میرا دل کرتا ہے کہ میں درختوں پر لکھوں اور مسلسل لکھوں۔ تب تک لکھوں جب تک کہ میرے اردگرد کے درخت مجھے اپنی چھاؤں تلے نہ لے لیں یا درختوں کی اپنے سینے پر پرواخت کرنے والی زمین مجھے اپنی آغوش میں نہ لے لے۔ میرا دل کرتا ہے کہ میں تب تک صرف درختوں پر لکھتا رہوں جب تک کہ مجھے یقین نہ ہو جائے کہ اب اس ملک میں جنگل غیر قانونی طور پر نہیں کٹیں گے۔ لوگ شجر دشمن رویہ ترک کر دیں گے۔ سرکار خانہ پُری والی شجرکاری مہم کی جگہ حقیقی شجر کاری کرے گی۔ محکمہ جنگلات کے افسر واہلکار درختوں کے تاجر نہیں بلکہ ان کے محافظ بن جائیں گے۔ اس ملک میں جنگلات کا رقبہ جو کل ملکی رقبے کا محض 4.8 فیصد ہے بڑھ کر عالمی معیار کے مطابق 25 فیصد نہ ہو جائے اور پاکستان میں جنگلات کا انسانی تناسب جو فی الوقت 0.05 فیصد ہے بڑھ کر 0.5 فیصد نہیں ہو جاتا۔ اس ملک میں کاغذی اعداد وشمار کے برعکس درختوں کا رقبہ بڑھنے کے بجائے مسلسل کم ہو رہا ہے۔ ماحول کا ستیاناس بلکہ سوا ستیاناس ہو چکا ہے لیکن کسی کو پروا نہیں۔ کسی کو یہ فکر نہیں کہ ہم اپنی آئندہ نسلوں کیلئے کیا چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ اربابِ اختیار‘ مقتدرہ اور زورآور مسلسل اس تحقیق میں غلطاں ہیں کہ اس بار الیکشن میں کیا جھرلو پھیرنا ہے۔ کیا نیا پینترا لگانا ہے اور ووٹ کو کس نئے داؤ سے چِت کرنا ہے۔
میں بارہا پارکس اینڈ ہارٹیکلچر اور ماحولیات کے توپ افسروں کو مل کر گزارش کر چکا ہوں کہ آپ ہر سیزن میں صرف آرائشی پودوں سے ہی مال بنانے کی کوشش نہ کریں بلکہ محنت کر کے اس ملک کی ماحولیاتی شکل و صورت کو تبدیل کریں۔ بہار اور سردیوں کے آغاز میں آپ کے لگائے جانے والے پھولوں کا سجاوٹی منظرنامہ بلاشبہ آنکھوں کو بھلا لگتا ہے لیکن اب آپ صرف پھولوں سے پیداگیری کرنے کے بجائے اس ملک پر اور اس کے برباد ہوتے ہوئے ماحول پر تھوڑا ترس کھائیں اور پھولوں و آرائشی پودوں کے علاوہ چوڑے پتوں والے درخت لگائیں۔ ماحول کی قدرتی اور مستقل بہتری صرف شجرکاری کے طفیل ممکن ہے اور اس میں بھی آپ کوشش کریں کہ صرف مقامی یعنی Indigenous درخت لگائیں۔ سموگ اور ماحولیات پر ٹوٹنے والی دیگر آفات ہماری اپنی پیدا کی ہوئی ہیں تاہم ان کا جلد‘ مستقل اور دیرپا حل صرف شجر کاری ہی سے ممکن ہے۔ شاہراہوں اور موٹرویز کے کنارے مقامی درخت از قسم شیشم‘ کیکر‘ نیم اور پلکن وغیرہ لگائیں۔ شہروں کی سڑکوں کے کناروں پر املتاس‘ بکائن‘ نیم‘ دھریک اور سکھ چین جیسے سایہ دار درخت لگائیں‘ مگر نقار خانے میں طوطی کی آوا ز کون سنتا ہے؟ لیکن اگر کوئی ہماری آواز نہیں سن رہا‘ ہمارا لکھا ہوا پڑھ کر ٹس سے مس نہیں ہو رہا تو کیا ہم آواز بلند کرنا یا لکھنا بند کر دیں؟ اور صرف درختوں پر ہی کیا موقوف‘ اس ریاست میں صرف درخت ہی تو مسئلہ نہیں ہیں۔
ایک روز جہاز کو ملتان ایئر پورٹ پر اترنے میں کسی وجہ سے تاخیر ہو گئی اور جہاز ملتان کے اوپر کچھ دیر تک منڈلاتا رہا۔ اس روز خلافِ معمول ملتان پر گرد کا ہالا نہیں تھا اور دور تک منظر صاف دکھائی دے رہا تھا۔ میں نے اپنی زندگی میں اس سے زیادہ بے شجر اور سبزے سے محروم شہر نہیں دیکھا تھا۔ لندن جیسے دنیا کے مہنگی ترین رہائشی اور کمرشل زمین کے حامل شہر میں اتنے درخت‘ اتنا سبزہ اور ایسی ہریالی دیکھی ہے کہ دل اس اُجاڑ پن کو دیکھ کر ملول ہو گیا۔
کبھی میرا دل کرتا ہے کہ میں دیگر تمام موضوعات کو چھوڑ چھاڑ کر صرف تعلیم پر لکھوں۔ سرکار سے پوچھوں کہ اس ریاست کے عام شہری کو تحفظ کے بعد جو دو تین نہایت ضروری اور بنیادی سہولتیں درکار ہیں ان میں صحت اور تعلیم سب سے اہم ہیں اور ان کی عام آدمی تک فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہے۔ کیا سرکار یہ ذمہ داری پوری کر رہی ہے؟ تمام بڑے اور نامور سرکاری کالجوں کو یونیورسٹی کی پخ لگا کر ان کی فیسیں دس گنا کر دی گئی ہیں۔ غریب آدمی کے بچوں کے لیے اعلیٰ تعلیم کے دروازے غیر تحریر شدہ برطانوی آئین کی طرح عملی طور پر بند کیے جا رہے ہیں۔ سرکار ہر چیز پرائیویٹ سیکٹر کے حوالے کرکے خود محض موج میلہ کرنا چاہتی ہے۔ ادارے ٹھیک کرنے کے بجائے اداروں سے جان چھڑوائی جا رہی ہے۔ عوام کے ساتھ حکومت کا رویہ نوآبادیاتی نظام کی یاد دلاتا ہے جہاں قابض حکمران صرف اس سرزمین کے وسائل لوٹنے اور عوام کا خون چوسنے کیلئے آتے تھے اور جب وہ نوآبادی ان کے ہاتھ سے نکلنے لگتی تھی تو وہ اپنا بوریا بستر سمیٹ کر بڑے مزے سے اپنے اصلی وطن کو لوٹ جاتے تھے۔ اب ہمارے حکمران اور صاحبانِ اقتدار اپنی حکمرانی اور کرّوفر رخصت ہونے کے بعد اپنا سارا لوٹا ہوا مال وزر اور بوریا بستر سمیٹتے ہیں اور ادھر جا کر ڈیرے لگا لیتے ہیں جہاں ہمارے پرانے آقا ہمارے لوٹے ہوئے مال سے مزے کر رہے ہیں۔ پہلے ہمیں گورا لوٹ کر چلا گیا اب کالے لوٹ کر پتلی گلی سے نکلتے ہیں۔ ہمارے مقدر میں لٹنا اور لٹنے کے بعد نئے سرے سے لوٹنے کیلئے کسی نئے مسیحا کا انتخاب کرنا رہ گیا ہے۔
اگر میں اس ملک میں تعلیم کی زبوں حالی‘ تعلیمی اداروں کی بربادی‘ حکومت کی بے حسی اور ذمہ داریوں سے جان چھڑوانے کی کہانیاں لکھنا شروع کروں تو یہ ہزار داستان کی الف لیلہ ولیلہ سے زیادہ ضخیم داستان بن جائے۔ اپنے پرانے میونسپل پرائمری سکول چوک شہیداں کی کہانی لکھوں جو اب اَپ گریڈ ہو کر ہائی سکول بن چکا ہے مگر یہ اَپ گریڈیشن ایسی بربادی پر کھڑی ہے کہ سکول کو دیکھ کر رونا آتا ہے۔ اپنے گورنمنٹ ہائی سکول گلگشت کالونی کا کیا حال لکھوں جو اب ہائر سیکنڈری سکول کے درجے پر فائز ہے مگر ایسی زبوں حالی کا شکار ہے کہ خدا کی پناہ۔ سرکار تباہ ہوتے ہوئے تعلیمی معیار‘ برباد ہوتے ہوئے تعلیمی اداروں کی درستی کے بجائے ان سے جان چھڑوانے کے چکر میں ہے۔ جو کام حکومت کی ذمہ داری تھے وہ نجی شعبے کے سپرد کیے جا رہے ہیں۔ بھلاانہیں تعلیمی معیار یا عوام کی سہولت سے کیا غرض ہو گی؟
لاہور شہر کے دل میں ایک سینٹرل ماڈل سکول ہوا کرتا تھا۔ اس سکول سے ڈیڑھ فرلانگ پر صوبائی حکمران فروکش ہوا کرتے تھے۔ اس سکول سے چند قدم پر شہر کا انتظامی سربراہ بیٹھتا ہے۔ اسکے عین پہلو میں عدل وانصاف کا دربار ہے لیکن ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے معیار کے ساتویں آسمان پر متمکن یہ تاریخی سکول ایسی پستی میں جا پہنچا کہ اسکے ماضی سے آشنا لوگ فرطِ حیرت سے گنگ ہیں۔ اس سکول سے دو اڑھائی فرلانگ پر ایک کالج ہے جو کبھی اپنے اندر ایسی کشش رکھتا تھا کہ لوگ اپنے بچے داخل کروانے کیلئے دور دور سے کھنچے چلے آتے تھے۔ اس کالج کا ایک پرنسپل ڈاکٹر دلاور حسین ہوا کرتا تھا۔ ہمارے دوست اور روزنامہ دنیا کے کالم نویس بیرسٹر نسیم باجوہ نے گزشتہ دنوں ڈاکٹر دلاور حسین پر ایک کالم بھی لکھا ہے۔ عرصہ ہوا مجھے گورنمنٹ خواجہ فرید کالج رحیم یار کے پروفیسر رشید انگوی (تب وہ اس کالج میں پڑھاتے تھے بعد میں لاہور کسی کالج میں چلے گئے) نے مجھے ڈاکٹر دلاور حسین عرف ڈاکٹر ڈی حسین کا ایک واقعہ سنایا جو کسی دن سپرد قلم کروں گا۔ اب اس کالج کی عظمت محض اس کے گزرے دنوں میں دکھائی دیتی ہے۔ کیا سکول‘ کیا کالج اور کیا یونیورسٹیاں‘ سب کی سب عظمتِ رفتہ کے مرقد ہیں۔
میرا دل کرتا ہے کہ میں صرف درختوں پر‘ تعلیم پر‘ ہسپتالوں پر اور ٹریفک پر لکھوں۔ سیاسی صورتحال کو ٹھیک کرنا‘ زور آوروں کو نکیل ڈالنا‘ مقتدرہ کو اس کی جگہ پر رکھنا اور ملک کو 1973ء کے آئین کے مطابق چلانا جن کا کام ہے وہی اس نظام کو برباد کرنے کے سب سے بڑے حصے دار ہیں تو بھلا یہ عاجز اپنی قلم سے کیا توپ چلا سکتا ہے؟ میں ان موضوعات پر لکھنا چاہتا ہوں جس سے عام آدمی کو غرض ہے اور حکمرانوں کو اس میں کوئی رکاوٹ یا مجبوری درپیش نہیں۔ مگر مجبوری یہ آن پڑی ہے کہ قارئین کی اکثریت کو ایسے کالموں سے سے کوئی دلچسپی نہیں۔