"KMK" (space) message & send to 7575

مردانِ قلندر کا گروہ مطلوب ہے

اللہ تعالیٰ غریقِ رحمت کرے سید ضمیر جعفری مرحوم کو۔ کسی نے اُن سے کہا کہ فن کا کوئی وطن یا ملک ہوتا ہے؟ انہوں نے اس بات پر سر ہلایا اور پھربڑی سنجیدگی سے کہا کہ یہ بات ٹھیک ہے کہ فن کا کوئی وطن یا سرحد نہیں ہوتی مگر فنکار کا بہرحال وطن ہوتا ہے۔ یہ ایک چھوٹا سا جملہ اپنے اندر معانی کا ایک پورا سمندر اور وطنیت کی پوری تفصیل سموئے ہوئے ہے۔
حالیہ پاک بھارت تنازع اور معرکے میں اَن گنت پاکستانی فنکاروں اور اداکاروں نے کھل کر حب الوطنی کا مؤقف اپنایا اور اس موقع پر کسی مصلحت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے وطن سے محبت کا ثبوت دیا مگر شاہ جی کہتے ہیں: کسی منافقت اور مصلحت سے پاک مؤقف اپنانے والے بیشتر بلکہ تقریباً تمام تر اداکار اور فنکار وہ ہیں جنہوں نے نہ تو ماضی میں ہی بھارت میں کام کیا اور نہ ہی مستقبل میں ان کو بالی وڈ فلم انڈسٹری میں کام کرنے یا موقع ملنے کا کوئی چانس ہے۔ دوسرے لفظوں میں جن اداکاروں کا بھارتی فلم انڈسٹری سے کوئی واسطہ نہیں وہ الحمد للہ پوری طرح سے پاکستان کی محبت میں سرشار ہیں۔ ہاں! البتہ وہ اداکار جو ماضی میں بالی وڈ میں کام کر چکے ہیں اور انہیں مستقبل میں اس کا رتی برابر امکان بھی دکھائی دے رہا ہے وہ گول مول بیانات دے کر‘ جنگ کو انسانیت کے خلاف قرار دے کر‘ باہمی بھائی چارے سے رہنے کی فضیلت پر روشنی ڈال کر اور فن کو سرحدوں میں قید کرنے کو تنگ نظری قرار دینے والے بیانات دے کر بھارتی فلم انڈسٹری میں اپنا امکانی مستقبل محفوظ رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ حالانکہ یہ کوشش فضول ہے۔
ایمانداری کی بات کہوں تو اس سلسلے میں بھارتی خواہ وہ سیاستدان ہوں یا فلمی ستارے ہوں یا عام آدمی‘ سب کے سب پاکستان اور پاکستانیوں کے خلاف بلاتفریق اکٹھے ہیں۔ دو چار لوگوں کا استثنا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ میں بھارت میں گزشتہ چند سال میں جنم لینے والی جنونیت کی تعریف نہیں کر رہا کہ جنونیت پاگل پن کی ابتدائی شکل ہوتی ہے اور مودی کی لیڈر شپ میں پروان چڑھنے والی سوچ نے میڈیا سے لے کر عام آدمی تک کو اس مقام پر پہنچا دیا ہے کہ اب ان سے کسی مثبت عمل کی امید رکھنا بھی حماقت لگ رہی ہے۔ تاہم یہ بات طے ہے کہ وہ تمام بھارتی فنکار جو پاکستان آ کر کہتے تھے کہ فن کی کوئی سرحد یا وطن نہیں ہوتا‘ اب وقت آیا ہے تو ان سب کو سرحد بھی دکھائی دے رہی ہے اور وطن بھی یاد آ گیا ہے۔ یہ سارے بھاشن وہ تب دیتے تھے جب وہ اپنی پذیرائی کیلئے پاکستان آتے تھے اور یہاں سے اپنے منافقانہ بیانات کے طفیل لوگوں کی بے لوث محبت اور رقم سمیٹ کر واپس بھارت چلے جاتے تھے۔ اب ان میں سے کسی کو نہ تو فن سرحدوں سے ماورا دکھائی دے رہا ہے اور نہ ہی کوئی فنکار وطن سے بالا تر دکھائی دے رہا ہے۔
ہم بحیثیت مجموعی کمزور یادداشت اور بعض اوقات بے غیرتی کی حد تک وسیع القلبی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ جان نثار اختر کا بیٹا اور بھارتی فلمی شاعر‘ جاوید اختر‘ جس کے بارے میں بلا کسی تعصب کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان کے بے شمار شاعر فنی محاسن اور ندرتِ خیال کے اعتبار سے اس سے کہیں بہتر شاعر ہیں مگر جاوید اختر کے ساتھ کیونکہ بالی وڈ کا گلیمر نتھی ہے لہٰذا اسے اس کی شاعری کے مرتبے سے کہیں زیادہ بلند مقام پر رکھتے ہوئے اس کی پذیرائی کی جاتی ہے۔ پچھلی بار جب وہ فیض میلے میں شرکت کیلئے پاکستان آیا تو احساسِ کمتری کے مارے ہوئے اندر سے چھوٹے لیکن بظاہر بڑے لوگ اس کے قدموں میں بیٹھ کر اس کا ''سواگت‘‘ کرتے رہے۔ چند روز قبل ایک تقریب میں بہت بڑے مجمع سے خطاب کرتے ہوئے جاوید اختر نے کہا کہ اگر مجھے نرک یعنی جہنم اور پاکستان میں سے کسی کا انتخاب کرنا پڑے تو میں جہنم میں جانے کا انتخاب کروں گا۔
میں ذاتی طور پر کسی کیلئے جنت یا دوزخ کا فتویٰ جاری کرنے کو قطعاً ناجائز تصور کرتا ہوں کہ یہ صرف اور صرف خدائی اختیار ہے اور کسی انسان کا اس بارے میں دعویٰ کرنا باطل ہے۔ تاہم اگر کوئی شخص اپنے لیے خود اچھے کی امید نہ رکھتا ہو تو بھلا یہ عاجز کیا کہہ سکتا ہے۔ ظاہر ہے ہر شخص اپنے افعال اور اعمال کے حوالے سے اپنے بارے میں خود بہتر جانتا ہے۔ لوگوں کا کیا ہے وہ تو کسی بھی شخص کے بارے میں کچھ بھی کہہ سکتے ہیں۔ جوش ملیح آبادی نے (مجھے نام یاد نہیں) کسی سے کہا کہ جہنم کی زبان پنجابی ہو گی۔ ان صاحب نے برجستگی سے فرمایا کہ جوش صاحب پھر تو آپ کو پنجابی ضرور سیکھ لینی چاہیے‘ مستقبل میں آپ کے بہت کام آئے گی۔
آپ یقین کریں مجھے جاوید اختر پر نہ کوئی غصہ ہے اور نہ ہی کوئی ملال۔ اسے اپنے وطن سے اسی طرح محبت کرنی چاہیے تھی۔ مجھے تو غصہ ان پر ہے جو پاکستان میں رہتے ہیں‘ پاکستان کا کھاتے ہیں‘ پاکستان سے عزت کماتے ہیں لیکن جب وقت پڑتا ہے تو پاکستانی بننے کے بجائے انسانیت کے مامے اور وسیع القلبی کے چاچے بن جاتے ہیں۔ انہیں سرحدوں سے ماورا امن یاد آ جاتا ہے اور وطن پرستی تنگ نظری دکھائی دینے لگ جاتی ہے۔ مجھے تو غصہ ان لوگوں پر آتا ہے جو بھارتی متعصب فنکاروں کے ماضی کے سارے بیانات بھول کر ان کو پاکستان میں خوش آمدید کہتے ہیں۔ ان کو ان کی اوقات سے بڑھ کر عزت دیتے ہیں۔ ان کے پائوں میں بیٹھتے ہیں اور ان کی بکواس سُن کر بے غیرتی اور بے شرمی سے ہنستے ہیں۔ پوچھیں تو کہتے ہیں کہ ہم مہمان نواز لوگ ہیں‘ ہم محبت کے سفیر اور وسیع القلبی کے علمبردار ہیں۔ جہاں وطن کی عزت کی بات آ جائے وہاں مروت‘ محبت‘ فراخدلی اور روشن خیالی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے غیرت اور عزت پر مبنی مؤقف اپنانا چاہیے۔
کسی صاحب کے ہاں کوئی تقریب تھی اور اس تقریب میں موسیقی کا اہتمام بھی تھا۔ صاحبِ خانہ نے کسی کو گلوکار لانے کی ذمہ داری سونپ دی۔ وہ صاحب ایک کلاسیکل گلوکار کو لے آئے جس نے سا‘ رے‘ گا‘ ما‘ پا‘ دھا‘ نی شروع کر دیا اور پکے راگ الاپنے لگ گیا۔ صاحبِ خانہ نے مہمانوں کی بوریت کا اندازہ لگایا اور اپنی تقریب کو بدمزہ ہوتے دیکھا تو اندر سے جا کر پستول لے آیا۔ ایک بزرگ نے اسے کہا کہ خان صاحب! یہ گلوکار ہمارا مہمان ہے اور اس کی سلامتی ہمارے ذمے ہے۔ صاحبِ خانہ کہنے لگا: چاچا! مجھے معلوم ہے کہ وہ ہمارا مہمان ہے‘ میں تو اس بدبخت کو ڈھونڈ رہا ہوں جو اسے بلا کر لایا ہے۔ ایمان سے کہوں تو میرا بھی دل چاہتا ہے کہ میں آئندہ ان لوگوں کو تلاش کروں جو اس قسم کے لوگوں کو پاکستان بلاتے ہیں‘ انکی پذیرائی کرتے ہیں اور ان کو عزت کے اونچے سنگھاسن پر بٹھاتے ہیں۔ لیکن کیا کریں؟ بحیثیت قوم ہماری یادداشت کمزور‘ قومی اَنا کمزور تر اور وطن کی حرمت کمزور ترین ہے۔
جو شخص وطن کی عزت کے بارے میں حساس‘ فکرمند اور متعصب نہیں ایسا سمجھیں کہ اپنی ماں کی عزت و حرمت کے بارے میں بے حس اور بے غیرت ہے۔ ایسے میں مجھے رہ رہ کر بال ٹھاکرے یاد آتا ہے جو الیکشن لڑنے‘ سیاست کرنے یا عوامی عہدے لینے کے بجائے اپنے ملک بھارت کے معاملے میں بڑا پکا قوم پرست اور متعصب تھا۔ میں بال ٹھاکرے جیسی تنگ نظری اور تعصب کے خلاف ہوں مگر جہاں تک وطن پرستی کا معاملہ ہے اس کے مؤقف سے ضرور متاثر ہوں کہ ملک کی عزت و آبرو اور حرمت کا معاملہ صرف سیاستدانوں پر نہیں چھوڑا جا سکتا کہ وہ سیاسی فیصلے کرتے ہیں لیکن معاملہ جب قومی حمیت اور آبرو کا آن پڑے تو پھر زیادہ نہ سہی‘ اتنی غیرت ضرور دکھانی چاہیے کہ بندہ اپنے ملک کی توہین کرنے والے کو دوبارہ منہ نہ لگائے‘ اس کو بلانے والوں اور پذیرائی کرنے والوں کی طبیعت ایسی صاف کی جائے کہ پھر کوئی مائی کا لعل ایسی بے غیرتی اور بے حیائی کا خیال بھی دل میں نہ لا سکے۔ مردانِ قلندر کا کوئی تو ایسا گروہ ہو جو اس قسم کے ضمیر فروش میزبانوں کو لگام ڈال سکے۔ اے کاش!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں