"KNC" (space) message & send to 7575

سوء فہم

میرا احساس ہے کہ ہمارے بہت سے اختلافات سوء فہم کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ اس کے محرکات متنوع ہو سکتے ہیں۔ بسااوقات ہم کسی فرد کے بارے میں پہلے سے ایک تاثر قائم کیے ہوتے ہیں۔ اسی کے تحت اسے پڑھتے اور سنتے ہیں۔ اگر کبھی کوئی ایساجملہ دکھائی یا سنائی دے جو اس تاثر کی تائید کرتا ہو توجوشِ تنقید میں ،شتابی سے ہمارا قلم یا ہماری زباں رواں ہوتی ہے اور یوں اپنے تئیں ہم ایک غلط مقدمے کو رد کرنے کا فریضہ سر انجام دیتے ہیں۔ اگر ہم اس جوش کو کچھ دیر کے لیے تھام سکیں اور پہلے پوری بات کو جان لیں تو اس کا امکان ، اکثر موجود ہوتا ہے کہ ہم جس بات کی تائیدمیں اپنی صلاحیتیں کھپاتے ہیں، وہ زیرِ تنقید مقدمے میںموجود ہوتی ہے۔
سوء فہم کا ایک مظہر یہ بھی ہوتا ہے کہ ہم سیاق و سباق اورایک صاحب ِعلم کے نظامِ فکر کو نظر انداز کرتے ہوئے، کسی ایک جزو کو موضوع بناتے اور اس کی رد میں مشغول ہوجاتے ہیں۔اس صورت میں جزوکی تردید کے لیے پہلے کل کو رد کرنا ضروری ہے۔
استادِ گرامی جاوید احمد صاحب غامدی کا جوابی بیانیہ، آج کل سوء فہم کی زد میں ہے۔ان کی اصل بات کہیں زیر بحث نہیں۔ حسب ضرورت و خواہش ،اس بیانیے کے مختلف اوراق کو لوگ لے اڑے اور اب چمن میں ہر طرف یہ داستان بکھری ہوئی ہے۔ جاوید صاحب دین کے ایک عالم ہیں۔ ہر عالم کی طرح ان کی رائے پر تنقید جرم ہے نہ گناہ۔ یہ خیال کرنا جہالت آمیز عقیدت ہے کہ ان کی کسی بات پر نقد نہیں ہوسکتا۔ ہر ذی علم یہ حق رکھتا ہے کہ وہ ان کے مقدمے کو تنقیدکا موضوع بنائے اور اپنی دانست میں صحیح بات لوگوں کے سامنے رکھے۔میرا احساس یہ ہے کہ جتنی صلاحیتیں نقد پر صرف کی جا رہی ہیں، اس سے نصف اگر ان کی بات کی درست تفہیم پر خرچ کر لی جائیں تو شاید مجھ جیسے طالب علموں کا بھلا ہو۔ اس سے دو نتائج متوقع ہیں۔ ایک یہ کہ پہیہ دوبارہ ایجاد کرنے کی ضرورت پیش نہ آئے۔ یعنی اس بات کی تائید پر زور قلم صرف نہ ہو جو زیرِ بحث بیانیے میں پہلے سے مو جود ہے۔ دوسرا نتیجہ یہ ہو سکتا ہے کہ یہ تنقیدبیانیے کے ان نکات پر ہو جو فی الواقعہ تنقید یا تنقیح کے محتاج ہیں۔ یوں ایک بحث مثبت انداز میں آگے بڑھے اور لوگ اس سوء ظن سے محفوظ رہیں جو در اصل سوء فہم کا نتیجہ ہے۔ میں اپنے مقدمے کو چند مظاہر سے واضح کر رہا ہوں۔
1۔ جاوید صاحب نے اپنے بیانیے میں یہ لکھا ہے کہ اگر کسی ریاست میں زمام کار مسلمانوں کے ہاتھ میں ہے تو وہ ریاستی و اجتماعی امورمیںاﷲ اور رسول کی ہدایت اور احکام کے پابند ہیں جو قرآن وسنت میں بیان ہوئے ہیں۔ انہوں نے سات نکات کی صورت میں ان احکامات کی فہرست بھی دے دی۔ مسلمانوں کی حکومت کا ایک فریضہ وہ ان لفظوں میں بیان کرتے ہیں:''اسلام کی دعوت کو اقصائے عالم تک پہنچانے کے لیے حکومت کی سطح پر اہتمام کیا جائے گا۔دنیا کی کوئی طاقت اگر اس میں رکاوٹ پیدا کرے گی،ایمان لانے والوں کو جبرو تشدد کا نشانہ بنائے گی ،تو حکومت اپنی استطاعت کے مطابق، اس رکاوٹ کو دور کرنے اوراس تشدد کو روکنے کی کوشش کرے گی؛اگرچہ اس کے لیے تلوار اٹھانی پڑے‘‘۔وہ اس بات کا اختتام ان الفاظ پر کرتے ہیں:''نظم ِاجتماعی سے متعلق یہ شریعت کے احکام ہیں جواس تنبیہ اور تہدید کے ساتھ دیے گئے ہیں کہ جو لوگ خدا کی کتاب کو مان کر،اُس میں خدا کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلے نہیں کرتے، قیامت کے دن وہ اُس کے حضور میں ظالم،فاسق اور کافر قرار پائیں گے۔‘‘اس واضح موقف کے باوجود، ان کی ہمت کو داد دیجیے جو اس بیانیے سے سیکولرزم بر آمد کر رہے ہیں۔دل پر ہاتھ رکھ کر بتایئے،کیا یہ وہی بات ہے 'جو مستشرقین اور مغربی جامعات سے اسلامیات میں پی ایچ ڈی کی ڈگریاں لے کرآنے والے دانش ور سیکڑوں مرتبہ دہراتے رہے ہیں؟ 
2۔ جاوید صاحب نے یہ لکھا ہے کہ قومیت کی اساس نسل ، جغرافیہ،تہذیب، زبان ہو سکتے ہیں اور مذہب بھی۔برصغیر میں مسلمانوں کے سوادِ اعظم نے مذہب کو قومیت کی اساس مان لیا۔بطورامرِ واقعہ،اس کا انکار محال ہے لیکن یہ بات کہ اسلام میں قومیت کی اساس صرف مذہب ہے، اس کی کوئی دینی بنیاد نہیں۔ اس مقدمے کو رد کرتے ہوئے کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ اسلام میں قومیت کی صرف ایک اساس ہے اور وہ مذہب ہے۔ ظاہر ہے کہ اس مقدمے کو قرآن و سنت کے نصوص ہی سے ثابت کیا سکتا ہے۔ناقدین نے اس کے بجائے، سارا زور اس پر صرف کیا ہے کہ تاریخ میں مذہب قومیت کی اساس رہا ہے۔ جاوید صاحب نے تو کہیں یہ نہیں کہا کہ '' مذہب قومیت کی اساس نہیں بن سکتا۔‘‘تاہم کسی عہد میںنسل یا جغرافیہ بھی قومیت کی اساس بنتے ہیں تو مذہب اس کی ممانعت نہیں کرتا۔
جاوید صاحب پہلے آدمی نہیں ہیں جنہوں نے یہ بات کہی ہے۔ مولانا حسین احمد مدنی اور مولانا ابو الکلام آزاد جیسے اہلِ علم ، اس سر زمین پر ان خیالات کے علم بردار رہے ہیں۔ حیرت ہے کہ ان شخصیات کو شیخ العرب و العجم اور امام الہند ماننے والے ، اس مقدمے کو اس لیے قابل اعتراض قرار دے رہے ہیں کہ آج اس کی نسبت ایک ایسے صاحبِ علم سے ہے جو ان کے مدرسہ فکر میں زیرِ تربیت نہیں رہا۔ اگر یہ بات دین کے کسی بنیادی مقدمے کا انکار ہے تو اس کا ارتکاب بزرگان ملت کر چکے۔ دیانت کا تقاضا یہی ہے کہ اس پر تنقید کے کار خیر کا آغاز بھی وہیں سے کیا جائے۔ میرے نزدیک البتہ یہ بات زیادہ اہم نہیں ہے کہ کس نے کیا کہا۔ معاملہ سادہ ہے : اگر اسلام میں قومیت کی اساس صرف مذہب ہے تو لازم ہے کہ اس کے حق میں قرآن و سنت سے دلائل پیش کیے جائیں۔ اس کے علاوہ تاریخ یاکسی اور دلیل اور حوالے سے مقدمہ ثابت نہیں ہو سکتا۔رہا یہ سوال کہ اسلامی وحدت کی بنیاد روحانی اور مذہبی ہے یا سیاسی ،اس کو میں انشااللہ الگ سے موضوع بناؤں گا۔
3۔ جاوید صاحب جب یہ کہتے ہیں کہ خلافت دین کی اصطلاح نہیں ہے تو سیاق و سباق سے واضح ہے کہ یہاں خلافت ایک عالمی نظم اجتماعی کے مفہوم میں ہے۔ اس کے رد میں جو کچھ لکھا گیا، میرے جیسا طالب علم اس کی تفہیم سے قاصرہے۔ ایک محترم صاحب علم نے لکھا : '' ظاہر ہے کہ قرآن کریم ایک نہیں چودہ مقامات پر اس اصطلاح (خلیفہ،استخلاف وغیرہ ) کو اس کی مختلف شکلوں میں استعمال کر رہا ہے تو اسے اسلامی اصطلاح ہی ہونا چاہیے۔‘‘ یہ جملہ اپنے وجود میں غلطی ہائے مضامین کا مجموعہ ہے۔ جس لفظ کو خود قرآن مختلف شکلوں میں استعمال کر رہا ہے، وہ اصطلاح کیسے ہو گیا؟ اصطلاح کا تو ایک ہی مفہوم ہوتاہے۔ پھر یہ کہ قرآن میں تو کئی الفاظ استعمال ہوئے ہیں، کیا وہ سب اصطلاحات ہیں؟ قرآن جب یہ کہتا ہے کہ انسان کو خلیفہ بنایا گیا ہے تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر انسان زمین پر حکمران ہے؟ اس موقف کو ایک اور حوالے سے دیکھیے۔ تصوف میں صوفیا اپنے جانشینوں کو خلافت عطا کرتے ہیں۔ کیا اس سے مراد اقتدار ہے؟ جاوید صاحب یہ کہہ رہے ہیں کہ خلافت ، ایک سیاسی نظم کے طور پر کوئی دینی اصطلاح نہیں ہے جس کے قیام کو دین نے فریضہ قرار دیا ہو۔ با الفاظ دیگر یہ دین کا حکم نہیں ہے کہ ساری دنیا کے مسلمان ایک ہی سیاسی نظم کے تحت زندگی گزاریں۔معاملہ یہاں بھی سادہ ہے : اگر ایک نظمِ سیاسی کا قیام دین کا حکم ہے تو اس مقدمے کو قرآن و سنت کے نصوص کی تائید حاصل ہونی چاہیے۔
یہ چند نظائر ہیں ورنہ ان کی فہرست طویل ہو سکتی ہے۔ اہل علم سے میری درخواست یہ ہے کہ اگر وہ جاوید صاحب کے بنیادی مقدمے کو موضوع بنائیں تو اس سے بحث آگے بڑھے گی اور دین کے طالب علموں کا فائدہ ہو گا۔ خلط مبحث سے کبھی فکری ارتقا نہیں ہوتا۔مزید برآں، دین کا مقدمہ تاریخ سے ثابت ہوتا ہے نہ ہی تاریخ سے رد کیا جاسکتا ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں