر استاد۔ بعد میں لندن میں سفارتخانے میں ایجوکیشن کونسلر رہے۔ لیٹرل اینٹری کے ذریعے فارن سروس میں آئے۔ پیرس‘ ماسکو‘ پراگ اور تہران میں سفیر رہے اور پھر فارن آفس میں اعلیٰ ترین پوزیشن یعنی فارن سیکرٹری کے عہدہ تک پہنچے۔ دوسرے سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر اجمل تھے‘ جو بعد میں پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر رہے۔ بطور فیڈرل ایجوکیشن سیکرٹری ریٹائر ہوئے۔ پہلے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ انور نسیم تھے جو ذوآلوجی پڑھاتے تھے۔ پھر وہ انگلستان پی ایچ ڈی کرنے چلے گئے۔ لمبا عرصہ کینیڈا میں رہے۔ حکومتِ کینیڈا نے انہیں اعلیٰ سول ایوارڈ سے نوازا۔ کوئی دس سال پہلے پاکستان آ گئے تھے۔ اکیڈمی آف سائنس کے صدر رہے‘ جو پاکستان میں سائنس کی فیلڈ کی اعلیٰ ترین پوزیشن ہے۔ ان کے بعد حفیظ اللہ اسحاق ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ بنے۔ وہ سائیکالوجی پڑھاتے تھے۔ بعد میں سی ایس پی ہوگئے۔ چیف سیکرٹری پنجاب چیئرمین ایف بی آر اور سیکرٹری داخلہ رہے۔ 
کیسے کیسے لوگ تھے جو اس عمارت میں مقیم تھے۔ جہلم کے چودھری جمیل کو ہر کوئی جمیل ٹونی کہتا تھا کہ اس ہینڈسم نوجوان کی شکل ٹونی کرٹس Tony Curtis سے بہت ملتی تھی۔ جہلم کا ہی موٹی موٹی آنکھوں والا افتخار چودھری بھی کواڈرینگل میں رہتا تھا۔ وہ بعد میں لاہور ہائی کورٹ کا چیف جسٹس بنا۔ مشہور ماہر اقتصادیات ڈاکٹر راشد امجد اور پی سی بی کے چیئرمین احسان مانی بھی یہیں مقیم تھے اور دونوں میں بڑی دوستی تھی۔ کالج اور خاص طور پر ہوسٹل میں پروان چڑھنے والی دوستیاں اکثر دیرپا ہوتی ہیں‘ اور ہاں مجھے ظفر مسعود انصاری یاد آرہا ہے۔ وہ اچھا خوش شکل اور خوش مزاج لڑکا تھا۔ ڈرامہ سیریل خدا کی بستی میں نوشہ کے کردار کی بھرپور ادائیگی کی وجہ سے بہت مقبول ہوا۔ ہوسٹل میں چھ لڑکے ایسے تھے جو دوسرے ممالک سے آئے ہوئے تھے۔ طاہر شاہ اتنا گورا تھا کہ سو فیصد انگریز لگتا تھا۔ وہ بعد میں مشہور سرجن بنا۔ قصور کا مبشر کریم گورا‘ دیکھنے میں اتنا گورا نہیں تھا‘ لیکن اس کی شخصیت بڑی اجلی تھی۔ شرقپور کے اقبال شیخ کی شخصیت میں سنجیدگی اور مسکراہٹ دونوں جلوہ فرما تھیں۔ شیخ صاحب نے سرکاری سروس کو جلد ہی خیرباد کہہ دیا اور آج کل کامیاب شیشہ گر ہیں یعنی تعلق گلاس انڈسٹری سے ہے۔ جہلم کا راجہ حامد محمود گبھرو جوان تھا اور بہت ہی خوش دل۔ کواڈرینگل سے پانچ چھ لڑکوں نے پاک فوج میں کمیشن حاصل کیا تھا اور وہ ان میں سے ایک تھا۔ قصور کا خالد محمود بڑا سیریس سٹوڈنٹ تھا۔ اسے انگریزی بولنے کا بڑا شوق تھا۔ فارن سروس جوائن کی اور کئی ملکوں میں پاکستان کی نمائندگی کی۔
1962 میں ہوسٹل پریذیڈنٹ اور جنرل سیکرٹری کا ہمارا الیکشن قومی انتخابات سے کم نہ تھا۔ دو پینل مد مقابل تھے۔ سکندر لغاری اور فیض احمد کا مقابلہ سجاد بخاری اور احمد پرویز چیمہ سے تھا۔ دونوں طرف کے امیدواروں نے خوب محنت کی‘ ایک ایک ہوسٹل مکین کو قائل کرنے کی کوشش کی۔ میں نے سکندر لغاری اور فیض احمد کو سپورٹ کیا‘ اور ہم ہار گئے۔ اس الیکشن میں احمد پرویز چیمہ کا کنویسنگ کا طریقہ قابل غور تھا۔ احمد پرویز چیمہ کا نک نیم اے پی سی ہے۔ الیکشن سے پہلے اے پی سی نے عیدین کی نماز کے علاوہ کوئی نماز نہیں پڑھی ہوگی۔ نمازیوں کے ووٹ حاصل کرنے کیلئے اے پی سی نے پورا ایک مہینہ ہوسٹل میں نماز باجماعت پانچ وقت پڑھی۔ فیض احمد اے پی سی کے مقابلے بہت آئوٹ سٹینڈنگ سٹوڈنٹ تھا۔ وہ ہر امتحان میں اول آتا تھا۔ اے پی سی کا کوالیفکیشن کا خانہ خالی تھا؛ چنانچہ تین مہمل سی مگر پاپولر کوالیفکیشن ایجاد کی گئیں مثلاً ایک نڈر ترجمان، ایک بے خوف لیڈر اور Moreover I am one of you یعنی 'میں آپ میں سے ہوں‘۔ اے پی سی کی سوشل نیٹ ورکنگ بہت فعال اور سمارٹ تھی۔ پریذیڈنٹ کے امیدوار سجاد بخاری بھی اچھی شخصیت کے حامل تھے۔ وہ 1961 میں میٹرک میں پنجاب بھر میں دوسری پوزیشن حاصل کر چکے تھے۔ الیکشن جیتنے کے بعد اے پی سی نے کواڈرینگل کی ہسٹری میں پہلا مباحثہ کرایا۔ زیر بحث موضوع تھا: عشقیہ شادی سے بہتر ہے کہ بیوی سے عشق کیا جائے۔ اے پی سی ہوسٹل کے لٹریری سرکل میں کبھی کبھی مزاحیہ مضمون بھی پڑھا کرتا تھا۔ اس نے کواڈرینگل کی زندگی میں نئی روح پھونک دی۔ اے پی سی آج کل امریکہ میں ہوتا ہے‘ اور ہم مسلسل رابطہ میں رہتے ہیں۔ ایک سال میں میرا کلچرل شاک خاصا کم ہوگیا تھا۔ کواڈرینگل کے عقب میں کالج کا سوئمنگ پول تھا۔ میں کبھی کبھی وہاں چلا جاتا تھا۔ ہوسٹل کے سامنے ٹینس کورٹ تھے۔ جب بھی کوچ غلام حسین فارغ ہوتا اس کے ساتھ آدھا گھنٹہ کھیل لیتا تھا۔ غلام حسین کی ایک شرط ہوتی تھی کہ گیم کے بعد اسے ہاف سیٹ چائے اور کیک پیس ملے۔ یہ لوازمات اس زمانے میں کینٹین سے بارہ آنے میں مل جاتے تھے۔ اس کے علاوہ غیر نصابی کتابیں پڑھنے کا شوق بھی مجھے کواڈرینگل سے شروع ہوا۔ اپنی تمام تر کاہلی کے باوجود دوچار صفحے آج بھی روزانہ پڑھتا ہوں کہ اچھی چیز پڑھ کر لکھنے کی تحریک پیدا ہوتی ہے۔(ختم)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں