"JDC" (space) message & send to 7575

تا ثریا می رود دیوار کج

براڈ شیٹ کمیشن جو پچھلے ماہ تشکیل پایا تھا،اپنی رپورٹ دے چکا ہے، جسٹس عظمت سعید پر مشتمل اس انفرادی کمیشن نے اپنا کام انتہائی مستعدی سے کیا ہے۔ کمیشن کا کہنا ہے کہ فیڈرل گورنمنٹ کی فائلوں سے اہم ریکارڈ غائب ہے، اغلب گمان یہ ہے کہ ریکارڈ پیپلز پارٹی کی حکومت کے دور میں فائلوں سے نکالا گیا، اسی طرح 2008ء میں براڈ شیٹ کمپنی کو ہونے والی پندرہ لاکھ ڈالر کی ادائیگی کے بارے میں بھی کمیشن نے سوال اٹھائے ہیں۔ آپ کو یاد ہو گا کہ چند سال پہلے جب ن لیگ سے متعلق چند افراد سے زمین کے لین دین، ہائوسنگ سوسائٹی اور کمرشل پلازوں کے بارے میں تفتیش ہو رہی تھی تو لاہور میں ایل ڈی اے کا ریکارڈ جل گیا تھا۔
یادش بخیر آج سے ایک عشرہ قبل لندن میں ہمارے ایک ہائی کمشنر ہوا کرتے تھے، ان دنوں ریاست پاکستان میں اعلیٰ ترین عہدے پر فائز لیڈر کی سوئس بینکوں میں جمع خطیر رقوم کا بڑا ذکر ہوتا تھا۔ یاد رہے کہ براڈ شیٹ کمپنی کو پاکستانی سیاست دانوں کے ملک سے باہر اثاثوں کی معلومات فراہم کرنے کا کام جنرل مشرف کی حکومت نے تفویض کیا تھا۔ حکومت بدلی تو نہ صرف سوئس حکام کو خط نہ لکھا گیا، بلکہ الٹا اسلام آباد اور لندن میں فائلوں سے متعلقہ کاغذات غائب ہو گئے۔ لندن والے ہائی کمشنر خود زیورخ گئے اور ریکارڈ کے کارٹن لے کر آئے۔ سفیر کا عہدہ بڑا با وقار ہوتا ہے۔ صد حیف کہ لندن میں ہمارے سفیر کو یہ کام بھی کرنا تھا۔ بطور سابق سفیر مجھے خود بڑی شرمندگی ہوئی۔
پچھلے دنوں سینیٹ کے الیکشن میں جو کچھ ہوا وہ ہم سب نے دیکھا۔ اگر ہمارے اعلیٰ ترین قانون ساز ادارے کے ایوانِ بالا کا یہ حال ہے تو پھر ہمارا اللہ ہی حافظ ہے۔ یہ سطور چونکہ میں پاکستان ڈے کے قومی اہمیت کے دن رقم کر رہا ہوں لہٰذا احساس زیاں کچھ زیادہ ہی ہے۔ اور یہ بھی ملحوظ خاطر رہے کہ ہمارے ملک کے بانی کی امانت اور دیانت کے دشمن بھی قائل تھے‘ لیکن وہ ہماری اخلاقیات کی بنیاد رکھنے سے پہلے ہی خالق حقیقی سے جا ملے۔
قائد کی رحلت کے ساتھ ہی جائیداد کے جعلی کلیموں کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس قبیح بزنس میں صرف مہاجر ہی شامل نہیں تھے لوکل لوگوں نے بھی حصہ ڈالا اور متروکہ جائیداد کے یونٹ غریب مہاجرین سے اونے پونے خریدنے لگے۔ ہندو اور سکھ پاکستان میں وافر جائیداد چھوڑ کر گئے تھے۔ مال و زر کے لالچ میں کئی لوگوں کے ایمان لڑکھڑا گئے۔ جب ایوب خان کا مارشل لاء لگا تو حکومت نے حکم نامہ جاری کیا کہ جعلی کلیم واپس لیے جائیں، مجھے یاد ہے کہ ہزاروں لوگوں نے اپنے کلیم واپس لیے تھے گویا وہ اپنی بد دیانتی کا اقرار کر رہے تھے‘ مگر اب بد دیانتی کا ناسور اتنی ترقی کر چکا ہے کہ کرپٹ لوگ اقرار نہیں کرتے۔ فارسی کا مشہور شعر ہے؎
خشتِ اول چوں نہد معمار کج
تا ثریا می رود دیوار کج
اگر عمارت کی پہلی اینٹ ہی معمار غلط لگائے تو آسمان تک عمارت ٹیڑھی ہی جائے گی۔ دنیا میں جن ممالک نے متاثر کن ترقی کی ہے، وہاں سب سے پہلے کرپشن پر قابو پایا گیا اور کرپشن کی تعریف اب وسیع تر ہو چکی ہے، کرپشن صرف رشوت لینا ہی نہیں بلکہ کسی شخص کی میرٹ سے ہٹ کر تقرری بھی کرپشن ہے۔ میرٹ پر جاب کا حصول، قانون کی بالا دستی ایمان دار معاشروں کی نشانیاں ہیں۔ کرپشن پر قابو پا کر ترقی کرنے والے ممالک میں سنگا پور سر فہرست ہے، چین میں کرپشن کی سزا موت ہے۔
ترقی یافتہ ممالک میں ایمان داری سے ٹیکس ادا نہ کرنا، بہت بڑا جرم سمجھا جاتا ہے۔ مثلاً برطانیہ میں ٹیکس نہ دینے کی سزا چھ ماہ سے لے کر سات سال تک قید ہے۔ پاکستان میں ٹیکس ادا نہ کرنے کی سزا ایک لاکھ روپیہ یا واجب الادا ٹیکس سے دوگنی رقم ہے۔ ہم جب تک ٹیکس چوروں کو جیل نہیں بھیجیں گے، حکومت کا بجٹ خسارہ ٹھیک نہیں ہو گا۔
پچھلے ہفتے کی بات ہے میرے ایک قریبی دوست نے اسلام آباد میں پلاٹ خریدا، وہ اس بات پر خوش تھے کہ پلاٹ ایسی ہائوسنگ سوسائٹی میں واقع ہے جہاں معاملات قاعدے قانون کے مطابق ہوتے ہیں۔ جس دن پلاٹ ٹرانسفر ہونا تھا میرے دوست کہنے لگے آپ ساتھ چلیں وقت اچھا گزرے گا۔ اس طرح کے بڑے سودوں میں سمجھ دار خریدار قیمت کی ادائیگی عموماً بینک ڈرافٹ یا پے آرڈر سے کرتے ہیں۔ ایک تو کروڑوں روپے کی کیش ہینڈلنگ سے بچ جاتے ہیں دوسرے قانونی لحاظ سے بھی یہ محفوظ طریقہ ہے۔ ہم وقت مقررہ پر سوسائٹی کے دفتر پہنچ گئے۔ بیچنے والے سے ملاقات ہوئی تو نیا مطالبہ سامنے آیا، کہ وہ صاحب کیش پے منٹ پر مصر تھے۔ جب اُن سے استفسار کیا ہے تو پتا چلا کہ یہ پلاٹ مالک نے اپنے انکم ٹیکس ریٹرن کے ساتھ منسلک ویلتھ سٹیٹمنٹ میں ڈکلیئرڈ نہیں کیا تھا۔ میرے دوست قانون کے پابند ہیں، لہٰذا آخری وقت پہ سودا ختم ہو گیا۔ اس سارے قصے کا لب لباب یہ ہے کہ کیا لیڈر اور کیا عوام اکثر لوگ اپنے اثاثے ڈکلیئر کرنے سے کتراتے ہیں۔ اسی لیے حکومت کو بار بار ایمنسٹی سکیمیں لانا پڑتی ہیں۔
میرا بینک اکائونٹ ایک معروف بینک میں ہے، جو اسلام آباد کے مصروف تجارتی مرکز میں ہے۔ ایک روز میں نے بینک منیجر سے کہا کہ آپ کے لیے تو بڑے بڑے اکائونٹ حاصل کرنا مشکل نہیں ہو گا؟ جواب ملا کہ خاصا مشکل کام ہے کیونکہ کئی تاجر تجوریاں گھروں میں رکھتے ہیں تا کہ ٹیکس سے بچا جا سکے۔ بقول سابق چیئر مین سی بی آر شبر زیدی پاکستان میں چار کروڑ ایسے بزنس ہیں جن کے بینک اکائونٹ ہونا چاہئیں لیکن بینک اکائونٹ صرف ایک کروڑ ہیں۔ موصوف نے بہت کوشش کی کہ سگریٹ اور سیمنٹ کی صنعتوں کی پیداوار کو ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کے ذریعے ایمان داری سے ایکسائز ڈیوٹی ادا کرنے پر مجبور کیا جائے لیکن وہ بزنس مافیا سے جیت نہ سکے۔
زیادہ عرصہ نہیں گزرا بلوچستان کے ایک سینئر بیورو کریٹ کے گھر سے کروڑوں روپے کیش نیب نے پکڑے تھے۔ پچھلے دنوں خبر آئی کہ پنجاب پولیس میں ہونے والی بھرتی کے امتحان میں کھلی کرپشن ہوئی۔ جن امیدواروں نے رشوت دی انہیں چھوٹ دی گئی کہ اصل ٹیسٹ کے بعد علیحدہ سے پیپرز کے جواب خوب نقل لگا کر حل کریں۔ اندازہ لگائیں کہ اس طرح بھرتی ہونے والا کانسٹیبل سروس میں آ کر کیا تباہی مچائے گا۔
قائد اعظمؒ نے ہمیں تین اصول بتائے تھے اور وہ تھے: اتحاد، نظم اور یقین۔ اتحاد کا جو حال ہے وہ آپ کے سامنے ہے۔ نظم یعنی ڈسپلن ملاحظہ کرنا ہو تو سڑکوں پر ڈرائیونگ کے آداب دیکھ لیں۔ دھواں چھوڑی ہوئی کاریں اور ٹرک دیکھ لیں۔ نا بالغ بچوں کو کاریں چلاتے دیکھیں۔ کسی شادی یا سیاسی اجتماع میں کھانے کی میز پر چھینا جھپٹی دیدنی ہوتی ہے۔
سندھ کے سینئر وزیر فرماتے ہیں کہ صرف کراچی میں تیرہ سو عمارتیں خلاف قانون بنی ہیں۔ بے نامی اکائونٹ، منی لانڈرنگ، اشٹام پیپرز پر پلاٹوں اور کاروں کی خرید و فروخت، بغیر انسپکشن عمارتوں کو تکمیلی سرٹیفکیٹ کا اجرا اور بے شمار ایسے کام ہیں جو قاعدے قانون سے ہٹ کر ہو رہے ہیں اور ہماری قوم کی بنیادوں کو کھوکھلا کر رہے ہیں لیکن ایک کام اس حکومت میں اچھا ہوا کہ کرپٹ طریقوں کو خوب اجاگر کیا گیا ہے۔ لیکن قومی دیوار اتنی ٹیڑھی ہو چکی ہے کہ اسے سیدھا کرنے کے لیے ایک عمران خان نہیں، درجنوں عمران خان چاہئیں جنہیں واضح مینڈیٹ حاصل ہو اور وہ اپنی انرجی کولیشن حکومت کو بچانے کے بجائے ملک و قوم کی خدمت پر مرکوز کر سکیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں