خدمت کا صلہ‘ کیا سیاسی تائید کی صورت میں مل سکتا ہے؟
سیاسی جماعتوں میں کوئی ایک جماعت ایسی نہیں جو اس باب میں جماعت اسلامی کی ہم سری کا دعویٰ کر سکے۔ 'الخدمت‘ تو ایک تنظیم کا نام ہے‘ ورنہ سماجی کام کے حوالے سے جماعت کی ایک تاریخ ہے جو عشروں پر محیط ہے۔ اس خدمت کی سب تحسین کرتے ہیں۔ لوگ جماعت کی دیانت پر اعتماد کرتے ہیں مگر یہ عوامی اعتراف کبھی سیاسی فائدے میں نہیں ڈھل سکا۔ جماعت پیسوں کے لیے ڈبہ رکھے تو نوٹوں سے بھر جاتا ہے۔ ووٹ کا ڈبہ مگر خالی رہتا ہے۔ اس کے مقابلے میں عمران خان صاحب ہیں۔ پہلے نوٹوں اور اب تو ووٹوں سے بھی ڈبے بھرنے لگے ہیں۔ یہ ماجرا کیا ہے؟
ایک فرق سب سے پہلے واضح رہنا چاہیے۔ جماعت اسلامی کی بنیاد ایک سیاسی جماعت کے طور پر نہیں رکھی گئی۔ یہ ایک تحریک تھی۔ ہمہ گیر تبدیلی کی تحریک۔ اقتدار کا حصول اس کی جدوجہد کا آخری مرحلہ تھا‘ پہلا نہیں۔ تمام مراحل‘ تاہم روزِ اوّل ہی سے واضح تھے۔ یاد دہانی کے لیے عرض ہے کہ جماعت 1941ء میں قائم ہوئی‘ جب انگریزوں کا دور تھا۔ یوں اقتدار کے حصول کا کوئی امکان سرے سے موجود نہیں تھا۔ جماعت جس تبدیلی کے لیے سرگرم تھی‘ وہ فکری تھی‘ سماجی تھی اور سیاسی بھی۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے اس کی تفصیلات اپنی تحریروں میں بیان کر رکھی ہیں۔
یہ تحریک ابتدا ہی سے خدمت کو اپنے مقاصد میں شامل کیے ہوئے تھی۔ یوں خدمت سے براہِ راست اقتدار کی کشید‘ اس کا مقصد نہیں تھا۔ تاہم ایک ہمہ جہتی تبدیلی کے لیے اس کی اہمیت مسلمہ تھی۔ پاکستان بننے کے بعد‘ جماعت کی حکمتِ عملی تبدیل ہوئی۔ اس نے فکری اور سماجی تبدیلی کے لیے اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں مگر ساتھ ہی حصولِ اقتدار کی جد وجہد میں بھی براہِ راست شامل ہو گئی۔ تقسیم کے بعد بھی خدمت کا کام حسبِ سابق جا ری ہے۔
عمران خان صاحب نے سماجی خدمت کو اپنا میدان بنایا۔ ابتدا میں ایک ہسپتال کا قیام ہی ان کے پیشِ نظر تھا۔ سماجی تبدیلی کے کسی ہمہ گیر تصور سے وہ واقف نہیں تھے۔ عوام نے اس کام میں دل کھول کر ان کی مدد کی۔ اقتدار کے حقیقی مالکوں اور سماج میں موجود بعض عناصرکو‘ جو سیاسی تبدیلی کے متمنی تھی‘ یہ خیال آیا کہ اگر عمران خان کی طرف عوام کے اس التفات کو سیاسی تائید میں بدل دیا جائے تو روایتی سیاست دانوں سے نجات مل سکتی ہے۔
ابتدا میں مگر ایسا نہ ہو سکا۔ عمران خان کئی سال یوسفِ بے کارواں ہی رہے۔ آٹھ سال کی سیاسی جد وجہد کے بعد وہ ایک نشست ہی جیت سکے اور وہ بھی پرویز مشرف صاحب کی تائید سے۔ شوکت خانم ہسپتال کے لیے پیسے دینے والا انہیں ووٹ دینے کے لیے آمادہ نہیں ہوا۔ 2011ء میں‘ تحریکِ انصاف کے قیام کے پندرہ سال بعد‘ عوام کے ایک بڑے طبقے نے ان کی سیاسی تائید کا فیصلہ کر لیا۔ اب شوکت خانم ہسپتال‘ ان کے لیے سیاسی اثاثہ بن گیا۔ سوال یہ ہے کہ ان پندرہ برسوں میں ایسا کیا ہوا جس کے نتیجے میں یہ تبدیلی آئی؟ وہ سماجی کام جو جماعت اسلامی کی سیاسی کامیابی میں مدد گار نہیں بنا‘ عمران خان کی سیاست کے لیے‘ کیسے ریڑھ کی ہڈی بن گیا؟
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی اور عمران خان کا تقابل بد ذوقی کی انتہا ہو گی۔ عوام کے سیاسی ذوق کا معاملہ مگر یہ ہے کہ مولانا مودودی اس کا انتخاب نہ بن سکے۔ جماعت اسلامی کا سماجی کام بھی‘ سیاست میں اس کے کسی کام نہیں آیا۔ جماعت کا کارکن چونکہ دینی مزاج رکھتا ہے‘ اس لیے انفرادی سطح پر وہ ایسے کام خدا کی رضا اور آخرت کے لیے کرتا ہے۔ اس لیے اس کا اجر ان شاء اللہ اسے ملے گا۔ تاہم یہ اس کی فطری خواہش ہو گی کہ اس کا یہ کام سماج کو متاثر کرے اور جماعت اسلامی کی سیاسی تائید میں ڈھلے۔ اس کی یہ خواہش کیوں پوری نہ ہو سکی؟ یہی سوال میرے پیشِ نظر ہے۔
لوگ عمران خان کی ذات سے وابستہ گلیمر کو اہم سمجھتے ہیں۔ مجھے بھی اس کی اہمیت سے انکار نہیں مگر یہ گلیمر تو اس وقت اپنے عروج پر تھا جب تحریکِ انصاف کی بنیاد رکھی گئی۔ پندرہ سال یہ گلیمر‘ سماجی کام کی طرح سیاسی اثاثہ نہیں بن سکا۔ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ عمران خان کے جلسے میں اڑھائی تین سو کرسیاں لگائی جاتی تھیں اور ان میں بھی بہت سی خالی رہتی تھیں۔ اس دوران میں کوئی ایسا چمتکار ہوا جس نے انہیں ایک موثر سیاسی قوت بنا دیا۔وہ کیا تھا؟
یہ ایک غیر معمولی ابلاغی مہم تھی جس نے عمران خان کی ذات سے وابستہ تمام اجزا کو جمع کیا اور ان کی شخصیت کو ایک مثالی صورت دے کر اسے سماج کے لیے پُر کشش بنا دیا۔ اگر آپ جدید مارکیٹنگ کو سمجھتے ہیں تو اس عمل کی تفہیم آپ کے لیے مشکل نہیں ہوگی۔ اس وقت بازار میں بہت سے صابن ہیں۔ کئی طرح کے شیمپو ہیں۔ آپ کسی ایک کو ترجیح دیتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ آپ غور کریں گے تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ اس میں بڑا دخل اس ابلاغی مہم کا ہے جو آپ کو قائل کرنے میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے کہ ایک صابن‘ دوسروں کے مقابلے میں بہتر کیوں ہے۔
سیاست میں‘ ہمارے ہاں مارکیٹنگ کے فن کو کبھی اس کامیابی سے استعمال نہیں کیا گیا۔ اس ابلاغی مہم میں کمال مہارت کے ساتھ شوکت خاتم ہسپتال اور نمل یونیوسٹی جیسے منصوبوں کو شامل کیا گیا اور اس سے یہ نتیجہ نکالا گیا کہ جو شخص بغیر حکومت کے ایسے منصوبے بنا سکتا ہے‘ اگر حکومتی وسائل بھی اس کے حوالے کر دیے جائیں تو وہ کیسے شاندار نتائج دے سکتا ہے۔ یہ منصوبے‘ اس میں شبہ نہیں کہ عمران خان صاحب کے نامہ اعمال میں لکھے اچھے کام ہیں۔ سوال مگر یہ ہے کہ یہی کار ہائے نمایاں‘ جماعت اسلامی نے بھی سرانجام دیے لیکن ان کے حق میں یہ مقدمہ قائم نہیں ہو سکا۔
جماعت نے تو عبدالستار افغانی اور نعمت اللہ خان کی صورت میں اس کی عملی مثالیں بھی پیش کیں۔ اقتدار نے عمران خان صاحب کے بظاہر صاف دکھائی دینے والے دامن پر بہت سے داغ لگا دیے۔ یہ حضرات تو کرپشن کے دریا سے خشک دامن کے ساتھ نکل آئے۔ پھر یہ معاملہ صرف جماعت اسلامی کے ساتھ خاص نہیں ہے۔ حکیم محمد سعید جیسی شخصیت نے بھی سیاست کا رخ کیا اور عوام کا دل ان کے لیے نہیں پسیجا۔
آج بھی‘ اپنے اور غیر سب اعتراف کر رہے ہیں کہ سیلاب کے متاثرین کی سب سے زیادہ خدمت جماعت اسلامی کے لوگ کر رہے ہیں۔ تحریکِ انصاف کے ٹائیگر کہیں دکھائی نہیں دے رہے۔ اس عوامی اعتراف کے باجود‘ گمان یہی ہے کہ لوگ جماعت اسلامی کو ووٹ نہیں دیں گے۔ اس تقابل سے میں یہ نتیجہ برآمد کر تا ہوں کہ سماجی کام اگر عمران خان کا سیاسی اثاثہ بنا تو اس کی وجہ وہ غیر معمولی ابلاغی مہم ہے جس میں سوشل میڈیا کا کردار سب سے اہم ہے۔ سماجیات اور میڈیا کے علما نے اس پر تحقیق کی ہے کہ کس طرح میڈیا کے ذریعے ایک حقیقت نما (Hyper reality) تخلیق کی جاتی ہے۔ اس میں سچ کے ساتھ 'خود ساختہ سچ‘ کو بھی شامل کر لیا جاتا ہے جس سے سادہ لوح عوام اسے مکمل سچ سمجھنے لگتے ہیں۔
عمران خان کا سماجی کام ایک سچ ہے۔ جماعت اسلامی کا سماجی کام بھی ایک سچ ہے۔ عمران خان کے سماجی کام کو غیر معمولی ابلاغی مہم سے ایسا رنگ دے دیا گیا جس سے وہ لوگوں کو مسیحادکھائی دینے لگے۔ جماعت اسلامی یہ کام نہیں کر سکی۔