دل تو میرا بھی بہت کرتا ہے کہ میں اسرائیل کی غنڈہ گردی اور عالم اسلام کی بے حمیتی پر کہرام مچاؤں‘ ایران کو اکیلا چھوڑنے پر دیگر اسلامی ممالک‘ اور خاص طور پر عرب ممالک کو بتانے کی کوشش کروں کہ کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرنے سے وہ اس خطرے سے کسی صورت بھی نہیں بچ پائیں گے جو اُن کا مقدر اور نوشتۂ دیوار ہے۔ میرا دل کرتا ہے کہ میں ان کو نزار قبانی اور عبدالوہاب البیاتی کی وہ نظمیں سناؤں جن میں عالمِ عرب کے حکمرانوں کو غیرت دلائی گئی ہے۔
میرا دل کرتا ہے کہ میں ان عرب ملکوں کے حکمرانوں کی غیرت کو جھنجھوڑوں جن کی فضائی حدود کو پامال کرتے ہوئے اسرائیلی جہاز ایران پر بمباری کر رہے ہیں۔ میرا دل کرتا ہے کہ میں اپنے کالم کے ذریعے ساری مزاحمتی عرب شاعری اپنے قارئین تک پہنچاؤں۔ مگر جس ملک میں فلسطینیوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی بھی جرم ہو وہاں کیا کریں؟ سو آج صرف ایک نظم سپردِ کالم ہے۔ یہ شام کے شاعر نزار قبانی کی نظم ''حوار مع اعرابیِ أضاع فرسہ‘‘ ہے‘ جس کا ترجمہ ہمارے مرحوم دوست امجد اسلام امجد نے ''ایک بدو سے گفتگو جس کا گھوڑا کھو گیا ہے‘‘ کے عنوان سے کیا ہے اور ایسا خوب ترجمہ کیا ہے کہ ترجمے کا حق ادا کر دیا ہے۔
ایک بدو سے گفتگو جس کا گھوڑا کھو گیا ہے
اگر یہ صحرا مری سنے تو اسے بتاؤں؍ یہ شاعروں کا گروہ فصلِ زوال ہے‘ تو اسے مٹا دے؍ یا اس کے منہ سے وہ لفظ لے لے؍ جو کتنی صدیوں سے زہر صورت ہماری نسلوں کو کھا رہے ہیں؍ یہ بانجھ لفظوں کی ڈگڈگی جو ہمارے کانوں میں بج رہی ہے؍ خموش کر دے؍ یہ لفظ بازی کا شوق جسموں میں کوڑھ کی مثل پھیلتا ہے!؍ ورودِ شب ہو تو لفظ آنکھوں میں نیند بُنتے ہیں‘ پو پھٹے تو حروفِ ابجد کا خواب سایہ پکارتا ہے!؍ مرے وطن یہ عجیب قصہ ہے؍ مردِ میداں تو کھیت رہتے ہیں اور شاعر؍ زمیں کے سینے پہ حسبِ سابق رواں دواں ہیں؍ یہ لفظ بازی ہے جس کے باعث ہمارے ہاتھوں میں کچھ نہیں ہے؍ زمیں کے نقشے پہ ہم مقاموں سے ماورا ہیں؍ ہماری آنکھوں میں آنے والے سراب لمحوں کے خواب سجتے ہیں؍ اور کانوں میں اس کے گھوڑے کی ٹاپ بجتی ہے جو ہمارے؍ دلوں کو غم سے نجات دے گا؍ جو دشمنوں کی صفیں الٹ کر شکست دے دے؍ہم عالموں کے نصائح سنتے ہیں اور فقیہوں کی نکتہ سنجی پہ جھومتے ہیں؍ ہماری آنکھوں کو داستانوں کی وادیوں میں سکون ملتا ہے‘ داستانیں؍ جو بانجھ لفظوں کی بے حقیقت جوانیاں ہیں؍ مرے وطن اے زمین میری!؍ فغاں کہ ہم نے وہ لفظ جنسِ دکانِ اہلِ ہوس بنایا؍ جو قاصدانِ بہار جیسا سبک نوا تھا؍ حرم کے طائر سا خوش نوا تھا؍ اگر یہ صحرائے نجد میری فغاں سنے تو اسے بتاؤں؍ مرے تصرف میں ہو تو لفظوں کے کارخانوں کو سرخ مہروں سے بند کر دوں!؍ حروفِ ابجد کے شہسواروں کو قتل کر دوں؍ کہ جب سے ہم نے جنم لیا ہے؍ یہ ہم کو لفظوں کی چکیوں میں کچل رہے ہیں؍ اگر میں اپنے وطن میں کوئی مقام رکھتا؍ تو ایسے لوگوں کی انگلیوں کو تراش دیتا؍ جو اپنے لفظوں کو ظالموں کے غلیظ جوتوں پہ پھیرتے ہیں؍ اور ان میں ایسی چمک دکھاتے ہیں جو بھی دیکھے خود اپنے چہرے سے دوبدو ہو؍ تونگروں کے مصاحبوں کو ذلیل کرتا؍ جو شوربے کی مہک پہ کتوں کی مثل ہونٹوں کو چاٹتے ہیں؍ اور ان کو لفظوں کے سخت دروں کی مار دیتا؍ جو اہلِ زر کی مدح سرائی میں جھوٹ کی فصل کاٹتے ہیں؍میں ایسے لفظوں کو کاٹ دیتا جو بے ہنر ہیں؍ اور آنے والے دنوں کی جھوٹی تسلیوں سے ہر ایک منظر کو؍ صنعتوں اور فصاحتوں کو؍ وطن کی حد سے نکال دیتا‘ اور ان قصیدوں کو پھاڑ دیتا؍ جو اگلے وقتوں کے خواب دے کر گزرتے لمحوں کو روندتے ہیں؍
مرے وطن یہ عجیب قصہ ہے؍ مرد ِمیداں تو کھیت رہتے ہیں اور شاعر؍ زمیں کے سینے پہ حسبِ سابق رواں دواں ہیں؍ اگر مجھے دسترس ہو کوئی؍ تو قہوہ خانوں کی سیڑھیوں میں پڑے ہوئے ان زیاں پرستوں کو قتل کر دوں جو کشتِ افسوس بو رہے ہیں؍ تراش ڈالوں زبان ان کی جو اپنے نغموں سے داغِ ذلت کو؍ دھو رہے ہیں؍ تباہ کر دوں فلک پہ ہنستے ہوئے قمر کو جو ہم پہ مٹی؍ اڑا رہا ہے؍ وطن میں تیری اداس شب کو نجات دے دوں اس آئینے سے؍ جو تیری ذلت کی داستانیں سنا رہا ہے؍
مرے وطن اے زمین میری!؍ مری دعا ہے کہ سوکھ جائے ترے کنوں کی یہ بہتی دولت؍ سوائے پانی کے سب فنا ہو؍ جو تیری چاہت سے منحرف ہیں... انہیں سزا ہو؍ جو بیٹیوں کو سجا کے گاہک کو ڈھونڈتے ہیں‘ انہیں ہوس کا؍ عذاب پہنچے؍ وہ اپنے جسموں میں کوڑھ دیکھیں‘ پہ موت ان کی طرف نہ آئے؍ میں چاہتا ہوں؍ تونگروں کے محل... محلوں کے سرخ کمرے؍ جدید سائنس کے معجزوں کے کمال‘ کلچر کی خوش نمائی؍ سفید آقاؤں کی وراثت جلا وطن ہو؍ حسین تاجوں میں جگمگاتے ہوئے جواہر؍ غریب لوگوں کی جوتیوں میں مقام پائیں؍ اگر وطن میں مجھے کوئی اختیار ہو تو میں اپنے صحرا؍ میں پلنے والے نئے امیروں کے بھاری خلعت اتار پھینکوں؍ یہ ارضِ یورپ کے سارے تحفے جو جگمگاتے ہیں مسخ کر دوں؍ اور ان کے چہروں کو اس ملمع سے پاک کر دوں جسے سجا کر؍ یہ اپنے اہلِ وطن سے ظاہر میں مختلف ہیں؍ انہیں بٹھاؤں بغیر زینوں کی گھوڑیوں پر؍ سلاؤں صحرا کی سرد راتوں میں جب سروں پہ کھلا فلک ہو؍ پلاؤں ان کو وہ دودھ جس سے نظر میں ان کی وہی چمک ہو؍ جو ان کے ناموں کا حاشیہ ہے؍ عرب شجاعت کا اور غیرت کا نام جس سے تمام تاریخ آشنا ہے؍
اگر یہ ہوتا کہ پیڑ یافا کہ اپنی شاخیں قلم بناتے تو ہم کو؍ لاکھوں سلام دیتے؍ جو طبریا کا اداس پانی ہمیں جدائی کا حال لکھتا؍ تو کاغذوں میں وہ آگ لگتی کہ پڑھنے والے کباب ہوتے؍ اگر دہانِ قدس میں کوئی زبان ہوتی تو اس کے ہونٹوں پہ؍ آرزوؤں کے لفظ ہوتے؍ مگر یہ سب کچھ ''اگر‘‘ کے صحرائے بے جہت کا غبار ہے کہ؍ ہم ایک المیے کی ڈگر پر رواں دواں ہیں؍ حروفِ ابجد کو ہم نے اپنا نشاں کیا ہے؍ ہم اپنی کھوئی ہوئی زمیں پر کمندِ افسوس پھینکتے ہیں؍ جو شاعری سے بٹی گئی ہے؍ ہماری دامن پہ آنسوؤں کے اور آرزوؤں کے بیل بوٹے ہیں؍ اور ہم نے اسی کو یافا کی رہ گزاروں میں وا کیا ہے؍ مرے وطن اے زمین میری!؍ فغاں کہ تجھ کو فضول لفظوں کی کند چھریوں نے کاٹ ڈالا
قارئین! آج صرف یہی ایک نظم! اسی تناظر میں لکھی گئی عبدالوہاب البیاتی کی نظم ''دوپہرِ جون کی نذر ایک نوحہ‘‘ ادھار سہی۔ یہ ادھار بھی ان شاء اللہ جلد ہی اتار دوں گا۔