"KMK" (space) message & send to 7575

مسافر کے قدم رک نہیں سکتے

کورانڈا ایک چھوٹا سا لیکن تمام تر سیاحتی دلچسپیوں سے بھرپور اور قدرتی حسن سے مالا مال قصبہ ہے۔ چھوٹی سے پہاڑی کی چوٹی پر واقع یہ قصبہ ڈائنٹری رین فاریسٹ کے ایک سرے پر بیرن گارج نیشنل پارک کے وسط میں ہے۔ ابتدا میں یہ قصبہ اس علاقے میں اگائی جانے والی کافی اور مالٹے کے باغات کا انتظامی مرکز تھا لیکن اب اس کی وجہ شہرت آسٹریلیا کی قدیم حیاتِ جنگلی‘ ایبوریجنیز تہذیب اور اقوامِ متحدہ کی جانب سے ثقافتی ورثہ قرار دیے جانے والا برساتی جنگل ہے۔ درمیان سے گزرتا ہوا دریائے بیرن قدرتی حسن سے مالا مال اس قصبے کی خوبصورتی کو مزید چار چاند لگا دیتا ہے۔
ڈاکٹر تصور اسلم اور میں نے رات کو ہی یہ فیصلہ کر لیا کہ ہم کورانڈا جاتے ہوئے صبح کورانڈا سینک (scenic) ریلوے کی ٹرین سے جائیں گے جبکہ واپسی سکائی ٹرین (کیبل کار) کے ذریعے کریں گے۔ ساڑھے سات کلومیٹر لمبائی پر مشتمل اس سکائی ٹرین کی کیبل بیرن گارج رین فاریسٹ اور دریائے بیرن کے اوپر سے گزرتی ہے۔
کورانڈا ریلوے سٹیشن پر اتر کر پہلے ہم نے قصبے کا چکر لگانے کا قصد کیا اور سیڑھیاں چڑھ کر اوپر آ گئے۔ سامنے میدان میں بس ٹرمینل تھا۔ بائیں طرف سکائی ٹرین سٹیشن اور دائیں طرف اوپر جاتی ہوئی قصبے کی مرکزی سڑک کونڈو سٹریٹ تھی۔ اس کے بائیں کنارے پر ریسٹورنٹس اور ہوٹل جبکہ دائیں طرف مقامی دستکاریوں‘ ایبوریجنیز آرٹ اور دیگر یاد گاری اشیا سے لدی ہوئی دکانوں کی ایک طویل قطار تھی جن کا سامان پاکستان کی دکانوں کی مانند فٹ پاتھ تک پھیلا ہوا تھا مگرمچھ اور کینگرو کی کھال سے بنی ہوئی اعلیٰ درجے کی مصنوعات راہ چلتے مسافروں کو رکنے پر مجبور کر رہی تھیں۔ چھوٹی چھوٹی نمائشی اشیا اور اس علاقے سے تعلق رکھنے والی چیزوں کے تعارفی سووینیئرز‘ عام طور پر ریفریجریٹروں پر چپکانے والی مشہور مقامات کی مقناطیسی تصاویر اور جیب یا کالر پر لگانے والی پنیں۔ شہرت یافتہ عمارتوں اور یاد گاروں کے منی ایچر ماڈلز‘ غرض بالکل معمولی لیکن خوبصورتی اور مہارت سے بنائی گئی اشیا جن کی غالب اکثریت چین سے بن کر آئی ہوئی تھی۔ میں کئی بار آرٹ اور ثقافت کے محکموں سے وابستہ افسران کو کہہ چکا ہوں کہ پاکستان کے تاریخی‘ ثقافتی ورثے اور قدرتی حسن سے دنیا کو آگاہ کرنے کیلئے اعلیٰ قسم کے سووینیئرز اور ماڈلز از قسم مینارِ پاکستان‘ عالمگیری دروازہ‘ مزار رکن الدین عالم‘ مارخور‘ آئی بیکس‘ بارہ دری‘ حضوری باغ‘ شالا مار باغ‘ موہنجودڑو اور لاہور عجائب گھر میں پڑے ہوئے عالمی شہرت یافتہ اور بدھ مذہب کے پیرو کاروں کےلئے ایک نایاب شے "فاسٹنگ بدھا" کا منی ایچر بنا کر پاکستان آنےوالے سیاحوں اور سرکاری مہمانوں کو پیش کیا جا سکتا ہے۔ اچھے معیار کا خوبصورت اور پائیدار سووینیئر جب تک کسی کی دفتری میز‘ گھر کی کارنس یا ڈرائنگ روم کی سائیڈ ٹیبل پر موجود رہے گا‘ وہ پاکستان کی خاموش نمائندگی کرتا رہے گا مگر کبھی کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ ایک آدھ افسر نے نیم دلی سے کوشش بھی کی تو نمونہ اتنا بھدا‘ بدصورت اور بدشکل تھا کہ توبہ ہی بھلی۔ اگر یہ معمولی سا کام اتنا ہی مشکل ہے اور اسے خود کرنا ممکن دکھائی نہیں دیتا تو سوئی‘ تالے اور پیچ کس وغیرہ کی طرح اسے بھی چین سے بنوا کر منگا لینے میں بھلا کیا شرم کی بات ہے؟
میں اور ڈاکٹر تصور اسلم ایک چمڑے کی دستکاری کی دکان میں چلے گئے۔ دکان بہت بڑی نہیں تھی مگر صرف کینگرو اور مگرمچھ کی کھالوں سے بنی ہوئی اَن گنت اشیا سے بھری پڑی تھی۔ دونوں جانوروں کی پوری پوری کیمیائی عمل سے محفوظ کی گئی کھالوں کے علاوہ بٹوے‘ لیڈیز ہینڈ بیگ‘ بریف کیس‘ جوتے‘ ہیٹ‘ دستانے‘ سفری بیگ‘ جیکٹیں اور مگرمچھ کی کھال سے بنی ہوئی پیٹیاں (بیلٹ) مگرمچھوں کے ناخنوں سمیت پنجوں کے ساتھ بارہ تیرہ انچ لمبا بید لگا کر کمر پر خارش کرنے والی چھڑیاں اور انہی پنجوں کےساتھ سٹیل کا ہُک لگا کر بنائی گئی بوتل کھولنے والی چابیاں‘ ایک ڈیڑھ فٹ سے لے کر آٹھ دس فٹ تک لمبے حنوط شدہ مگرمچھ اور انکے سر‘ گویا دکان نہ تھی ایک عجائب خانہ تھا جس کو دیکھنے کیلئے کسی کا بھی دل مچل اُٹھے۔ مسافر نے اس حیرت کدے کو بار بار دیکھا اور اسے دل کے نہاں خانوں میں محفوظ کرنے کےساتھ دکاندار سے اجازت لے کر موبائل فون کے کیمرے میں بھی محفوظ کیا۔ مگرمچھ اور کینگرو آسٹریلیا کی پہچان ہیں‘ بالخصوص رینگنے والے جانداروں میں دنیا میں سب سے بڑے سالٹ واٹر (کھارے پانی والے) مگرمچھ آسٹریلیا کے ساحلی علاقوں کےساتھ ساتھ بکثرت پائے جاتے ہیں۔ حیاتِ جنگلی کی صورتحال کی نگرانی کرنے والے اقوام متحدہ کے ادارے انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر (IUCN) نے اسکے مختلف درجے طے کر رکھے ہیں۔ آسٹریلیا میں 1970ءکے بعد مگرمچھ IUCN کے Least Concern یعنی جسے دور تک معدومی یا نایابی کا خدشہ در پیش نہیں‘ کے درجے میں شامل ہیں۔ ادھر ہمارے ہاں کبھی فریش واٹر مگرمچھ اور گھڑیال دریاﺅ ں‘ جھیلوں اور نہروں وغیرہ میں بکثرت نہ بھی سہی تو کافی تعداد میں ہوتے تھے مگر پھر دیگر جانوروں کی طرح ان کی بھی شامت آ گئی۔ مگرمچھ نایاب اور گھڑیال معدوم ہو گئے۔ اب لے دے کر منگھو پیر کے مزار پر ایک گندے سے تالاب میں چند مگرمچھ ہیں جو مگرمچھ ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ منگھو پیر کی جوئیں ہونے کی نسبت سے بچ گئے ہیں۔ اگر یہ پیر صاحب کی مقدس جوئیں نہ ہوتیں تو اب تک ملکِ عدم سدھار چکی ہوتیں۔ قارئین معاف کیجئے گا‘ اس مسافر کا دامن کورانڈا کے بازار کی رونق نے تھام لیا مگر مسافر کو بہرحال رین فاریسٹ (برساتی جنگل) تک جانے سے تادیر نہیں روکا جا سکتا۔ مسافر کے قدم سست تو پڑ سکتے ہیں مگر رک نہیں سکتے۔
رین فاریسٹ کے درمیان سے گزرتے ہوئے دریائے بیرن میں موٹر بوٹ کا ناخدا ان تمام خوبیوں اور اوصاف سے مالا مال تھا جو کسی گائیڈ کے لیے درکار ہیں۔ باتونی‘ اپنے سبجیکٹ سے پوری طرح آگاہ‘ خوش مزاج‘ علم الکلام کے لوازم سے لیس اور عقابی آنکھ سے مسلح۔ بوٹ ابھی پوری طرح روانہ بھی نہیں ہوئی تھی کہ اس کی زبان اور نظر کی خوبیاں ہم پر کھلنے لگیں۔ بوٹ نے ابھی رفتار بھی نہیں پکڑی تھی کہ اس نے دریا کے درمیان ایک چھوٹے سے پتھریلے ٹاپو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ دیکھیں آپ کے سامنے ایک فریش واٹر مگرمچھ دھوپ سینک رہا ہے اور فوٹو سیشن کے لیے اپنے تئیں تیار بیٹھا ہے‘ اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ اسے کتنی پذیرائی بخشتے ہیں۔ ہمیں وہ مگرمچھ اس کے بتانے کے باوجود بمشکل دکھائی دیا۔ اسے پتھر پر اطمینان اور سکون سے پوز مار کر بیٹھا دیکھ کر مجھے برسوں پہلے دیوسائی کے میدان میں دھوپ سینکتے ہوئے شرمیلے مارموٹ ( مُوشِ خُرمائی) یاد آ گئے۔ گلہری اور سگ آبی (Beaver) سے مشابہ مارموٹ دیوسائی کے میدان میں گھومتے پھرتے اور پتھروں پر آرام سے دھوپ سینکتے دکھائی دیتے ہیں لیکن ایسے شرمیلے کہ جونہی آپ نے گاڑی روک کر کیمرہ یا فون نکالیں‘ یکدم سے غائب ہو جاتے ہیں۔ میری بیٹی نے اس شرمیلے اور خوبصورت جانور کی صاف سی تصویر لینے کی بہت کوشش کی مگر ناکام رہی۔ سوشر جھیل سے تھوڑا پہلے ہماری گاڑی کے ڈرائیور نے بریک لگائی‘ کیا دیکھتے ہیں کہ ایک مارموٹ کچی سڑک کے کنارے کے بالکل ساتھ پڑے پتھر پر فوٹو سیشن کے انداز میں پوز مار کر بیٹھا ہے۔ چند فٹ پر کھڑی گاڑی کی کھڑکی سے ہم نے اس مارموٹ کی درجن بھر تصاویر لے کر جیسے ہی خوشی کا سانس لیا وہ لمحہ بھر میں غائب ہو گیا‘ تاہم دھوپ تاپتے ہوئے مگرمچھ نے ہماری آمد کی رتی برابر پروا نہ کی‘ وہ دھوپ سے اور ہم اس کی تصاویر سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ جانوروں کو جان کی امان کا یقین ہو تو وہ مطمئن بیٹھے رہتے ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں