"KMK" (space) message & send to 7575

مسئلہ پولیس وردی نہیں‘ پولیس گردی ہے

گزشتہ اٹھہتر برس میں اس ملک کے محکموں اور اداروں کو درست کرنے کے جو مجرب طریقے استعمال کیے گئے ہیں اگر ان کا جائزہ لیں تو بندے کی پہلے ہنسی نکلے گی اور پھر رونا آئے گا۔ محکموں اور اداروں کی خراب کارکردگی کو بہتر کرنے کیلئے ہماری بیورو کریسی اور حکمران جو طریقے اپناتے ہیں وہ پوری دنیا میں اپنی مثال آپ ہیں۔ ایسی ایسی حماقتیں کی جاتی ہیں کہ بندہ حیران ہو جاتا ہے کہ کون بزرجمہر ہیں جو اس قسم کی تجاویز دیتے ہیں۔ اگر دنیا میں کسی کو اپنی یہ حرکتیں بتائیں تو لوگ ہمارا ٹھٹھا اڑائیں۔ مثلاً یہ کہ پنجاب ٹریفک پولیس کی وردی ایک بار پھر تبدیل کی جا رہی ہے۔ کبھی اس لیے بدلی جاتی ہے کہ یہ انگریز دور کی یادگار ہے۔ کبھی اس لیے بدلی جاتی ہے کہ اس میں گرمی زیادہ لگتی ہے‘ کبھی اس لیے بدلی جاتی کہ نئی وردی اچھی لگے گی۔ غرض یہ ساری باتیں وردی تبدیل کرتے وقت کسی کو یاد نہیں آتیں۔ اربوں روپے سے نئی وردیاں بنوانے کے بعد اس پر غور شروع ہوتا ہے۔ پھر آہستہ آہستہ اس کی خرابیاں سامنے آنا شروع ہوتی ہیں۔ چند سال قبل پنجاب پولیس کی وردی تبدیل کی گئی۔مبینہ طور پر کروڑوں روپے کا کھانچہ لگایا گیا اور اب ایک بار پھر وہی قصہ دہرانے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا عوام کو پولیس کی وردی سے کوئی غرض ہے کہ وہ کیسی ہے؟ اس میں پولیس افسر یا کانسٹیبل کیسا لگتا ہے؟اگر سرکار کا خیال ہے کہ وردی تبدیل کرنے سے پولیس کی رٹ بحال ہو جائے گی تو یہ اس کی بھول ہے۔ اگر آئی جی صاحب کا خیال ہے کہ وردی تبدیل کرنے سے پولیس ایماندار ہو جائے گی تو یہ ان کی خام خیالی ہے۔ اگر فیصلہ سازوں کو گمان ہے کہ وردی بدلنے سے محکمے کی عادتیں بدل جائیں گی تو یہ ان کی حماقت کے سوا اور کچھ نہیں۔ عوام کو پولیس کی وردی سے نہیں اس کے رویے سے شکایت ہے۔ لوگوں کو پولیس کی وردی سے نہیں پولیس کے سلوک سے مسئلہ ہے۔ عام آدمی پولیس کی وردی نہیں اس کی کارکردگی اور رویے میں تبدیلی چاہتا ہے۔ کیا وردی تبدیل کرنے سے پولیس کا رویہ‘ اس کی کارکردگی اور اس کا عام آدمی کے ساتھ سلوک بہتر یا تبدیل ہو جائے گا؟ اگر ایسا نہیں تو پھر یہ ساری تبدیلی‘ سارا خرچہ اور ساری کاوشیں بیکار ہیں۔
ایک زمانے میں ملک کے ٹیکس اکٹھے کرنے والے ادارے کا نام سینٹرل بورڈ آف ریونیو تھا‘ اسے عرفِ عام میں سی بی آر کہا جاتا تھا۔ اس ادارے کی کارکردگی تب بھی ایسی ہی تھی بلکہ اس سے قدرے بہتر تھی جیسی اب ہے‘ تاہم خرابیاں اس وقت بھی اسی قسم کی تھیں جس قسم کی اب ہیں۔ تب ٹیکس اکٹھا کرنے پر مامور افسران سرکار کے کروڑ روپے کے عوض لاکھ روپے جیب میں ڈال کر خوش ہوتے تھے‘ اب سرکاری افسر کا معیار اوپر چلا گیا ہے۔ اب وہ کروڑ روپے کا ٹیکس گول کرنے کیلئے پندرہ بیس لاکھ لیتا ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ۔ جو ٹیکس پہلے سرکار کے کھاتے میں نہیں جاتا تھا وہ اب بھی نہیں جاتا‘ تاہم عقلمندوں نے اس ادارے کی خراب کارکردگی سے تنگ آکر اس کا نام تبدیل کرتے ہوئے اسے سینٹرل بورڈ آف ریونیو کے بجائے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کا نیک اورپارسا نام عطا کرکے اپنا فریضہ پورا کر دیا۔ لوگوں نے اس ادارے کو سی بی آر کے بجائے ایف بی آر لکھنا اور پکارنا شروع کر دیا۔ محکمہ مرکزی کے بجائے یہ وفاقی ہو گیا۔ اس عظیم تبدیلی کے نتیجے میں پہلے سے چھپی ہوئی ساری سٹیشنری‘ سارے کاغذات اور دفتروں کے ماتھے پر لگے ہوئے سارے بورڈ بیکار ہو گئے۔ کروڑوں روپے سے نئی سٹیشنری چھپوائی گئی اور گمان کیا گیا کہ افسر ایماندار ہو جائیں گے۔ ملکی مفاد کو ذاتی مفاد پر ترجیح دینے لگ جائیں گے۔ ٹیکس کی وصولی بہتر ہو جائے گی اور محکمہ کی کارکردگی زمین سے اُٹھ کر آسمان پر پہنچ جائے گی۔ مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔ وقت کے ساتھ افسروں اور ٹیکس دہندگان کے درمیان لین دین میں ٹیکس افسر کا حصہ بڑھ گیا ہے اور ٹیکس کی غتربود ہونے والی رقم پہلے کی نسبت کئی گنا زیادہ ہو گئی۔ تبدیلیٔ نام سے محکمہ کی کارکردگی کی تبدیلی کی امید رکھنا ایسے ہی ہے جیسی کسی لفنگے اور بدمعاش کا نام تبدیل کرکے امید رکھی جائے کہ وہ شریف اور معزز ہو جائے گا۔
سرکاری افسروں کی تربیت کا ایک ادارہ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف پبلک ایڈمنسٹریشن نام کا ہوا کرتا تھا۔ اس تریتی ادارے میں نئے بھری ہونے والے اعلیٰ سرکاری افسر یعنی سول سروس کے نوبھرتی شدہ رنگروٹ افسر تربیت کی غرض سے بھیجے جاتے تھے۔ اس تربیت کے بعد ان سے جو اعلیٰ و ارفع امیدیں وابستہ کی گئی تھیں وہ بری طرح ناکام ہوئیں تو تربیت بہتر کرنے یا تربیت کا طریقہ کار تبدیل کرنے کے بجائے اس کا نام ہی تبدیل کرتے ہوئے اس اعلیٰ تربیتی ادارے کا نام نیشنل انسٹیٹیوٹ آف پبلک ایڈمنسٹریشن کردیا گیا‘ یعنی پاکستان کا لفظ نیشنل سے بدل کر تصور کر لیا گیا کہ اب ادارے سے تربیت لے کر نکلنے والے افسران حاکم کے بجائے پبلک سرونٹ بن کر نکلیں گے۔ ان کی گردن کا سریا نکل جائے گا اور وہ عوام کے خادم بن جائیں گے۔ ان کی لوٹ مار کی عادتیں تبدیل ہو جائیں گی اور وہ ایماندار ہو جائیں گے۔ ان کی طاقت کا نشہ اتر جائے گا اور وہ انگریزوں کی ورثے میں چھوڑی ہوئی بیورو کریسی کی آقا اور غلام کی سوچ کے بجائے عوامی خدمت گار کے روپ میں ڈھل جائیں گے مگر ایسا کچھ بھی نہ ہوا۔ بیورو کریسی ویسی کی ویسی ہے۔ پہلے محکوم عوام کا آقا گورا تھا وہ اب کالا ہو گیا ہے اور اس سے زیادہ بدتر ہوگیا ہے کہ گورا افسر کم از کم کام ضرور کرتا تھا اور صرف تنخواہ کے عوض کرتا تھا۔ اب افسر دفتر آنے کی تنخواہ لیتا ہے اور کام کرنے کے عوض الگ سے پیسے لیتا ہے۔
ایک دوست سے اعلیٰ افسروں کی تربیت کے ادارے کے نام کی تبدیلی پر بات کی تو وہ ہنسنے لگ گیا۔ کہنے لگا: آپ کو نام کی تبدیلی کی اصل وجہ معلوم ہے؟ میں نے کہا: جب بھی اس ملک میں کسی ادارے کی کارکردگی اور رویے پر انگلی اٹھتی ہے سرکار اور افسران مل کر اس ادارہ کا نام بدل کر یقین کر لیتے ہیں کہ اس محکمہ کی کارکردگی پر کسی نے جو جادو کر رکھا تھا اس نئے نام کی برکت سے وہ اثر زائل ہو جائے گا اور محکمے کی کارکردگی کو چار چاند لگ جائیں گے۔ اس دوست نے کہا :کم از کم اس ادارے کے نام کی تبدیلی کے بارے میں آپ کی معلومات خام ہیں۔ اس ادارے کا نام تبدیل کرتے وقت ایسے عمدہ اور ارفع خیالات کسی کے ذہن میں نہیں تھے۔ اصل بات یہ ہے کہ پہلے اس ادارے کا نام پاکستان انسٹیٹیوٹ آف پبلک ایڈمنسٹریشن تھا اور اس کا مخفف ''پیپا‘‘ یعنی کنستر بنتاتھا۔ افسروں کو یہ واہیات مخفف پسند نہیں تھا اور وہ اس نام میں اپنے لیے توہین اور اپنی عزت پر حرف خیال کرتے تھے لہٰذا انہوں نے اس کا نام تبدیل کرکے نیشنل انسٹیٹیوٹ آف پبلک ایڈمنسٹریشن یعنی ''نیپا‘‘ کر دیا۔ سارا مسئلہ حل ہو گیا۔ ان کی عزتِ نفس مجروح ہونا بند ہو گئی۔ ویسے یہ بات الگ ہے کہ ان کی بری کارکردگی کا پیپا چہار دانگ عالم میں کھڑک رہا ہے اور دنیا سن رہی ہے۔
اب ٹریفک پولیس کی وردی کی تبدیلی کا شوشہ چھوڑا جا رہا ہے۔ اگر تو وردی کی اس تبدیلی سے ملتان پولیس کے افسران نو عدد لفٹروں کے ذریعے لگائی جانے والی یومیہ دیہاڑی سے باز آ جائیں گے تو بھلا مجھ سے زیادہ کون خوش ہو سکتا ہے۔ اگر عوام کی جیب سے نکلوا کر اپنی جیب میں ڈالی جانے والی ساڑھے سولہ کروڑ روپے سالانہ کی رقم سرکار کی جیب میں چلی جائے تو بات سمجھ میں آتی ہے کہ وردی تبدیل ہونے سے پولیس کی سائنسی بھتہ خوری ختم ہو جائے گی‘ تاہم ایسا خیال کرنا حماقتِ مطلق کے سوا کچھ بھی نہیں۔ حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ وردی کے بجائے پولیس کا رویہ بدلیں کیونکہ عوام کو مسئلہ پولیس وردی سے نہیں پولیس گردی سے ہے۔ وہ ختم ہونی چاہیے‘ وردی بھلے سے جو بھی ہو۔ عوام کو بھلا وردی سے کیا لینا دینا ہے؟

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں