"JDC" (space) message & send to 7575

عظیم لیڈر شپ‘ شاندار قوم

پچھلے دنوں جرمن کی چانسلر اینجلا مرکل (Angela merkel) نے اعلان کیا کہ وہ اکثریتی پارٹی Christian Democratic union کی لیڈر شپ چھوڑ رہی ہیں۔ اینجلا مرکل 2005ء سے مسلسل حکومت کر رہی ہیں اور چار مرتبہ قومی انتخابات جیتی ہیں۔ ستمبر تک الیکشن کے ذریعے نئے چانسلر کا انتخاب ہو جائے گا۔ جرمنی پاکستان کی طرح فیڈریشن ہے۔ چانسلر کا عہدہ یوں سمجھئے کہ وزیر اعظم کے برابر ہے اور با اختیار ہے۔ مادام مرکل کا کمال یہ ہے کہ سولہ سال اقتدار میں رہنے کے باوجود ان کی مقبولیت کا گراف آج بھی خاصا اونچا ہے۔ جرمنی اقتصادی لحاظ سے یورپ کا سب سے مضبوط ملک ہے۔ جب خاتون چانسلر نے عہدہ چھوڑنے کا اعلان کیا تو تمام جرمن لوگ اپنے گھروں اور دفتروں سے باہر آ گئے اور چھ منٹ مسلسل تالیاں بجا کر اپنی لیڈر کو خراج تحسین پیش کیا۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ اس با کمال خاتون کی مقبولیت کا راز کیا ہے۔ سب سے بڑا سبب میری نظر میں ان کی سادگی ہے۔ وہ اقتدار کا تمام عرصہ اپنے ذاتی اپارٹمنٹ میں مقیم رہیں۔ ان کے گھر میں کوئی خادم یا خادمہ نہیں ہے۔ ایک مرتبہ ان سے پوچھا گیا کہ روزانہ ایک ہی طرح کے کپڑے کیوں پہنتی ہیں تو جواب ملا کہ میں سرکاری ملازمہ ہوں کوئی فیشن ماڈل نہیں۔ واشنگ مشین چلانے کی ذمہ داری ان کے شوہر کی ہے مگر کپڑے خود استری کرتی ہیں۔ کھانا بھی خود پکاتی ہیں۔ ان کے گھر کے باہر صرف ایک پولیس آفیسر سکیورٹی کے لیے موجود ہوتا ہے۔
اور اب آتے ہیں ان کے کام کی طرف۔ وہ بے حد مستعد اور محنتی خاتون ہیں۔ ان کے ہم کار کہتے ہیں کہ مادام مرکل کے ساتھ کام کرنا اٹامک پاور پلانٹ پر کام کرنے کے مترادف ہے، یعنی ہر وقت چاق و چوبند رہنا پڑتا ہے۔ ان کے وزراء کہتے ہیں کہ چانسلر مرکل کے ساتھ میٹنگ کے لیے بڑی تیاری کی ضرورت ہوتی ہے، کیونکہ وہ ہر وزارت کے چھوٹے سے چھوٹے امور پر گہری نظر رکھتی ہیں، اور وزراء سے بڑے ذہین سوال پوچھ کر انہیں حیران کر دیتی ہیں۔ محترمہ سیاست میں داخل ہونے سے پہلے سائنس دان تھیں۔ ان کے بارے میں جرمن میڈیا میں لکھا گیا کہ یہ ایک خاتون لاکھوں مرد حضرات کے برابر ہے۔
1945 میں جرمنی ایک شکست خوردہ قوم تھی۔ معیشت تباہ حال تھی۔ عالمی جنگ کی فاتح اقوام یعنی امریکہ، برطانیہ، فرانس اور سوویت یونین نے جرمنی کے حصے بخرے کئے۔ سوویت پارٹ ایسٹ جرمنی کہلایا جبکہ باقی تین حصوں کو مجموعی طور پر مغربی جرمنی کہا گیا۔ ایسٹ جرمنی میں سوشلسٹ نظام لاگو کیا گیا جبکہ مغربی حصے میں آزاد معیشت یعنی سرمایہ دارانہ نظام اور جمہوریت متعارف کرائے گئے۔ بہت جلد مغربی جرمنی خوشحالی کی جانب گامزن ہو گیا جبکہ ایسٹ جرمنی میں اقتصادی ترقی کی رفتار سست تھی۔ لوگ ایسٹ جرمنی سے بہتر معیار زندگی کے لیے مغربی جرمنی جانے لگے۔ انہیں روکنے کے لیے 1961 میں دیوار برلن بنائی گئی۔
تو بات ہو رہی تھی کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد جرمنی کی معیشت کا برا حال تھا۔ اس پر مستزاد یہ کہ بڑی تعداد میں جرمن شہری دوسرے ممالک سے وطن واپس آ رہے تھے۔ ان میں بڑی تعداد جنگی قیدیوں کی تھی۔ سائنس اور ٹیکنالوجی میں جرمنی پیش پیش رہا ہے۔ جنگ کے فوراً بعد جرمنی پر دو سال ریسرچ کرنے پر پابندی لگی۔ 1948 میں مارشل پلان کے تحت اقتصادی امداد ملنا شروع ہوئی تو حالات کچھ بہتر ہوئے۔
جرمنی کی خوش قسمتی یہ رہی ہے کہ اسے ایک کے بعد ایک اچھے سے اچھا لیڈر ملا اور یہ تسلسل ہنوز قائم ہے۔ شروع میں چانسلر کونارڈ ایڈنائر (Konard adenauer) ملے جو بڑے دور اندیش تھے۔ ان کا وژن یہ تھا کہ سب پرانی دشمنیاں بھلا کر نئے سرے سے خارجی تعلقات استوار کیے جائیں۔ انہوں نے امریکہ، برطانیہ اور فرانس سے تعلقات میں گرم جوشی پیدا کی۔ جرمنی کو یورپی یونین اور نیٹو میں لے گئے۔ اقتصادی ترقی کی رفتار تیز ہوئی۔ مغربی جرمنی ترقی یافتہ ممالک میں شمار ہونے لگا۔ 1960ء میں جب پاکستان اور انڈیا کے مابین ورلڈ بینک کی وساطت سے سندھ طاس معاہدہ ہوا تو پاکستان میں منگلا اور تربیلا ڈیم بنانے کے لیے متمول ممالک کا ایک کنسورشیم بنایا گیا تا کہ ان منصوبوں کے لیے امداد جمع کی جائے۔ جرمنی اس کنسورشیم کا ممبر تھا اور اس نے پاکستان کی مالی مدد کی۔ اندازہ لگائیے کہ پندرہ سال پہلے کی تباہ حال قوم 1960 میں پاکستان کی مالی معاونت کر رہی تھی۔
چانسلر ولی برانٹ (Willy Brandt) ماڈرن جرمنی کا ایک اور بڑا نام ہے۔ یہ 1969 سے 1974 تک چانسلر رہے۔ انہوں نے ایسٹ جرمنی اور مشرقی یورپ کے دیگر ممالک کے ساتھ صلح جوئی کی پالیسی اختیار کی۔ اس پالیسی کو Ostpolitik یعنی مشرقی سیاست کا نام دیا گیا۔ جرمنی کے دونوں حصوں کے درمیان رابطے بحال ہوئے۔ اشتراکی جرمنی کے لوگوں کو شدید احساس ہوا کہ مغربی جرمنی کے لوگوں کا معیار زندگی بہت بہتر ہے۔ وہ انڈے اور ڈبل روٹی لینے کے لیے قطاروں میں کھڑے نہیں ہوتے اور انہیں اظہارِ رائے کی آزادی بھی ہے۔ اپنے ہمسایہ ممالک اور خاص طور پر ایسٹ جرمنی سے روابط استوار کرنے پر ولی برانٹ کو 1971ء میں نوبیل امن انعام دیا گیا۔ ولی برانٹ کا شاندار کارنامہ یہ تھا کہ پولینڈ اور جرمنی کے درمیان بارڈر تنازع پُر امن طریقے سے حل کر لیا گیا۔
چانسلر ہیلمٹ کوہل (Helmut kohl) 1982 سے 1998 تک حکمران رہے۔ یہ پیریڈ اس لحاظ سے بے حد اہم ہے کہ سرد جنگ کا خاتمہ ہوا۔ دیوار برلن گرا دی گئی۔ جرمنی پھر سے متحد ہوا۔ مشرقی جرمنی کا وجود پُر امن طریقے سے ختم ہوا۔ جرمن قوم کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ اس میں ماضی کی تلخیوں کو بھلا کر مستقبل پر فوکس کرنے کی شدید خواہش موجود ہے۔ جرمنی میں یہودیوں پر ہونے والے ظلم اور یہودیوں میں جرمن قوم کے لیے نفرت تاریخ کا حصہ ہیں‘ لیکن آج جرمنی اور اسرائیل کے تعلقات دوستانہ ہیں۔
جرمنی میں تیس لاکھ ترک آباد ہیں، پاکستانی بھی خاصی تعداد میں ہیں۔ اور آپ کو یاد ہو گا کہ ماضی قریب میں جرمنی نے شام کے دس لاکھ مہاجرین کو پناہ دی۔ زیادہ متاثر کن بات یہ ہے کہ شامی مہاجرین کو جرمنی میں رہنے کی اجازت تب دی گئی جب یورپ میں دائیں بازو کی نیشنلسٹ پارٹیاں ابھر رہی تھیں اور کوئی بھی یورپی ملک شامی باشندوں کو لینے کے لیے تیار نہ تھا۔
2013ء میں جاپان کے ایک ایٹمی پاور سٹیشن میں حادثہ ہوا تو جرمنی میں اس مسئلے پر سوچ بچار ہونے لگی۔ جرمنی میں بجلی کی اچھی خاصی مقدار ایٹمی ذرائع سے بن رہی تھی۔ چانسلر اینجلا مرکل کی حکومت نے فیصلہ کیا کہ آئندہ دس سال میں تمام ایٹمی پاور سٹیشن ختم کر دیئے جائیں گے۔
چند سال پہلے یونان شدید اقتصادی مسائل کا شکار ہوا۔ قرضے قومی پیداوار سے زائد ہو گئے۔ یونان کی مدد کے سلسلے میں یورپ میں شدید اختلافات تھے۔ چانسلر مرکل نے درمیانہ راستہ دکھایا کہ یونان کی مالی مدد کی جائے مگر کڑی شرائط کے ساتھ۔ جرمنی کی رائے کو پورے یورپ نے قبول کیا۔
اینجلا مرکل نے جرمنی کو ایمان دار، مخلص اور قابل لیڈر شپ دی۔ انہیں معلوم تھا کہ جرمنی میں آبادی کی گروتھ منفی ہے، لہٰذا پڑھے لکھے شامیوں کی بڑی تعداد کو قبول کیا۔ کل یہ لوگ جرمنی کی ترقی میں ہراول دستہ ہوں گے، اور ہاں سب سے اہم بات یہ کہ 2005ء کے بعد اینجلا مرکل نے ایک بھی پراپرٹی نہیں خریدی۔ اسے کہتے ہیں عظیم لیڈر شپ اور شاندار قوم۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں