"KMK" (space) message & send to 7575

یہ ڈرامے کب تک چلتے رہیں گے؟

میں گزشتہ دو ہفتوں سے برطانیہ میں ہوں اور اس دوران جتنا سفر کرنا ممکن تھا‘ کر چکا ہوں اور اس عمر میں خراب گھٹنوں کے ساتھ جتنا پیدل چلنا ممکن ہو سکتا ہے‘ چل رہا ہوں۔ لندن‘ لیسٹر‘ برمنگھم‘ مانچسٹر اور سکاٹ لینڈ کے دو شہر۔ درمیان میں تین چار چھوٹے چھوٹے شہروں کا کوئی ذکر نہیں۔ پیدل چلنے کا یہ عالم ہے کہ ان سولہ سترہ دنوں میں دس ہزار قدموں سے لیکر اکیس ہزار قدم روزانہ کے حساب سے اب تک کا اوسط یومیہ چلنا تیرہ ہزار دو سو قدم ہے جو تقریباً ساڑھے نو کلومیٹر روزانہ بنتا ہے۔ دایاں گھٹنا جب باقاعدہ بآواز بلند صدائے احتجاج بلند کرتا ہے تو میں فٹ پاتھ یا کسی گھر کی سیڑھیوں یا کسی بینچ پر دم لیتا ہوں اور پھر دوبارہ چلنا شروع کر دیتا ہوں۔ ادھر آنے کی وجہ بتانا اس لیے ضروری نہیں کہ کئی قارئین کو صرف اعتراض کرنا بھلا لگتا ہے اور میں ان کو اس کا موقع نہیں دینا چاہتا۔ تاہم جنہوں نے اعتراض کرنا ہے وہ میرے برطانیہ آنے کی غرض وغایت نہ بتانے کے باوجود اعتراض کریں گے۔ اگر ان کو اس میں خوشی ملتی ہے تو بھلا میں اس میں کیوں رکاوٹ بنوں؟
ممکن ہے کبھی اس سرزمین پر سب سے باافراط شے گورے ہوتے ہوں مگر اب جو شے اس سرزمین پر سب سے باافراط دکھائی دیتی ہے وہ درخت ہیں اور سبزہ ہے۔ شیخ اشرف کے ساتھ کمبرلینڈ سے گلاسگو‘ راشد مسعود کے ساتھ گلاسگو سے سٹرلنگ اور کلینڈر جاتے ہوئے سڑک کے دونوں طرف میلوں تک درخت‘ سرسبز جھاڑیاں اور گھاس اس کثرت سے تھا کہ آنکھیں اس کی ٹھنڈک سے شانت ہوتی رہیں۔ سبزے کی اس چادر سے یاد آیا کہ تقریباً ساٹھ برس پہلے میں ابا جی کے ساتھ ملتان سے شجاع آباد گیا‘ ماں جی بھی ساتھ تھیں۔ شجاع آباد میں تب ایک ڈاکٹر اسماعیل ہوتے تھے اور ان کا ہسپتال موتیا کے آپریشن کے حوالے سے پاکستان بھر میں شہرت رکھتا تھا۔ لوگ دور دور سے ان کے ہسپتال میں موتیا کا آپریشن کرانے کے لیے آتے تھے۔ یہ ہسپتال چھپروں والا ہسپتال کے نام سے مشہور تھا۔ اینٹوں کے ستونوں پر دور تک لکڑی کی کڑیوں پر سرکنڈے کی چِق ڈال کر چھپر نما چھت ڈالی ہوئی تھی۔ اسی وجہ سے یہ سیمی اوپن ایئر ہسپتال چھپروں والا ہسپتال کہلاتا تھا۔ یقین کریں بلامبالغہ سینکڑوں مریض ان چھپروں تلے بچھی ہوئی بان والی چارپائیوں پر پڑے ہوتے تھے۔ ان کے ساتھ آئے ہوئے مددگار اور تیماردار ملا لیں تو ہزار بارہ سو سے کیا کم ہوں گے۔ ایک میلہ سا لگا ہوتا تھا۔ بقول شخصے ڈاکٹر اسماعیل کی مہارت کا یہ عالم تھا کہ صبح موتیا کے مریض ایک قطار میں کھڑے ہو جاتے تھے اور ڈاکٹر صاحب اپنا نشتر پکڑے کھڑے کھڑے مریضوں کا آپریشن کرتے جاتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب اسی ایک نشتر سے دن میں سو ڈیڑھ سو مریضوں کا آپریشن کر دیتے تھے۔ نہ کسی کو انفیکشن کی شکایت تھی اور نہ ہیپاٹائٹس سی کا کسی نے نام سنا تھا۔ سب کا یہی کہنا تھا کہ ڈاکٹر اسماعیل کے ہاتھ میں اللہ نے بڑی شفا رکھی ہوئی ہے۔ خدا جانے اب شجاع آباد کی نئی نسل نے پاکستان بھر میں شہرت پانے والے ڈاکٹر اسماعیل اور اس کے شہرہ آفاق ہسپتال کا نام بھی سنا ہے یا نہیں۔ جب میں ساٹھ سال پہلے نانا جان کو دیکھنے کے لیے شجاع آباد گیا تو نانا جان کی آنکھ پر سبز رنگ کے کپڑے کا ٹکڑا دھاگے کی مدد سے لٹکایا ہوا تھا۔ میں نے آنکھ پر بندھے ہوئے سبز رنگ کے کپڑے کی وجہ دریافت کی تو ابا جی کہنے لگے: بیٹا! یہ سبز کپڑا آنکھوں اور زخم کو ٹھنڈک پہنچاتا ہے۔ وہاں موجود سینکڑوں مریضوں نے آپریشن کے بعد اپنی آنکھوں پر یہی سبز کپڑے کا ٹکڑا لٹکایا ہوا تھا۔ میں نے بارہا ابا جی کی اس بات پر غور کیا تو اندازہ ہوا کہ سبزہ واقعی آنکھوں کو ٹھنڈک‘ تراوت اور سکون دیتا ہے۔ میں جب بھی سبزہ دیکھتا ہوں اور اس کا اثر اپنی آنکھوں اور اس کا بخشا ہوا سکون اپنے دل پر محسوس کرتا ہوں تو مجھے ساٹھ سال قبل شجاع آباد میں ڈاکٹر اسماعیل کے چھپروں والے ہسپتال میں ابا جی کی کہی ہوئی بات کی سچائی یاد آ جاتی ہے۔
چند روز قبل دریائے تھیمز کے کنارے پر سینٹرل لندن سے محض چند کلومیٹر دور لندن کی نواحی میونسپلٹی (Borough) گرینچ (Greenwich) جانے کا اتفاق ہوا۔ یہ وہی گرینچ ہے جس سے دنیا بھر میں وقت کی پیمائش اور حساب لگایا جاتا ہے۔ یہاں کے وقت کو معیار بنا کر دنیا بھر میں دیگر علاقوں اور ملکوں کا وقت متعین کرتے ہوئے GMT کے ساتھ جمع یا تفریق‘ کا نشان لگا کر واضح کیا جاتا ہے کہ یہ وقت جی ایم ٹی یعنی گرینچ مین ٹائم سے کتنا آگے یا پیچھے ہے۔ بچپن میں ہم اسے ''گرین وِچ‘‘ پڑھتے تھے اور ہم ہی کیا سب یہی پڑھتے تھے۔ اللہ بخشے ماسٹر گلزار صاحب کو‘ انہوں نے ہمیں گرین وچ مین ٹائم ہی بتایا تھا۔ تب یہ بھی بتایا کہ پاکستان کا معیاری وقت یعنی پاکستان سٹینڈرڈ ٹائم (PST) کا تعین شکر گڑھ کو مرکز مان کر کیا جاتا ہے۔ 1947ء تک برصغیر کا معیاری وقت گرینچ سے ساڑھے پانچ گھنٹے آگے یعنی GMT +5:30 تھا مگر پاکستان بننے کے بعد کراچی اور ڈھاکہ کے لیے علیحدہ علیحدہ وقت طے ہوا۔ کراچی کا وقت جی ایم ٹی سے پانچ اور ڈھاکہ کا وقت گرینچ مین ٹائم سے چھ گھنٹے آگے تھا۔ پھر ہم نے ملک کے دونوں حصوں میں رائج دو اوقات کا ٹنٹنا ہی ختم کر دیا۔ 1971ء میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد کراچی اور ڈھاکہ کے علیحدہ اوقات کے بجائے اسے پاکستان سٹینڈر ٹائم کا نام دے کر قوم کے لیے آسانی پیدا کر دی گئی تھی۔
بات گرینچ کی ہو رہی تھی۔ رات گئے اسد نے زمین کی طرف اشارہ کرکے بتایا کہ دیکھیں یہاں آپ کو مٹی دکھائی دے رہی ہے۔ فٹ پاتھ پر یہاں مٹی دکھائی دینا عجیب بات ہے۔ ہر طرف سبزہ ہے اور مٹی دکھائی ہی نہیں دیتی‘ ایسے میں مٹی دکھائی دے تو عجیب ہی لگے گی۔ ہر خالی جگہ خواہ ایک انچ ہی کیوں نہ ہو‘ آپ کو سبزہ دکھائی دے گا۔ گھروں کے صحن بھلے چند فٹ پر ہی مشتمل کیوں نہ ہوں‘ گھاس‘ پودے حتیٰ کہ درخت سے خالی دکھائی نہیں دیتے۔ تھوڑا عرصہ قبل ایک غیر ملکی سفر کے دوران پنجاب کے محکمہ ماحولیات کے سربراہ میرے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھے ہوئے تھے۔ دورانِ سفر گفتگو میں ماحول بھی زیر بحث آ گیا۔ میں نے انہیں کہا کہ کیا ایسا ممکن نہیں کہ آپ اپنے ترقیاتی اداروں مثلاً ایل ڈی اے‘ ایم ڈی اے اور دیگر شہروں میں تعمیراتی سرگرمیوں پر کنٹرول اور قواعد کے نفاذ کے دوران یہ لازم قرار دے دیں کہ دس مرلہ کے مکان کے لیے اتنے فٹ کا صحن چھوڑنا اور کم از کم ایک درخت لگانا اور اسی طرح مختلف سائز کے گھروں کے لیے صحن اور درختوں کی تعداد طے کرتے ہوئے اس پر عمل لازم قرار دے دیں اور اس کے بغیر پہلے تو نقشہ ہی منظور نہ کیا جائے اور اس کی تکمیل کا سرٹیفکیٹ بھی اس کی تصدیق کے بعد ہی جاری کیا جائے۔ انہوں نے اصولی طور پر میری بات سے اتفاق کیا مگر عملی طور پر میری تجویز صفر جمع صفر سے آگے نہ جا سکی۔
سبزہ اُگانا اور درخت لگانا بھلا کون سی راکٹ سائنس ہے۔ اس کے لیے ہمیں امریکی اجازت‘ مقتدرہ کی منظوری یا آئی ایم ایف کی طرف سے پابندی کا کوئی خوف نہیں کہ ہم یہ کام نہ کر سکیں۔ اگر ہم یہ سادہ سا کام بھی نہیں کر سکتے تو پھر شجرکاری مہم اور محکمہ جنگلات وغیرہ کی موجودگی کا کیا جواز ہے؟ یہ ڈرامے بند کر دیے جائیں تو بھی اس ملک کا اربوں روپے کا خرچ بچ سکتا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں