آج 29 اکتوبر 2022ء ہے۔ آنے والے دنوں کی چار ممکنہ تصاویر ہمارے سامنے ہیں:
پہلی تصویر: لاہور سے لانگ مارچ کا آغاز ہو چکا ہے۔ عمران خان صاحب اپنے حامیوں کے ساتھ اسلام آباد کی جانب رواں دواں ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ حکومت فوری طور پر انتخابات کا اعلان کرے۔ یہ قافلہ گوجرانوالہ یا جہلم پہنچتا ہے تو لاکھوں افراد جمع ہو جاتے ہیں۔ دوسری طرف ایک انبوہ پشاور سے اسلام آباد کی طرف رواں ہے۔ نظمِ حکومت ہی نہیں‘ نظامِ زندگی مفلوج ہو جاتا ہے۔ اب کوئی غیبی قوت ثالثی کرتی ہے اور حکومت عمران خان صاحب کے مطالبے کو تسلیم کرتے ہوئے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کر دیتی ہے۔ خان صاحب سے مشاورت کے بعد‘ نئے چیف الیکشن کمشنر اور عبوری حکومت کے ناموں پر اتفاق ہو جاتا ہے۔ سپہ سالار کا تقرر نئی حکومت کے قیام تک مؤخر کر دیا جاتا ہے۔ لوگ اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں اور زندگی اپنے معمول کی طرف۔
دوسری تصویر: مارچ میں لوگ شریک ہیں مگر اتنے نہیں کہ ریاست ان کے سامنے بے بس ہو جائے۔ حکومت اور خان صاحب کے درمیان کوئی معاہدہ یا اتفاق رائے نہیں ہوتا۔ مارچ کو اسلام آباد میں داخل ہو نے سے روک دیا جاتا ہے۔ ہجوم بزور داخل ہونا چاہتا ہے۔ تصادم کے خدشات بڑھ جا تے ہیں۔ صوبائی اور مرکزی حکومتیں ایک دوسرے سے معرکہ آرا ہوتی ہیں۔ خاکم بدہن‘ بہت سے لوگ مارے جاتے ہیں۔ ریاست بالادست رہتی ہے اور چند روز کے خلفشار کے بعد زندگی بحال ہو جاتی ہے۔ حکومت اسے طرح چلتی رہتی ہے۔
تیسری تصویر: دونوں فریق اپنے اپنے موقف پر قائم رہتے ہیں۔ تصادم خانہ جنگی کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ جگہ جگہ بلوے اور فسادات شروع ہو جاتے ہیں۔ عوام کے جان و مال خطرات کی زد میں ہیں۔ معاملات مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی دسترس سے نکل جا تے ہیں۔ فوج کی مداخلت ناگزیر ہو جاتی ہے اور ملک میں مارشل لا نافذ ہو جا تا ہے۔
چوتھی تصویر: عدالتِ عظمیٰ مارچ کو پابند کر تی ہے کہ وہ کسی ایک جگہ جمع ہو جائے‘ جیسے اس سے پہلے ہوتا آیا ہے۔ اگر لوگ‘ مثال کے طور پر اسلام آباد کے پریڈ گراؤنڈ میں آ کر بیٹھ جاتے اور پُرامن رہتے ہیں تو اس سے حکومت کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ یہ قیام اگر کئی دنوں کو محیط ہو جائے تو بھی نظامِ حکومت اتنا متاثر نہیں ہو گا کہ مفلوج ہو جائے۔ اس صورت میں ممکن ہے کسی ثالث کی مداخلت سے کوئی ایسا حل نکل آئے جس سے خان صاحب کسی حد تک کامیابی کا تمغہ اپنے تاج میں سجا سکیں۔ جیسے انتخابات اگست کے بجائے مئی یا جون میں ہو جائیں۔
مجھے تو یہی چار تصاویر دکھائی دے رہی ہیں۔ آخری کا امکان سب سے کم ہے۔ عمران خان اس سیاسی بندوبست کو ختم کرنے کے لیے آخری معرکہ لڑ رہے ہیں۔ ان کی جنگجو طبیعت اور جس طرح کا ہیجان انہوں نے پیدا کر دیا ہے‘ ان کو سامنے رکھیے تو یہ تصویر شاید ابھرنے نہ پائے۔ یہ خان صاحب کے حلقے میں مایوسی پھیلانے کا باعث بنے گی جس طرح 25 مئی کو ہوا تھا۔ اس لیے جو کچھ ہو نا ہے‘ اس کی پہلی تین صورتیں ہی زیادہ قرینِ قیاس ہیں۔
اب حالات کی جو تصویر بنتی ہے‘ اس کے ناگزیر نتائج ہیں۔ ایک نظر ان پر بھی ڈال لیتے ہیں۔ پہلی صورت میں خان صاحب کی انتخابی کامیابی یقینی ہے۔ جو سیاسی جماعت‘ ایک سیاسی بندوبست کو اپنی شرائط پر جھکنے پر مجبور کر دے‘ اس کی کامیابی کو روکنا آسان نہیں ہوتا۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ دو تہائی اکثریت لے جائیں۔ اس کا نتیجہ یک جماعتی نظامِ حکومت ہے۔ اس کے لیے ممکن ہے کہ خان صاحب آئین تبدیل کر دیں۔ یہ طے ہے کہ مقتدرہ کی موجودہ قیادت اس بندوبست کا حصہ نہیں ہو گی۔ پھر اس کی قیادت اسی کے پاس ہو گی جو خان صاحب کی حاکمیت کو دل و جان سے قبول کر لے۔ اس صورت میں قوم کو ایک فسطائی نظام کے لیے تیار ہو جانا چاہیے۔
یہ محض ایک مفروضہ نہیں۔ یک جماعتی نظام کا خواب ان آنکھوں نے دیکھا جو سب کچھ دیکھتی ہیں۔ اس کی تعبیر بھی اقتدار کے حقیقی مرکز میں بیٹھے لوگوں نے اپنی سرپرستی میں تلاش کی۔ اس کو تحریر کیا جا چکا تھا کہ خان صاحب نے ان آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیں جہاں اس خواب نے جنم لیا تھا۔ یوں اسے التوا میں ڈال دیا گیا۔ اگر حالات کی یہ تصویر سامنے آتی ہے تو پھر خان صاحب خود ہی خواب ہوں گے اورخود ہی تعبیر بھی۔
اگر حالات کی دوسری تصویر ابھرتی ہے تو پھر انتخابات اگلے سال اپنے وقت پر ہوں گے۔ اس میں خان صاحب اتنی اکثریت نہیں لے سکیں گے کہ تنہا حکومت بنا سکیں۔ وہ یہ کہہ چکے ہیں کہ اگرانہیں دو تہائی اکثریت نہ ملی تو وہ اقتدار نہیں لیں گے۔ پھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ خان صاحب انتخابی نتائج کو ماننے سے انکار کر دیں۔ یوں ملک ایک بار پھر خلفشار کی راہ پر ہوگا؛ تاہم اس صورت میں شاید وہ کوئی مؤثر تحریک نہ اٹھا سکیں کہ عوام اس وقت تھک چکے ہوں گے۔ یہ طے ہے کہ خان صاحب اب بطور اپوزیشن لیڈر اسمبلی میں نہیں بیٹھیں گے۔ وہ انقلاب کے لیے اپنے تئیں کوشش کرتے رہیں گے۔
تیسری تصویرکے بارے میں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ پھر وہی ہو گا جو ماضی میں ہوتا آیا ہے۔ اگر حکومت خطے کی سیاست کے تناظر میں عالمی سیاسی قوتوں کے ساتھ ہم آہنگ ہو جاتی ہے جیسے ضیاء الحق صاحب یا پرویز مشرف صاحب کے دور میں ہو گئی تھی تو ملک میں ایک سطح کا معاشی استحکام آ جا ئے گا۔ اگر مشرف صاحب کی طرح‘ سیاست کے علاوہ زندگی کے باقی شعبے جبر سے آزاد رہے اور لوگوں کو اظہارِِ رائے کے مواقع ملتے رہے تو سیاسی استحکام بھی آ جائے گا۔
اس صورت میں سیاسی ارتقا البتہ رک جائے گا۔ اس کی بھی ایک قیمت ہے جو ہم کو دینا ہو گی۔ مارشل لاء ظاہر ہے کہ ایک غیر فطری حل ہے۔ فطرت سے انحراف کے نتائج ہوتے ہیں اور وہ نکلیں گے۔ ملک میں آمریت ہو گی اور اس کا دائرہ سیاسی امور تک محدود نہیں رہے گا۔ ملک میں ایک طبقے کی حکمرانی ہو گی جس کا ناگزیر نتیجہ جبر ہے جو ایک غیر فطری کیفیت ہے۔ اس کو صرف اسی صورت میں قبول کیا جا سکتا ہے کہ یہ کم وقت کے لیے ہو اور ایک عبوری نظام کے طور پر ہو۔
آج مثالی حل ہمارے پاس موجود نہیں۔ ہم سب حالات کے رحم و کرم پر ہیں۔ ہم نے معاملات کو اتنا الجھا دیا ہے کہ دھاگے کا سراب ہمارے ہاتھ نہیں آ سکتا۔ اب فیصلہ ہم نے نہیں‘ حالات نے کرنا ہے کہ وہ ہم سے کیا سلوک کریں گے۔ ہماری کیفیت وہی ہو چکی جو اقبال نے بیان کی کہ 'ڈالا گیا ہوں آگ میں مثلِ خلیل‘۔ ہم نہیں جانتے کہ وہ گل و گلزار ہوتی ہے یا ہمیں جھلسا دیتی ہے۔ یہ بات البتہ واضح ہے کہ معجزوںکا دور ختم ہو چکا۔ آگ کسی خلیل ہی کے لیے گلزار بنتی ہے۔
ان تین تصاویر میں سے‘ حالات جس تصویر کا انتخاب کرتے ہیں‘ دو باتیں طے ہیں۔ عمران خان صاحب کو صرف وہ تصویر قبول ہو گی جس میں اقتدار کا تاج ان کے سر پر ہو۔ دوسری یہ کہ اگر تاج ان کے سر پر سج گیا تو مقتدرہ کی موجودہ قیادت تبدیل ہو جائے گی۔ میرا خیال ہے کہ یہ اسی وقت ممکن ہو گا جب یہ قیادت ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے کا ارادہ کر لے۔ کیا یہ ممکن ہو گا؟ اس سوال کا جواب کالم پڑھنے والوں کو تلاش کرنا چاہیے۔
میرے لیے سب سے افسوسناک بات یہ ہے کہ دوسری سیاسی جماعتیں تصویر سازی کے اس عمل میں کوئی کردار ادا کرتی دکھائی نہیں دے رہیں۔