یہ ملک ایک ایسا باغ ہے جسے نہایت ساز گار موسم‘ نہایت زرخیز مٹی‘ بہت ہی شاندار پھل پھول‘ پودے اور درخت‘ یوں سمجھیں کہ اس چمن کو ہر قدرتی نعمت میسر ہے لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ اسے نہایت بے ایمان‘ اعلیٰ درجے کے چور‘ خصلتاً لٹیرے‘ طبعاً فراڈیے اور دو نمبر قسم کے مالیوں اور محافظوں سے پالا پڑا ہے۔ موسم‘ مٹی‘ ماحول‘ پودے اور درخت سب کچھ شاندار ہونے کے باوجود اگر باغ میں دھول اُڑ رہی ہے‘ پودے سوکھ رہے ہیں‘ درخت مرجھا رہے ہیں اور پھل پھول دکھائی نہیں دے رہے تو اس پر صبر شکر کرکے تو نہیں بیٹھا جا سکتا۔ لیکن اس بربادی پر کہرام مچانے‘ ذمہ داروں کو ان کی ذمہ داری کا احساس دلانے اور انہیں جھنجھوڑنے والوں کے بارے میں یہ تصور کرنا کہ ایسا کرنے والے باغ کے وجود ہی کے خلاف ہیں ‘ نہایت ہی احمقانہ خیال ہو گا۔
اگر ہمیں اس ملک کی تخلیق سے اختلاف ہوتا‘ اس ملک کی سرزمین سے محبت نہ ہوتی‘ اگر یہ ہمارے خوابوں کی تعبیر نہ ہوتا‘ اگر ہم یہاں زندگی گزارنے کے قائل نہ ہوتے اور اگر ہم اس ملک کو رہنے کے قابل نہ سمجھتے تو بھلا ہمیں کون سی طاقت یہاں رہنے پر مجبور کر سکتی تھی؟ ہم کم از کم اس ملک سے ہجرت تو کر سکتے تھے۔ اگر ہمیں اس ملک میں نہ رہنا ہوتا تو بھلا ہمیں اس کی بھلائی اور بہتری سے کیا غرض ہو سکتی ہے؟ ہمیں اس ملک کو بہتر حالت میں دیکھنے کا شوق نہ ہو تو بھلا اس میں ہونے والی خرابیوں پر کیوں کڑھیں اور اپنے جی کو جلائیں؟ ساری مصیبت ہی اس بات کی ہے کہ ہم نے یہیں رہنا ہے۔ زندگی کے بقیہ دن یہیں گزارنے ہیں۔ یہیں دم دینا ہے اور اسی ملک کی مٹی اوڑھ کر تاقیامت لمبی نیند سونا ہے۔ پاک مائی کے قبرستان میں ایک چھوٹے سے پلاٹ سے اس مسافر کی محبت بلاوجہ تو نہیں ہے۔
اگر یہاں نہ رہنا ہو تو بھلے اسے کالے چور اٹھا کر لے جائیں‘ ہمیں کیا پروا یا فکر ہو سکتی ہے۔ لیکن وطن سے محبت کا یہ مطلب نہیں کہ اس میں جو کچھ بھی ہو رہا ہو بھلے یہ برباد ہو رہا ہو‘ اس پر نہ صرف خاموش رہا جائے بلکہ ان ساری خرابیوں کے گن بھی گائے جائیں۔ عدل و انصاف کی عدم فراہمی پر عدل و انصاف کا تقاضا نہ کیا جائے۔ عدم تحفظ پر احتجاج نہ کیا جائے۔ حقوق غصب ہونے پر کہرام نہ مچایا جائے۔ آئین کے پرخچے اڑنے پر آواز بلند نہ کی جائے۔ حکمرانوں کے اللوں تللوں پر خاموشی اختیار کی جائے۔ اس ملک کی نظریاتی اساس کا مذاق اڑانے والوں پر نفرین نہ کی جائے۔ ملکی دولت لوٹ کر لے جانے والوں کی مذمت نہ کی جائے۔ عوام کی رائے اور مینڈیٹ چوری کرنے والوں کی نشاندہی نہ کی جائے۔ ٹریفک سے لے کر تعلیم اور معیشت سے لے کر اخلاقیات کی بربادی پر قلم نہ اٹھایا جائے۔ جمہوریت پر شب خون مارنے والوں کو کم از کم دل سے برا نہ سمجھا جائے۔ اداروں کی بربادی اور زور آوروں کی جگا گیری کے خلاف سوچنا اورلکھنا بند کر دیا جائے اور ہر غلط سلط کام ہوتا دیکھ کر صبر شکر کیا جائے کہ یہی اس وطن سے محبت کی دلیل ہے۔ نہایت معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ یہ وطن سے محبت نہیں کہ وہاں ہونے والی ہر خرابی اور ہر غلط کام پر داد کے ڈونگرے برسائے جائیں اور تالیاں پیٹی جائیں۔ ہم باغ کے نہیں‘ اسے برباد کرنے والے باغبان اور مالی کے خلاف ہیں۔ پودوں اور گملوں کی چوری پر باغ کے خاتمے کے بجائے چوکیداروں کے احتساب کے طالب ہیں۔
اس ملک سے محبت اور ہمدردی یہ نہیں کہ جو یہاں ہو رہا ہے اس کی تائید کی جائے۔ اس پر خاموش رہا جائے یا اس کا ذکر نہ کیا جائے یہ اس ملک سے محبت اور ہمدردی نہیں بلکہ ظلم و زیادتی ہے۔ ہم نے یہیں رہنا ہے اور ہماری اگلی نسلوں نے بھی ادھر ہی زندگی گزارنی ہے۔ ہم نے اس ملک کو ویسے تو کبھی بھی قابلِ فخر صورتحال میں نہیں دیکھا مگر گزشتہ تین چار دہائیوں میں اس کا جو برُا حال ہوتے دیکھا ہے‘ اس پر یہ تکلیف ضرور ہوتی ہے کہ دنیا بھر کے ممالک آگے جا رہے ہیں اور ہم پیچھے کی طرف کھسکتے جا رہے ہیں۔ دیگر ممالک ترقی کی نئی منزلیں طے کر رہے ہیں اور ہم ترقیٔ معکوس کی طرف گامزن ہیں۔ باقی دنیا کو چھوڑیں صرف یہ دیکھیں کہ آج سے چالیس پچاس برس قبل چین کہاں تھا؟ چینی حکومت کے عہدیدار پاکستان سے بیکو کی پاور لومز نہ صرف خرید کر لے جاتے تھے بلکہ ویسی لومز بنانے کیلئے پاکستان کے انجینئرز سے تکنیکی مدد بھی لیتے تھے۔ پی آئی اے دنیا کی بہترین ایئر لائنز میں شمار ہوتی تھی اور خطے کی سب سے لمبی پرواز کا ریکارڈ رکھتی تھی۔ ہمارے ترقیاتی منصوبوں کی دیگر ممالک نقل کیا کرتے تھے۔ اور ہاں! ہم نے تب جرمنی جیسے ملک کو دس لاکھ ڈالر کی امداد بھی فراہم کی تھی۔
پھر آمدن سے زیادہ خرچ کا رواج پروان چڑھا‘ حکومتی اللوں تللوں میں بے تحاشا اضافہ ہو گیا۔ حکمرانی موج میلے کا نام بن گئی۔ آمدن سے زیادہ خرچ صرف سرکار تک محدود نہ رہا بلکہ اس میں سرکاری افسر اور اہلکار بھی شامل ہو گئے۔ سرکار نے اپنا اضافی خرچہ قرضوں سے پورا کرنا شروع کردیا اور سرکاری افسران نے اپنی عیاشی اور موج میلے کیلئے رشوت لینا شروع کر دی‘ جب ہر دو فریقوں نے باہمی بھائی چارے سے کام لیتے ہوئے ایک دوسرے کے احتساب کے بجائے تعاون کو شعار بنایا تو یہ عادتِ بد ہر شعبے میں اوپر سے لے کر نیچے تک سرایت کر گئی۔ حال آپ کے سامنے ہے۔
ٹریفک کا نظام ناقابلِ یقین حد تک بگڑ چکا ہے۔ اسے ٹھیک کرنا کوئی راکٹ سائنس نہیں۔ ناجائز تجاوزات کا عفریت گلیوں اور سڑکوں کو نگل رہا ہے۔ اس پر قابو پانا صرف انتظامی مسئلہ ہے۔ پولیس کا نظام عوام کی سہولت کے بجائے عوام کیلئے مصیبت کا باعث بن چکا ہے اس کی درستی اگر دنیا کے دیگر ممالک میں ہو سکتی ہے تو یہاں کیسے ممکن نہیں۔ پٹوار کا نظام شیر شاہ سوری کے زمانے سے ہزار گنا بدتر ہو چکا ہے‘ بھلا اس کی اوور ہالنگ کون سی ناممکنات میں سے ہے۔ عدل و انصاف کا نظام اگر موجودہ عدلیہ نہیں چلا سکتی تو اس سارے جھنجھٹ کو مصنوعی ذہانت کے حوالے کردیا جائے‘ اس سے کہیں بہتر اور فوری نتائج دکھائی دیں گے۔ تعلیم اور صحت کا نظام ہم نے اپنی آنکھوں سے نہایت احسن طریقے سے چلتا دیکھا ہے اور اب عالم یہ ہے کہ حکومت سکول اور ہسپتال نجی شعبے کے حوالے کرکے چین کی بنسری بجانے کی طرف گامزن ہے۔ اگر تعلیم اور صحت کا نظام نجی شعبے نے ہی چلانا ہے تو سرکار نے کیا کرنا ہے؟ سڑکیں پہلی بارش میں بہہ رہی ہیں اور اربوں روپے کی مالیت سے تکمیل پانے والی نہریں آزمائشی مرحلے پر ٹوٹ پھوٹ جائیں تو کیا سرکار کی مدح سرائی کی جائے؟ صحت‘ تعلیم‘ تھانہ‘ کچہری‘ پٹوار‘ ٹریفک‘ امن و امان‘ عدل و انصاف‘ سیاسی نظام‘ آئین و قانون‘ عوامی نمائندے‘ اسمبلیاں‘ ملک کے نظام کو جکڑے ہوئے اَن گنت مافیاز‘ مقتدرہ کی پیش دستیاں‘ حکومت کی نااہلیاں‘ اشرافیہ کے موج میلے اور نوکر شاہی کا تعفن زدہ نظام۔ کسی صاحبِ ضمیر سے پوچھ کر دیکھ لیں کہ ان میں کیا چیز ہے جو ٹھیک ہے؟ اگر ٹھیک نہیں تو اسے بھلا ٹھیک کیسے کہا جا سکتا ہے؟ اسے تبھی ٹھیک کہا جائے گا جب یہ واقعتاً ٹھیک ہوں گی۔
گھر کی خرابیوں کی درستی کا مطالبہ اس گھر سے دشمنی یا مخالفت نہیں‘ اس گھر سے حقیقی ہمدردی ہے۔ گھر کے دروازے کی چٹخنی ٹوٹ جائے تو اس معاملے کو گول کرنے کے بجائے اس کی مرمت ضروری ہے وگرنہ جس کا جو جی چاہے گا لوٹ کر لے جائے گا۔ ہم گھر کی چٹخنی ٹوٹ جانے پر اس کی مرمت کیلئے آواز بھی بلند کریں گے اور شور بھی مچائیں گے۔ ہم نے اسی گھر میں رہنا ہے اور اس کی تزئین و آرائش میں اپنا حصہ بھی ڈالنا ہے۔ بطور قلمکار ہمارا حصہ خرابیوں کی نشاندہی کرنا ہے اور ہم یہ کام کرتے رہیں گے۔ جو اس کا دوسرا مطلب نکالتے ہیں اللہ انہیں عقل سلیم عطا کرے۔