سماج اور ریاست اتنے بکھر چکے ہیں کہ انہیں دوبارہ مرتب کرنے کے تمام مثالی حل‘ حدِ امکانات سے باہر ہوگئے ہیں۔ان پر اصرار خود فریبی ہے۔
چند آوازوں سے دھوکا نہیں کھانا چاہیے کہ حکم 'خاص‘ نہیں 'عام‘ کی بنیاد پر لگایاجا یا ہے۔مستثنیات کی بنیاد پر معاشرہ بگڑتا ہے نہ سنورتا۔میں عموم کی بات کر رہا ہوں۔ اب ہمیں کسی ایسے ممکنہ حل کی طرف بڑھنا ہے جو کم ازکم اضطراب اور انتشار کی اس کیفیت سے ہمیں نکال سکے۔بے چینی ایک غیر فطری حالت ہے اور یہ فرد ہو یا اجتماع‘تادیر اس حالت میں رہ نہیں سکتے۔بھٹو صاحب کو جب تختۂ دار پر لٹکا یا جارہا تھاتو ان کی بے چینی سے لذت اٹھانے والے بھی تھے۔مضطرب بھٹوکے آخری الفاظ تھے:Finish it(اب اس کھیل کو ختم کرو)۔ ہمارا سماج بھی آج اس کیفیت میں ہے کہ زبانِ حال سے پکار رہا ہے:Finish it۔
زمینی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے‘ریاست اور سماج کے باب میں چند اقدامات نا گزیر ہو چکے۔اگر یہ اقدامات کرلیے جائیں تو اس وقت کسی ردِ عمل کا زیادہ امکان نہیں۔عوام کی اکثریت اس کا خیر مقدم کرے گی کہ وہ استحکام چاہتی ہے۔ممکن ہے‘میری یہ باتیں آپ کو چونکا دیں مگرمیرا خیال ہے کہ اس وقت وہی بات کہنی چاہیے جو ممکن ہے‘وہ نہیں جس کی ہم خواہش رکھتے ہیں۔
سب سے پہلے ریاست:عدالتِ عظمیٰ یہ حکم جاری کردے کہ موجودہ حکومت کو کسی غیر آئینی اقدام سے ختم نہیں کیا سکتا۔یہ اپنی مدت پوری کرے گی اور انتخابات وقت پر ہوں گے جو زیادہ دور نہیں۔اس مقصد کے لیے کوئی لانگ مارچ نہیں ہو گا۔ سیاسی جماعتیں اپنے نظریات اور منشور کے ابلاغ کے لیے تمام آئینی راستے اختیار کر سکتی ہیں؛تاہم کوئی ایسا قدم نہیں اٹھایا جائے گا جس سے موجودہ نظام تلپٹ ہو۔اگر یہ نہیں ہو سکتا توفوری طور پر ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا جائے۔ آج ہماری ریاست سے متعلق اہم ترین سوال یہ ہے کہ اقتدار کس کے ہاتھ میں ہے؟جب تک اس سوال کا جواب نہیں ملے گا‘ابہام ختم نہیں ہو گا۔
عمران خان چار سال ملک کے وزیر اعظم رہے۔ آج ان کا فرمان ہے کہ ان کے ہاتھ میں تو کچھ تھا ہی نہیں۔فیصلے کہیں اور ہوتے تھے۔مطیع اللہ جان کو ان کی حکومت میں کسی اور نے اغوا کیا۔نوازشریف صاحب کو بھی یہی گلہ رہا۔آج شہباز شریف صاحب وزیر اعظم ہیں تو ان کی حکومت کے بارے میں بھی یہ تاثر قائم ہے کہ فیصلے کہیں اور ہوتے ہیں۔ تاریخ یہ ہے کہ اس ملک میں جب بھی کوئی 'جمہوری‘ حکومت قائم ہوئی‘یہ سوال زندہ رہا کہ طاقت کا مرکز کہاں ہے؟یہ آئندہ بھی ختم نہیں ہو گا۔ہر جمہوری وزیراعظم پر 'امپورٹڈ‘ کا لیبل ہوگا یا 'سلیکٹڈ‘کا۔
یہ صرف مارشل لا میں ممکن ہے کہ مرکزِاقتدار کے بارے میں کوئی ابہام نہ ہو اور دوئی کا تصور ختم ہو۔اگر ہم اس ابہام ہی کو دور کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو یہ سیاسی استحکام کی طرف پہلا قدم ہو گا۔ دیگر تمام حل مثالی ہیں جو پاکستان میں اس وقت ممکن نہیں۔لانگ مارچ کامیاب ہو یا ناکام‘دونوں صورتوں میں سیاسی اضطراب کم نہیں ہو گا۔اس کی کامیابی کی ایک ہی صورت ہے کہ حکومت خان صاحب کی آمد پر استعفے دے اور انتخابات کی تاریخ کا اعلان کر دے۔ وہ یہ نہیں کرے گی الا یہ کہ کوئی تیسری قوت اسے مجبور کرے۔ جب حکومت نہیں مانے گی تو فساد ہوگا۔فساد کے نتیجے میں مارشل لا بھی لگ سکتا ہے۔ کیا یہ مناسب نہ ہوگا کہ جو کام فساد کے بعد کیا جانا ہے‘اسے فساد سے پہلے ہی انجام دے دیا جائے؟
اب آئیے سماج کی طرف۔ٹی وی چینلز کی نشریات کو پی ٹی وی کے سابقہ دورکی طرح چند گھنٹوں کے لیے خاص کر دیا جائے۔شام چار بجے سے رات گیارہ یا زیادہ سے زیادہ بارہ بجے تک۔اس دوران میں صرف چھ اور نو بجے خبریں ہوں۔ خبروں کے بلیٹن کو تجربہ کار صحافیوں کا ایک گروہ دیکھے اور اس کو یقینی بنائے کہ خبر‘صرف خبر ہو۔اس میں سنسنی نہ ہو۔سیاسی بیانات کوئی خبر نہیں ہوتے۔انہیں خبر وں میں شامل نہ کیا جائے۔سوشل میڈیا کی چین اور ایران کی طرح تطہیر کر دی جائے۔اس تطہیری عمل کو سول سوسائٹی اور حکومت کے نمائندوں کی ایک کمیٹی کے تابع کر دیا جائے۔ اس میں خبروں کی تو بالکل اجازت نہ ہو۔اس کے لیے قانون بنا دیا جائے کہ اگر کوئی تفریحی‘تعلیمی یا اصلاحی مقصد کے لیے سوشل میڈیا کو استعمال کر نا چاہتا ہے تووہ کمیٹی کی اجازت سے ایسا کر سکتا ہے۔اس عمل کو سہل بنایا جائے۔جیسے ایک درخواست پر ایک ہفتے میں فیصلہ ہو اور بلا معاوضہ۔تیسرا کام مذہبی سرگرمیوں سے متعلق ہے۔حکومت جمعہ کے خطبے کے لیے موضوع کا انتخاب کرے اور اس کا اہتمام ہو کہ مساجد میں اس کی پابندی کی جا رہی ہے۔دینی مدارس جیسے چل رہے ہیں‘چلتے رہیں۔صرف اس بات کا اہتمام کیا جائے کہ کوئی مذہبی سیاسی رہنما انہیں اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہ کرے۔ تمام مذہبی سرگرمیوں کو عبادت گاہوں تک محدود کر دیا جائے۔
یہ تین کام اگر ہو جائیں تومعاشرے کا سیاسی اور سماجی اضطراب ختم ہو جائے گا۔ اس وقت ہیجان ہے۔ مذہب‘ سیاست‘ ہر ادارہ ہیجان کی زد میں ہے۔ اسے ہیجان سے نکالناآج کی سب سے بڑی ضرورت ہے اوراس ضرورت کو پورا کرنے کا یہی طریقہ ہے۔ اس سے ریاست اور سماج‘دونوں میں ٹھیراؤ آجا ئے گا۔
یقیناً وہ سب قوتیں اس بندوبست کوآسانی سے قبول نہیں کر یں گی جن کا تعلق 'سٹیٹس کو‘کے ساتھ ہے۔ان کی طرف سے مزاحمت کا بھی امکان ہے۔لیکن آمرانہ حکومت کے خلاف مزاحمت عام طور پر سوچ سمجھ کر ہی کی جا تی ہے۔جب عوام کسی مزاحمتی عمل کا ساتھ نہیں دیں گے تو وہ خود ہی دم توڑ دے گی۔عوام اس وقت صرف امن اور استحکام چاہتے ہیں۔ان کے حصول کا‘ میرے نزدیک اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔
جمہوریت کا مجھ سے بڑا وکیل کوئی نہیں ہوگا۔آزادیٔ رائے بھی مجھے بہت عزیز ہے کہ اس پر پابندی کی زد براہ راست مجھ پر پڑے گی۔ ان تجاویز پر یہ اعتراض بھی ہو سکتا ہے کہ غیر جمہوری قوت جبر کا نام ہے اور انسانی فطرت اسے برداشت نہیں کرے گی۔یہ سب باتیں درست ہیں مگرآج کوئی مثالی حل ہماری گرفت میں نہیں۔ہر راستہ سوئے مقتل جاتا ہے اورجان بوجھ کر اس راہ پر چلنا خود کشی ہوگا۔اس وقت مجھے دو ہی راستے دکھائی دے رہے ہیں۔جبر کی زندگی یاموت۔جبرکو غیر جمہوری اقتدار میں بھی کم کیا جا سکتا ہے جیسے پرویز مشرف کے عہد میں تھا۔ سماجی اور ثقافتی سطح پر زندگی رواں دواں رہے تو جبر کا احساس کم ہو جا تا ہے۔پھر یہ کہ ابتدا میں یہ نظام دوسال کے لیے ہو سکتا ہے اور عدالتِ عظمیٰ سے اس کی توثیق لی جاسکتی ہے۔جس ضرورت کے تحت ماضی میں عدالتوں نے مارشل لا ء کو جائز کہا‘وہ ضرورت آج کئی گنا بڑھ گئی ہے۔
سوشل میڈیا پر پابندی کو ممکن ہے بہت سے لوگ احمقانہ قرار دیں کہ دنیا آگے کی طرف جا رہی ہے اور یہ ہمیں پیچھے کی طرف لے جانا چاہتا ہے جو گلوبلائزیشن کے دور میں ممکن نہیں۔میراکہنا ہے کہ یہ ممکن ہے۔ کیا آج دنیا میں بادشاہت‘ پاپائیت اور یک جماعتی نظام رائج نہیں ہیں؟ رہا پیچھے کی طرف پلٹنا تو اگر سامنے کھائی‘ صاف دکھائی دے رہی ہو تو پھر آپ کے پاس کیا راستہ ہے؟ پیچھے پلٹنا یا کھائی میں کودنا؟