نبی معیارِ حق ہوتا ہے۔ حق کی بنیاد پر وہ لوگوں کو تقسیم کرتا اور ایک امت کی تاسیس کرتا ہے۔ غیر نبی کو ایسامقام دے دیا جائے تو 'کلٹ‘ بنتے ہیں۔ غالباً سب سے پہلے اسی کالم نگار نے خبر دار کیا تھا کہ عمران خان بھی ایک کلٹ بن چکے ہیں۔ اب اس کے اتنے شواہد جمع ہو چکے کہ بقائمی ہوش و حواس اس کا انکار محال ہے۔
تازہ ترین آڈیو لیکس کو سن لیجیے۔ پہلے بھی شک نہیں تھا کہ یہ ایک سیاسی ڈرامہ ہے۔ غیرملکی مداخلت یا 'رجیم چینج‘ کے حق میں کوئی ایک عقلی اور حسی شہادت موجود نہیں تھی۔ اس آڈیو نے تو معاملے کو حق الیقین کے درجے تک پہنچا دیا کہ سفیر کے ایک خط سے کیسے پورا افسانہ بنایا گیا۔ خان صاحب ایک گھاگ سیاست دان کے طور پر ایک خط سے سیاسی مفاد کشید کرنے کا خاکہ بناتے ہیں اور ایک سرکاری اہل کار‘ اس میں رنگ بھرنے کے لیے اپنے عمر بھر کے تجربہ اور مہارت کو پیش کرتا ہے۔
بات عقل‘ منطق یا اخلاق کی ہوتی تو اس شہادت کے بعد شاید ہی کوئی انکار کرتا۔ یہ تو مگر ایک کلٹ کا معاملہ ہے۔ لوگ یہ آڈیو سننے کے بعد بھی یہ کہتے پائے گئے کہ 'دیکھو، ہم نہ کہتے تھے خان سچا ہے۔ ثابت ہو گیا نا کہ خط آیا تھا‘۔ عشق کی اقلیم میں عقل کا داخلہ منع ہے۔ ورنہ جواب موجود تھا کہ خط کے وجود سے تو پہلے بھی کسی کو انکار نہیں تھا۔ انکار تھا تو اس افسانے سے جو بیانیے کی صورت میں گھڑا گیا۔ خان صاحب اور ان کے سرکاری معاون کی آڈیو نے بتا دیا کہ ایک خط کو کیسے خود ساختہ معنی پہنائے گئے۔ اس شہادت کا لیکن کوئی فائدہ نہیں۔ یہاں آپ کا مخاطب کوئی سیاسی گروہ نہیں‘ ایک کلٹ ہے۔
عقل و خرد سے بیگانگی‘ کلٹ میں شامل ہونے کی پہلی شرط ہے۔ آپ نے سوشل میڈیا پہ ایک وڈیو دیکھی ہوگی۔ ایک گاڑی کے پیچھے تین چار مرد اور عورتیں دیوانہ وار بھاگ رہے ہیں اور چورچور کا شور کر رہے ہیں۔ معلوم نہیں گاڑی میں کون تھا جسے رانا ثنااللہ سمجھ لیا گیا۔ رانا صاحب پاکستان میں تھے اورلندن میں لوگ ہوا کا پیچھا کرر ہے تھے۔ پھرایک نظر ان پر ڈالیے جو مریم اورنگزیب صاحبہ کے تعاقب میں تھے۔ یوں لگا جیسے یہ لوگ ایک بھونپو ہاتھ میں لیے سارا دن لندن کی سڑکوں پر گشت کرتے ہیں کہ کہیں نون لیگ کا کوئی لیڈر دکھائی دے اور وہ اپنے فن کا مظاہرہ کریں۔ ایک خاتون کی وڈیو بھی آپ نے دیکھی ہو گی جو رو رو کر کہہ رہی ہے کہ میرا حج عمرہ قبول ہو نہ ہو‘ یہی بہت ہے کہ میں نے عمران خان کو دیکھ لیا۔ آپ کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے ہو‘ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے: کیا ذہنی طور پر ایک صحت مند آدمی اس طرح کی حرکت کر سکتا ہے؟
یہ گروہِ عمران‘ شریف اور بھٹو کے گروہوں سے یک سر مختلف ہے۔ پاکستانی سیاست میں ایک نیا رجحان۔ بر صغیر کے مسلمانوں نے قائداعظم کو اپنا سیاسی رہنما مانا۔ آل انڈیا مسلم لیگ مگر کبھی کلٹ نہیں بنی۔ قائداعظم کو لوگوں نے کبھی حق و باطل کا پیمانہ نہیں مانا۔ پیر جماعت علی شاہ سے کسی نے کہا کہ آپ جیسا نیک اور مذہبی آدمی‘ کیسے محمد علی جناح کو اپنا رہنما مان سکتا ہے جس کے اطوار ایک روایتی مذہبی آدمی جیسے نہیں ہیں۔ جواب عقلی اور منطقی تھا۔ کہا: مجھے بطور مسلمان ایک مقدمہ لڑنا ہے اور اس کے لیے مجھے ایک ایسے وکیل کی ضرورت ہے جو دیانت دار ہو اور اہل بھی۔ محمد علی میں یہ دونوں خوبیاں ہیں۔ بین السطور واضح تھا کہ میں انہیں مذہبی پیشوائی یا معیارِ حق کے منصب پر نہیں بٹھا رہا۔کلٹ میں یہ نہیں ہوتا‘ وہ مذہبی ہو یا سیاسی۔ وہاں لیڈر حق کا معیار ہے۔ اس کی زبان سے حق کے سوا کچھ صادر نہیں ہوتا۔ وہ قرآن مجید کی نصِ قطعی کی صریحاً خلاف ورزی کرتے ہوئے دوسروں کو برے القاب سے پکارے توحق بجانب سمجھا جاتا ہے کہ اس پر ظلم ہوا ہے اور مظلوم کچھ بھی کہہ سکتا ہے۔ یہ بدترین تحریف ہے۔ نہ سیاق کا لحاظ نہ سباق کا خیال۔ معیارِ حق کا یہی مطلب ہے کہ کسی کے طرزِ عمل کو معیار مان کر مذہبی متن کی تاویل کی جائے۔ دین تو یہ کہتا ہے کہ یہ قرآن اور سنت ہیں جن کے معیار پر سب کے اعمال کو پرکھا جائے گا۔ یہ دلائل مگر عقل والوں کے لیے ہیں۔
تحریکِ انصاف کے سوا‘ یہاں سب سیاسی جماعتیں ہیں۔ عقل وخرد سے بے نیاز ہر جگہ ہوتے ہیں مگر ناقابلِ ذکر اقلیت میں۔ اکثریت یہی سمجھتی ہے کہ ہمارے سیاسی رہنما‘ ہم جیسے گوشت پوست کے انسان ہیں جو اقتدار کے کھیل میں شریک ہیں۔ ہم ان کو بطور رہنما قبول کرتے ہیں تو اس لیے نہیں کہ وہ معیارِ حق ہیں۔ ہم انہیں دوسروں سے بہتر سمجھتے ہیں۔ دوسری جماعتوں کے رہنما بھی انسان ہیں‘ شیطان نہیں۔خان صاحب نے اس کلچر کو بدل دیاہے۔ انہوں نے سیاست میں ایک کلٹ متعارف کرایا۔ اس سے دو رویے پیدا ہوئے اور دونوں انتہائی۔ خان صاحب کا ساتھ دینے والے زبانِ حال سے یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ ان کیلئے معیارِ حق (رول ماڈل) ہیں۔ اس کا ایک مفہوم یہ ہے کہ ان کے مخالفین سراپا شر و باطل ہیں۔ خود خان صاحب نے بھی ان کو یہی سکھایا ہے کہ یہ حق و باطل کا معرکہ ہے۔ان کے مخالف امیدوار کو ووٹ دینا‘ گویا باطل کا ساتھ دینا ہے۔
اس کا ردِ عمل ہوا ہے۔ دوسرے بھی اب ان کے لیے سخت زبان استعمال کرنے لگے ہیں۔ خان صاحب کے بارے میں معتدل بات کہنے والے‘ اب کم و بیش ختم ہو گئے ہیں۔ ابتدا میں یہ نہیں تھا۔ عمران خان سیاسی اتحادوں میں شریک ہوتے رہے ہیں۔ وہ خود کو اور ان کو رہنما ماننے والے‘ سب دوسروں کو انسان ہی سمجھتے تھے۔ اس وقت تحریکِ انصاف ایک سیاسی جماعت تھی۔
2011 ء کے بعد یہ منظر تبدیل ہونا شروع ہوا۔ میڈیا کی مدد سے ایک نیا عمران خان تراشا گیا جو انسان نہیں‘ دیوتا تھا۔ یہ کلٹ کی تشکیل کی طرف پہلا قدم تھا۔ بعد کے واقعات سے اندازہ ہوتا ہے کہ بت تراشنے والوں کو بھی یہ گمان نہیں تھا کہ لوگ پتھرکو سچ مچ کا بھگوان مان لیں گے۔ جب انہوں نے بت شکنی کرنا چاہی توان ہی میں سے بہت سے لوگ‘ ان کے خلاف کھڑے ہو گئے۔ بت گر وں کے لیے یہ خلافِ توقع تھا۔ تاریخ‘ مذہب اور سماجیات کے ناقص مطالعے کا یہی نتیجہ ہو سکتا تھا۔ کلٹ کے پیروکاروں کے اندر کا نارمل انسان‘ اس وقت کچھ دیر کے لیے جاگ اٹھتا ہے جب وہ خان صاحب پر تنقید سنتے ہیں۔ اس وقفے میں وہ سوال اٹھاتے ہیں: 'تمہیں دوسروں کی خرابیاں دکھائی نہیں دیتیں؟‘ نارمل کیفیت میں وہ بس اتنی ہی دیر کے لیے رہتے ہیں۔ اگر وہ کچھ دیر عقل کی وادی میں قیام کریں تو ان سے پوچھا جائے کہ ایک عام سیاستدان اور خان صاحب جیسے دیوتا کا کیا مقابلہ؟ وہ خود فرما چکے کہ میرا موازنہ ان سے نہ کیا جائے۔ عام سیاستدانوں میں عیب کا ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ وہ عیبوں کے باوجود سیاست دان رہ سکتا ہے۔ دیوتا‘ کمزوریوں کے ساتھ دیوتا نہیں رہتا۔
اگر آپ کو اس کالم میں مبالغہ محسوس ہو تو مجھے گروہِ عمران کے دس افراد کے نام بتا دیں جو یہ کہتے ہوں کہ اس آڈیو لیک کے بعد خان صاحب کی صداقت مشتبہ ہو گئی ہے۔ وہ بھی دوسروں کی طرح ایک سیاستدان ہیں جو واقعات کو من پسند معنی دیتا اور ان سے سیاسی فائدہ کشید کرتا ہے۔ کلٹ کی تاریخ یہ ہے کہ لوگ بدلتے نہیں‘ طبعی عمر پوری کرتے ہیں جو عام طور پر طویل نہیں ہوتی۔