دس گیارہ سال پہلے جب میں ادھر آیا تھا تو اس ایئر پورٹ کا نام لوئی ویل سٹینڈی فورڈ ایئر پورٹ تھا اور محمد علی حیات تھا۔ اب جب اس ایئر پورٹ پر اترا تو اس کا نام لوئی ویل محمد علی انٹرنیشنل ایئر پورٹ ہے اور محمد علی اپنے خالقِ حقیقی کے ہاں حاضر ہو چکا ہے۔ مجھے ایئر پورٹ پر اُتر کر سامان لینے والی بیلٹ تک جاتے ہوئے منیر نیازی کی نظم ''ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں‘‘ بہت یاد آئی۔ محمد علی کی یادوں کی مانند یہ نظم بھی دل پر رقم ہے اور نذرِ قارئین ہے:
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں: ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں ہر کام کرنے میں؍ ضروری بات کہنی ہو‘ کوئی وعدہ نبھانا ہو؍ اُسے آواز دینی ہو‘ اُسے واپس بلانا ہو؍ ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں؍ مدد کرنی ہو اُس کی‘ یار کی ڈھارس بندھانا ہو؍ بہت دیرینہ رستوں پر کسی سے ملنے جانا ہو؍ ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں؍ بدلتے موسموں کی سیر میں دل کو لگانا ہو؍ کسی کو یاد رکھنا ہو‘ کسی کو بھول جانا ہو؍ ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں؍ کسی کو موت سے پہلے کسی غم سے بچانا ہو؍ حقیقت اور تھی کچھ اس کو جا کے یہ بتانا ہو؍ ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں ہر کام کرنے میں
میں لوئی ویل میں ہوں مگر کبھی کبھی تو اس تاخیرکا ملال جان کو آ جاتا ہے۔ دس گیارہ سال قبل جب میں لوئی ویل اپنے انہی دوستوں بابر چیمہ‘ اسد اسماعیل اور فرید بھٹو کے پاس آیا تو ادھر آنے اور دوستوں سے ملنے سے کہیں زیادہ طلب محمد علی سے ملنے کی تھی جو پارکنسن جیسی لا علاج بیماری کے ساتھ برسوں سے ایسی بہادری سے نبرد آزما تھا کہ دنیا اس کی سخت جانی اور قوتِ مدافعت پر حیران تھی۔ میں چند روز قبل دنیا کے سخت جان اور سب سے زیادہ قوتِ مدافعت رکھنے والے باکسرز کی مرتب کردہ فہرست دیکھ رہا تھا تو اس میں محمد علی دنیائے باکسنگ کی تاریخ کا پانچواں سب سے سخت جان باکسر قرار پایا تھا۔ اپنے پیشہ ورانہ کیریئر کے دوران جہاں اس نے اپنے رقص‘ فٹ ورک‘ ہُک‘ جیب(Jab) اور پھرتی سے فتوحات سمیٹیں وہیں اس نے اپنے حریفوں کو غچہ دے کر ان کے وار خطا کرنے کے ساتھ ان کے مکوں کو جس طرح اپنے جسم پر برداشت کیا وہ اسے دنیا کے عظیم ترین قوتِ برداشت والے باکسرز میں بھی نہایت اونچے مقام پر فائز کرتا ہے۔ کنشاسا (زائرے) میں جارج فورمین سے مقابلے کے ابتدائی آٹھ راؤنڈ اس کی قوتِ برداشت اور سخت جانی کی ایسی مثال ہیں کہ باکسنگ کی تاریخ ایسی کسی دوسری مثال سے خالی ہے ‘جس میں ایک باکسر اپنے مقابل سے کامل آٹھ راؤنڈ تک اس طرح پٹے کہ وہ باکسر کم اور باکسنگ کی تربیت کے دوران استعمال ہونے والا سینڈ بیگ زیادہ لگ رہا ہو اور پھر وہ تتلی کی طرح رقص کرتے ہوئے ایک دم اپنے کارنر سے نکلے اور محض تین مکوں کا ایسا شاندار کمبی نیشن مارے کہ شہد کی مکھی کا ڈنک یاد آ جائے اور جارج فورمین جیسا حریف‘ جسے باکسنگ کی تاریخ کے سب سے زور دار اور تباہ کن مکے مارنے میں پہلے نمبر کا باکسر قرار دیا جاتا ہے‘ زمین چاٹ لے۔ یہ دو بار ہیوی ویٹ چیمپئن رہنے والے ''بگ جارج‘‘ کا اپنے 81 مقابلوں میں پہلا اور آخری ناک آؤٹ تھا جو اسے محمد علی کے ہاتھوں نصیب ہوا۔
محمد علی دنیائے باکسنگ کے ان معدودے چند باکسرز میں سے ایک ہے جنہوں نے باکسنگ رِنگ میں طویل عرصہ گزارا‘ ساٹھ سے زائد مقابلے کیے اور زندگی میں ایک بار بھی فرش کو کمر نہ لگائی ۔ محمد علی کے پارکنسن جیسی موذی مرض کا باقاعدہ شکار ہونے کے باوجود لیری ہومز اور ٹریور بربک اسے رِنگ میں ناک آؤٹ نہ کر سکے۔ دنیا بھر کے باکسنگ مبصرین اور ماہرین اس کی سخت جانی اور قوتِ مدافعت کے بارے میں اتنے ہی رطب اللسان ہیں جتنے کہ اس کے فٹ ورک‘ پھرتی‘ رقص اور ناقابلِ تصور جیب کے(باکسنگ کی زبان میں ایسا زور دار اور سیدھا مکا جس میں باکسر اپنا آگے والا ہاتھ ضرب پہنچانے سے قبل پوری طرح پیچھے لے جائے اور پھر اسے مقابل کے منہ پر اس طرح مارے کہ اس کا دوسرا ہاتھ دفاعی انداز میں اس کے چہرے کو ڈھانپے ہوئے ہو)۔ محمد علی کا جیب اس کا وہ ہتھیار تھا جس کے طفیل محمد علی‘ جو بہت زور دار مکوں کے حوالے سے کبھی بھی ٹاپ باکسرز میں شمار نہیں ہوا‘ نے اپنی چھپن فتوحات میں سے سینتیس فتوحات ناک آؤٹ کی بنیاد پر سمیٹیں۔
1954ء میں ایک رات جب بارہ سالہ کاسیس کلے لوئی ویل کے کولمبیا جم سے باہر نکلا تو اس کی عزیز ترین سرخ رنگ کی Schwinn سائیکل چوری ہو چکی تھی۔ روتے ہوئے اس بچے نے پولیس مین جو مارٹن کو اس چوری کی رپورٹ کرتے ہوئے کہا کہ اگر اسے اپنی سائیکل کا چور مل گیا تو وہ اس کے دانت توڑ دے گا۔ جو مارٹن نے اس کو کہا کہ اگر اس نے چور کی پٹائی کرنی ہے تو اسے پہلے باکسنگ سیکھنی چاہیے۔ یہ جملہ بارہ سالہ کاسیس مارسیلس کلے کے دل میں گھر کر گیا۔ وہ باکسنگ جم کی فیس ادا کرنے کیلئے نزارتھ کالج (موجودہ نام سپالڈنگ یونیورسٹی) کی لائبریری میں صفائی کا فریضہ سرانجام دیتا رہا۔ کاسیس کلے کی سائیکل کولمبیا جم سے چوری ہوئی اور اس نے اسی جم میں باکسنگ کی تربیت اینجلو ڈنڈی سے حاصل کرنا شروع کردی۔ نومبر 2005ء میں اس جم کو محمد علی کے نام سے معنون کردیا گیا۔ تین جون 2016ء کو محمد علی کی وفات والے دن ہونے والی تقریب میں سپالڈنگ کی صدر میک کلاری رو دی اور اگلے دن انہوں نے اس بلڈنگ کے مرکزی دروازے پر سرخ رنگ کی Schwinn سائیکل نصب کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ سائیکل اسی بلڈنگ سے چوری ہوئی تھی۔
لوئی ویل محمد علی انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر اترتے ہی جس چیز پر پہلی نظر پڑی وہ اس نئے نام والے ایئر پورٹ کا لوگو تھا۔ اوپر سے پیلے رنگ سے شروع ہونے والی تتلی کا اختتام سرخ رنگ پر ہوتا ہے اور اس ڈیجیٹل امیج والی تتلی کے درمیان محمد علی کا ڈارک کلر کا سایہ ہے جس نے اپنے دونوں ہاتھ فتح کے انداز میں اٹھائے ہیں۔ یہ محمد علی کا وہ خاص انداز تھا جو ہزاروں بلکہ لاکھوں تصاویر میں دکھائی دیتا ہے۔ پس منظر میں تتلی اس کے رِنگ میں رقص کرنے والے اندازِ باکسنگ کی مظہر ہے۔ یہ باکسنگ کا وہ انوکھا انداز تھا جسے بہت سے باکسرز نے اختیار کیا مگر کوئی بھی اس بلندی پر نہ لے جا سکا جو محمد علی سے منسوب ہے۔محمد علی پر تب ایک بہت ہی مقبول گانا Black super man جونی ویکلن نے گایا۔ تب یہ گانا محمد علی کے باکسنگ کے مقابلوں کے دوران پی ٹی وی پر لگتا تھا تو دل اس گانے کے ساتھ دھڑکتا تھا۔ محمد علی کا ایئر پورٹ کے لوگو پر بنا ہوا اس کا مخصوص نقش مجھے ایک بار پھر کنشاسا کی گلیوں میں لے گیا جہاں محمد علی کے ساتھ اس شہر کے بچے بالے‘ نوجوان اور بوڑھے اظہارِ یکجہتی کیلئے رقص کرتے تھے اور علی بومایے (علی اسے مار دو) کے نعرے لگاتے تھے۔ مشہور ہپ ہاپ کلاؤڈ ریپ (Rap) گروپ The Gameنے اس جملے کو پورا گانا بنا دیا۔ یہ گانا امریکن بل بورڈ پر پہلی پوزیشن پر رہا۔
1974ء میں جب محمد علی جارج فورمین سے مقابلے کیلئے زائرے کے دارالحکومت کنشاسا پہنچا تو وہاں کے سیاہ فام لوگوں نے محمد علی کا زبردست استقبال کیا۔ محمد علی اُن کے ساتھ گھل مل گیا اور شہر میں ان کے ساتھ ایسے گھومتا تھا جیسے وہ انہی میں سے ہو۔ کنشاسا کا سارا مجمع یکطرفہ طور پر محمد علی کے ساتھ تھا اور اس کو دیکھ کر اپنی Lingalaزبان میں علی بومایے(علی اسے مار دو) کے نعرے لگاتا تھا۔ ایسی ایک وڈیو میں ایک پندرہ سالہ جوشیلا لڑکا محمد علی کے ساتھ اچھل اچھل کر علی بومایے کے نعرے لگا رہا تھا۔ میری عمر بھی تب پندرہ سال تھی۔ پہلے پہلے مجھے لگا کہ یہ پندرہ سالہ لڑکا میرا ہمزاد ہے لیکن تھوڑی دیر مجھے اندازہ ہوا کہ یہ میرا ہمزاد نہیں بلکہ یہ میں خود تھا جو کنشاسا کی گلیوں میں دیوانہ وار علی بومایے کے نعرے لگا رہا تھا۔