"KSC" (space) message & send to 7575

خادم اعلیٰ کیا جواب دیں گے؟

را ت کے سائے جتنے بھی گہرے ہوں‘ کیا اس سے کچھ فرق پڑتا ہے؟ کہ روشنی ہمیشہ تاریکی کی کوکھ سے جنم لیتی ہے۔ تاج محل کے حسن سے بھی زیادہ دلکش قوموں کے شعور کی تعمیر ہے۔ مگر کیا کریں کہ خادم اعلیٰ خود کو شیر شاہ سوری ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور اس سچ سے انکاری ہیں کہ پتھروں، سڑکوں اور عمارتوں کی تعمیر سے قومیں تعمیر نہیں ہو تیں۔ میڈیکل انٹری ٹیسٹ دینے والے طلباء بھی حوصلہ رکھیں کہ صبح ضرور ہو گی۔
آج جو مقدمہ عوام کے سامنے رکھ رہا ہوں‘ یہ چند ہزار طالب علموں کا نہیں پاکستان کا مقدمہ ہے‘ جو وزیر اعلیٰ پنجاب کی عدالت میں گزشتہ بیس برسوں سے چل رہا ہے‘ مگر کوئی شنوائی نہیں ہو رہی۔ ہر سال ہزاروں طالب علم تمام تر قابلیت اور ذہانت کے باوجود فرسودہ اور کرپٹ میڈیکل انٹری ٹیسٹ کی بھینٹ چڑھ رہے ہیںُ مگر کسی کو کوئی پروا نہیں۔ طلبا ایف ایس سی میں پوزیشنز لیتے ہیں تو شہباز شریف انہیں گولڈ میڈل دیتے ہیں، گارڈ آف آنر پیش کرتے ہیں اور کبھی کبھار بیرونی دوروں پر بھی بھیج دیتے ہیں۔ حالات کا ستم دیکھیں کہ جب یہی پوزیشن ہولڈرز میڈیکل انٹری ٹیسٹ دیتے ہیں تو کرپشن کے اژدھا کے سامنے بازی ہار جاتے ہیں‘ اور وزیر اعلیٰ دور کھڑے ان کی شکست پر تالیاں بجاتے ہیں۔ یہ کیسا نظام ہے جہاں ایک ہی سلیبس کی دو دو بار فیس اور امتحان لیے جاتے ہیں؟ یہ کیسا امتحانی سسٹم ہے جس کے تحت ایک بار سٹوڈنٹ کو بورڈ میں پہلی پوزیشن‘ اور دوسری بار فیل کیا جاتا ہے؟ میڈیکل انٹری ٹیسٹ اتنا ہی شاندار ہے تو پنجاب حکومت ایف ایس سی کا امتحان ختم کیوں نہیں کر دیتی اور اگر ایف ایس سی کرنے والا بچہ خادم اعلیٰ کی آنکھ کا تارہ ہوتا ہے تو انٹری ٹیسٹ کا جواز کیا ہے؟
میڈیکل انٹری ٹیسٹ شہباز شریف نے 1998ء میں شروع کیا‘ جس کی انتظامیہ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز ہے‘ جو کرپشن، اقربا پروری اور دو نمبری کی آماجگاہ ہے، جہاں ایک ایک پرچہ بیس بیس لاکھ میں فروخت کیا جاتا ہے۔ اس بار بھی ایسا ہی ہوا۔ بیس اگست کو ہونے والا انٹری ٹیسٹ کا حل شدہ پرچہ سوشل میڈیا پر آ گیا۔ انکوائری ہوئی تو وائس چانسلر ڈاکٹر جنید سرفراز کو پرچہ لیک ہونے اور کرپشن کے الزامات کے باعث عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ انٹری ٹیسٹ کو لے کر خادم اعلیٰ کی منطق نہایت مضحکہ خیز ہے۔ اگر ایف ایس سی میں نقل ہو رہی ہے تو سوال پھر بھی حکومتوں پر اٹھتا ہے، آپ اپنا سسٹم ٹھیک کیوں نہیں کرتے؟ اگر یو ایچ ایس میں کرپشن ہے تو اس سے کیسے ثابت ہوتا ہے کہ یہ ٹیسٹ شفاف ہے؟
دوہرے امتحان سے پنجاب حکومت کی تجوریاں تو بھرتی ہیں مگر غریب اور متوسط طبقے کے طالب علم پر کیا گزرتی ہے‘ یہ وہی جانتا ہے۔ چالیس پچاس ہزار فیس کی مد میں کیسے دیتا ہے یہ اندھا اور بے رحم نظام نہیں جان سکتا۔ یہی نہیں ٹیسٹ سے پہلے ٹیوشن مافیا کی چاندی ہوتی ہے، وہ بھی غریب طلبا کے ارمانوں سے خوب کھیلتے ہیں۔ ٹیسٹ کی تیاری کم اور مال زیادہ بناتے ہیں۔ وزیر اعلیٰ کیا جانیں کہ ٹیسٹ کی تیاری کے لیے بچے اور ان کے والدین کن کن کٹھن مراحل سے گزرتے ہیں۔ کوئی لیہ سے لاہور آتا ہے‘ تو کوئی سمندری سے فیصل آباد فیملی سمیت منتقل ہوتا ہے۔ کسی کو شیخوپورہ جیسے شہر میں تیاری کے لیے اکیڈمی نہیں ملتی تو کوئی چکوال سے راولپنڈی جاتا ہے۔ اپنا گھر چھوڑنے کا غم کیا ہوتا ہے کوئی انہیں سے پوچھے۔ اتنی مشکلات جھیلنے کے بعد جب انٹری ٹیسٹ کا رزلٹ آتا ہے تو کوئی طالب علم 0.6 سے پاس نہیں ہوتا تو کوئی 0.3 سے فیل ہو جاتا ہے۔ فیل وہ اس لئے نہیں ہوتے کہ وہ قابل نہیں ہیں بلکہ اس لیے ہوتے ہیں کہ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز میں مبینہ کرپشن ہے، پیپر پیسے والوں کو بیچ دیا جاتا ہے یا یہ آئوٹ آف سلیبس ہوتا ہے۔
اس بار مجھے ٹیسٹ دینے والے کچھ طلبا سے بات کرنے کا اتفاق ہوا۔ ایف ایس سی میں ٹاپ پوزیشن ہولڈر مشعل نے بتایا کہ میرا تعلق کمالیہ سے ہے۔ چونکہ وہاں میڈیکل انٹری ٹیسٹ کی کوئی اکیڈمی نہیں‘ اس لئے مجھے اور میری فیملی کو ٹیوشن لینے کے لیے لاہور شفت ہونا پڑا۔ میرے پاپا کو اپنی ہوم پریکٹس چھوڑنی پڑی۔ میرے خاندان نے میر ے لیے قربانی دی مگر میں ڈاکٹر نہ بن سکا اور انٹری ٹیسٹ کے کرپٹ سسٹم کی بھینٹ چڑھ گیا۔
ایف ایس سی میں ٹاپ کرنے والے ذوالقرنین نے وزیر اعلیٰ پنجاب سے سوال کیا کہ میری کارکردگی پر آپ نے خود مجھے چار میڈلز دئیے مگر میں ڈاکٹر اس لیے نہیں بن سکا کہ ایف ایس سی میں ٹاپ پوزیشن لینے کے باوجود میں انٹری ٹیسٹ میں 0.6 فیصد سے رہ گیا۔ کیا ان سرٹیفکیٹس کو میں کوڑے میں پھینک دوں؟ کیا میں کبھی ڈاکٹر بن سکوں گا؟
فلاسفر نے درست کہا ہے کہ کسی قوم کو تباہ کرنے کے لیے یہ ضروری نہیں ہوتا کہ آپ میزائل یا ایٹم بم چلائیں، آپ اس ملک کے تعلیمی نظام کو نیچے لے آئیں‘ وہاں پر نقل کا نظام رائج کر دیں تو پورا سسٹم خود بخود تباہ ہو جائے گا۔ خادم اعلیٰ کیوں نہیں سوچتے کہ پرچے خرید کر ڈاکٹر بننے والوں کے ہاتھوں سے مریض جیتا نہیں مرتا ہے‘ اور جس ناقص انٹری ٹیسٹ سے آپ انجینئرز لے کر آتے ہیں‘ ان کی بنی ہوئی بلڈنگز اپنے قدموں پر قائم نہیں رہتیں اور وقت سے پہلے گر جاتی ہیں۔ تعلیم کے حوالے سے پنجاب حکومت کا کوئی وژن نظر نہیں آتا، ہاں البتہ وہ کام ضرور ترقی کرتا ہے جس میں سریا استعمال ہوتا ہے۔ طالب علم قوموں کی ترقی کے ضامن ہوتے ہیں۔ ان کا خیال رکھنا حکومت وقت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ ان بے چاروں کے پاس اتنے پیسے نہیں ہوتے کہ یہ آکسفورڈ یا کیمبرج جا کر پڑھ سکیں، جیسے وزیر اعلیٰ کے خاندان کے چشم و چراغ جاتے ہیں۔ اگر یہ بچے یہاں رہ کر آگے بڑھنا چاہتے ہیں تو جاہلانہ قوانین بنا کر ان کا راستہ کیوں روکا جا رہا ہے؟
حکومت پنجاب کے ترجمان نے اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ یقینا یہ سسٹم کرپٹ اور خراب ہے۔ اگر ایسا ہی ہے تو پھر اس سسٹم کے شکار تمام طالب علموں کو حکومت پنجاب پر مقدمہ قائم کر دینا چاہیے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کو ظلم کرنے کا مینڈیٹ ہرگز نہیں ملا۔ میڈیکل انٹری ٹیسٹ کے کرپٹ سسٹم کے ہتھے چڑھنے والے بچے آج ذہنی طور پر ٹوٹ چکے ہیں۔ ان کے خواب بکھر چکے ہیں۔ وہ جس اعصابی دبائو سے گزر رہے ہیں اس کا احاطہ کرنا ہمارے دائرہ احساس سے بھی باہر ہے۔
حیران ہوں کہ ان بچوں کے ووٹ سے اقتدار میں آنے والے خادم اعلیٰ سکون کی نیند سوتے کیسے ہوں گے؟ دنیا کی کوئی عدالت یہ دعویٰ نہیں کر سکتی کہ اس نے ہر نفس سے انصاف کیا۔ اسی لیے ایک عدالت روز محشر لگے گی کہ وہاں نہ گواہ خریدے جا سکیں گے اور نہ ہی ملزم کا سرکار ی دبائو کسی کام آئے گا۔ خادم اعلیٰ اپنی خیر منائیں کہ روز محشر یہی عدالت ہو گی‘ یہی طالب علم ہوں گے اور صرف انصاف ہو گا۔ مظلو م کے ہاتھوں میں ظالم کا گریبان ہو گا۔ خادم اعلیٰ تیاری کر رکھیں کہ روز محشر کیا جواب دیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں