"JDC" (space) message & send to 7575

افغان امن‘ امید و بیم کے درمیان

پچھلے چند ماہ میں افغانستان میں امن کے امکانات روشن ہوئے ہیں۔ دسمبر 2018میں صدر ٹرمپ نے اچانک فیصلہ کیا کہ وہ افغانستان سے آدھی امریکی فوج نکال رہے ہیں۔ اس غیر متوقع فیصلے کی وجہ سے ان کے وزیر دفاع جیمز مالٹس مستعفی ہو گئے تھے۔ اب وہ امریکی صدارتی الیکشن سے پہلے پہلے باقی ماندہ فوج بھی واپس بلانے کا ارادہ رکھتے ہیں کیونکہ دوسرے ممالک میں عسکری مداخلت کو امریکی ووٹر ناپسند کرتا ہے۔ آدھی نفری واپس بلانے کیساتھ امریکہ نے طالبان سے براہ راست بات چیت شروع کی۔ طالبان کا عرصے سے مطالبہ تھا کہ مذاکرات اشرف غنی حکومت کی بجائے امریکہ سے براہ راست کریں گے کیونکہ کابل حکومت کے پاس بڑے فیصلے کرنے کا اختیار نہیں۔
قطر میں ہونے والے مذاکرات کے آخری راؤنڈ میں کابل حکومت کے بھی چند لوگ شامل تھے گو کہ طالبان یہ توجیہہ پیش کرتے رہے کہ یہ حکومتی لوگ اپنی انفرادی حیثیت میں شرکت کرر ہے ہیں۔ یہ ایک مثبت پیش رفت تھی۔ دونوں اطراف نے وعدہ کیا کہ جنگ میں سویلین آبادی کو نشانہ نہیں بنایا جائے گا۔
لیکن قطر مذاکرات سے زیادہ اہمیت کا حامل چین میں ہونے والا چہار فریقی اجتماع تھا جہاں امریکہ روس چین اور پاکستان کے نمائندے موجود تھے۔ اس اجلاس میں افغان امن کیلئے پاکستان کی اہمیت کا برملا اعتراف کیا گیا۔ پاکستان کے ذمے طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کا کام تھا جو اُس نے بطریق احسن سرانجام دیا ہے۔ اب غور فرمائیں کہ ویسے تو امریکہ کے چین اور روس کے ساتھ اختلافات بڑھ رہے ہیں لیکن افغان امن کے حصول کے لئے وہ آپس میں تعاون کر رہے ہیں۔ افغان امن کے بارے میں جو یکسوئی آج مختلف متعلقہ ممالک میں پائی جاتی ہے وہ پہلے نہیں تھی۔
افغان امن کے لئے دیگر ممالک نے جو رول ادا کرنا ہے وہ اہم تو ہے لیکن امن کی عمارت کی بنیادی اینٹیں تو افغانوں نے خود لگانی ہیں اور اس کے لئے جنگ بندی ضروری ہے مگر افغانستان جیسے وسیع و عریض پہاڑی ملک میں جہاں اسلحہ بے شمار ہے اور وار لارڈ کئی ہیں‘ دیرپا جنگ بندی مشکل ہے؟ ہو سکتا ہے کہ اب یہ ناممکن کام بھی ممکن ہو جائے۔ پچھلے ماہ مری میں جو افغان امن کانفرنس ہوئی ‘میں وہاں موجود تھا۔ اکثر افغان نمائندے وہاں یہ کہتے ہوئے سنے گئے کہ ہم اس طویل جنگ سے تنگ آ چکے ہیں‘ ہمیں امن چاہئے۔ لیکن جو افغان مری کانفرنس میں آئے تھے اُن میں سے اکثر بزرگ ایسے ہیں جن کا اثر و رسوخ اپنے ملک میں کم ہو چکا ہے اور ان میںگلبدین حکمت یار بھی شامل ہیں۔
اسی کانفرنس کے لئے افغانستان سے چند خواتین بھی آئی تھیں۔ اُن میں سے ایک نے کہا کہ افغانستان اب طالبان کے دور کی طرف واپس نہیں جا سکتا۔ طالبان کے زمانے میں افغان خواتین موبائل فون کے بارے میں کم معلومات رکھتی تھیں‘ استعمال تو دور کی بات ہے۔ طالبان کے عہد میں پیدا ہونے والی بچیاں اب بالغ ہیں‘ ان میں سیاسی اور سماجی شعور پچھلی نسل سے کہیں زیادہ ہے۔ ان خواتین کے ہاتھوں میں سمارٹ فون ہیں اور وہ سوشل میڈیا کا باقاعدگی سے استعمال کر رہی ہیں۔ وہ دنیا کے حالات سے باخبر ہیں۔انہیں گھر کی چار دیواری تک محدود کرنا اب ناممکن ہوگا۔
افغانستان میں طالبان کی طاقت کو امریکہ نے بھی تسلیم کیا ہے‘ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ طالبان اب بلاشرکتِ غیرے افغانستان پر حکومت نہیں کر سکتے۔ افغان سکیورٹی فورس کی ٹریننگ اور اسلحے پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے دل کھول کر خرچ کیا ہے۔ عام افغان، خواہ وہ مرد ہو یا عورت، آج زیادہ تعلیم یافتہ اور باشعور ہے۔ امریکہ کا مطالبہ مانتے ہوئے طالبان نے وعدہ کیا ہے کہ وہ آئندہ القاعدہ اور داعش جیسی تنظیموں کو اپنے ملک میں پاؤں نہیں جمانے دیں گے۔
قطر میں ہونے والے مذاکرات اور بیجنگ کے چہار فریقی اجلاس کے بعد انڈین ردعمل دلچسپ تھا۔ عمومی تاثر انڈین پرنٹ میڈیا سے یہ ملتا ہے کہ افغان امن پروسیس میں پاکستان ان ہو گیا ہے جبکہ انڈیا کو آؤٹ کر دیا گیا ہے۔ بھدر کمار انڈیا کے ریٹائرڈ سفیر ہیں اور اسلام آباد میں بھی پوسٹڈ رہے ہیں۔ وہ انڈین اور غیر ملکی اخباروں میں تواتر سے لکھتے ہیں۔ ان کا تجزیہ ہے کہ امریکہ کوہ ہندوکش سے جا رہا ہے اور اس خلا کو اب چائنا پُر کرے گا۔ ویسے بھی سی پیک کے حوالے سے افغانستان میں چین کی دلچسپی اور مفادات بڑھے ہیں۔
افغانستان کے حوالے سے بہت سے سوالات اب بھی موجود ہیں۔ کیا طالبان موجودہ آئین کے تحت کام کرنے پر رضامند ہو جائیں گے؟ ستمبر کے الیکشن میں منتخب ہونے والے صدر کی حیثیت کیا ہوگی؟ اس کا امریکہ اور طالبان کے بارے میں رویہ کیا ہوگا؟ اگر امریکہ نے اچانک اپنی فوجیں واپس بلا لیں اور امن معاہدے کا انتظار بھی نہ کیا تو افغانستان کو خانہ جنگی سے کون بچائے گا؟ کیا غیر ملکی فوج کے فوری طور پر جانے سے افغان معیشت پر منفی اثرات مرتب نہیں ہوں گے؟
آئندہ ستمبر میں ہونے والے صدارتی الیکشن متنازع صورت اختیار کر گئے ہیں۔ صدر اشرف غنی چاہتے ہیں کہ الیکشن ستمبر میں ہی ہوں۔ طالبان کی رائے ہے کہ موجودہ حکومت کے زیر نگران کرائے گئے انتخابات آزادانہ اور شفاف نہیں ہو سکتے۔ دوسرا اعتراض یہ ہے کہ الیکشن کی وجہ سے توجہ امن مذاکرات سے ہٹ جائے گی۔ علاوہ ازیں الیکٹ ہونے والے صدر کو ہٹانا نا ممکن ہو جائے گا اور یہ امر کسی بھی پاور شیئرنگ فارمولے کی تشکیل میں مانع ہوگا۔ آپ کو یاد ہوگا کہ دو ماہ قبل وزیر اعظم عمران خان نے کہا تھا کہ الیکشن سے قبل کابل میں عبوری حکومت بننی چاہئے اور افغان حکومت نے اس تجویز کو رد کرتے ہوئے اسے اپنے داخلی معاملات میں دخل اندازی قرار دیا تھا۔ اب الیکشن ستمبر میں ہوںگے اور اشرف غنی بارِ دگر صدارتی منصب کے امیدوار ہوں گے۔ میری اطلاع ہے کہ صدر اشرف غنی نے دورۂ پاکستان کے دوران حکومت پاکستان سے الیکشن کے دوران تعاون کی درخواست کی۔ یہ بھی پتہ چلا کہ ایسی درخواست ہر الیکشن سے قبل کی جاتی ہے۔ جو تعاون طلب کیا جاتا ہے اُس میں سرحد کی سخت نگرانی شامل ہوتی ہے تا کہ انتخابی عمل کو تخریب کار معطل نہ کر سکیں۔ صدر اشرف غنی چونکہ پشتون ہیں لہٰذا عین ممکن ہے کہ حکومت پاکستان سے یہ بھی درخواست کی گئی ہو کہ الیکشن سے قبل امن پسند افغان مہاجرین کو سرحد پار کرنے کی اجازت دی جائے۔ سنا ہے کہ صدر کرزئی بھی اسلام آباد سے اس قسم کا تعاون مانگا کرتے تھے۔ افغان مہاجرین میں اکثریت پشتونوں کی ہے۔ صدر اشرف غنی کا خیال ہے کہ یہ ان کا ووٹ بینک ہے۔
مری والی افغان امن کانفرنس میں افغان سول سوسائٹی میڈیا، سیاست اور انسانی حقوق کا دفاع کرنے والے اور بعض صدارتی امیدوار سب شامل تھے۔ وہاں ایک صاحب نے سوال کیا کہ طالبان کی شرکت کے بغیر یہ اجتماع غیر مکمل ہے۔ میرے خیال میں اگر طالبان کو بھی اس کانفرنس میں بلایا جاتا تو تلخ کلامی کا احتمال تھا۔ اس کانفرنس کے چند روز بعد صدر اشرف غنی نے پاکستان کا دورہ کیا اور خاص طور پر علامہ اقبال کے مزار پر گئے۔ علامہ کی حیثیت پاکستان اور افغانستان کے مابین ایک پُل کی طرح ہے۔ پاکستان تمام افغان بھائیوں کو باور کرانا چاہتا ہے کہ ہمارے لئے پشتون، تاجک‘ ازبک اور ہزارہ سب برابر ہیں۔ ہمارا افغانستان میں کوئی فیورٹ نہیں ہے۔ آپ اپنے فیصلے خود کریں ہمیں وہ قبول ہوں گے۔
بین الاقوامی طاقتوں نے پاکستان کی اہمیت کو تسلیم کرکے دانشمندی کا ثبوت دیا ہے۔ اب انہیں ایران کو بھی اس انٹرنیشنل گروپ کا پانچواں ممبر بنا لینا چاہئے۔ ایران کا افغانستان کیساتھ لمبا بارڈر ہے اور دونوں ممالک تاریخی‘ لسانی اور کلچرل رشتوں میں بندھے ہوئے ہیں۔ ایران کے روایتی طور پر شمالی اتحاد، تاجک اور ہزارہ کمیونٹی سے دوستانہ تعلقات رہے ہیں لیکن پاکستان کی طرح ایران نے بھی ماضی قریب میں اپنی افغان پالیسی پر نظرثانی کی۔ اب اس کے طالبان کے ساتھ بھی روابط ہیں۔ امریکہ کو افغانستان سے نکلنے میں جلد بازی نہیںکرنی چاہئے۔ افواج کی واپسی اور افغان صلح کا پروسیس ایک دوسرے کے ساتھ مربوط رہیں تو بہتر ہوگا۔ پرانی کہاو ت ہے: جو چیز سہج سہج پکے میٹھی ہوتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں