ایک طرف ابہام ہے اوردوسری طرف ہیجان ۔ایک ذہنی عدم توازن کا اظہار ہے اور دوسرا جذباتی عدم توازن کا۔دونوں کیفیتوں میں درست فیصلہ نہیں کیاجا سکتا۔
ایک طرف گیارہ جماعتوں کی حکومت ہے‘مقتدرہ ہے‘ریاست ہے۔کچھ واضح نہیں کہ خان صاحب کے بارے میں ان کی حکمتِ عملی کیا ہے؟اگر مقتدر قوتیں خان صاحب اور لانگ مارچ کے خلاف ہیں تو مارچ کے لیے اتنی سہولتیں کیوں؟یہ معاملہ بعید از قیاس ہے۔اور سنیے۔دوست محمد مزاری کا دودفعہ جسمانی ریمانڈ لیاجا چکا۔اس پر کہیں سے کوئی صدائے احتجاج بلند نہیں ہوئی۔یہ پنجاب اسمبلی کے وہی ڈپٹی سپیکر ہیں جن پر اسمبلی میں حملہ ہوااور جس کو ساری قوم نے دیکھا۔ شہباز گل صاحب کا ریمانڈ ہوا تو تحریکِ انصاف نے زمین آسمان کوایک کر دیا۔ اندازہ ہوتا تھا کہ ایسا ظلم عدالتی تاریخ میں کبھی ہوا اور نہ کبھی ہو گا۔ کیا دوست محمد کسی کے اتحادی نہیں؟کیا نون لیگ کا پنجاب میں کوئی سیاسی کردار ہے‘کوئی حکمتِ عملی ہے؟
ابہام کے مقابلے میں یک سوئی ہوتی ہے۔وحدتِ فکر وعمل۔کوئی اس کو مشہود دیکھنا چاہے تو 2016 ء سے2018ء تک کی تاریخ کو دیکھ لے۔ریاستی و سیاسی نظام شریف خاندان کے بار ے میں مکمل یکسو تھا۔ تمام اداروں اور کرداروں کے مابین ایسی ہم آہنگی تھی کہ جیسے کوئی ماہر موسیقار ایک دھن بنا دے اور تمام سازندے طبلہ و سارنگی کو ایک ردھم میں لے آئیں اور سازو آواز کی یک جائی سے ایک نغمہ تخلیق ہو جائے۔کسی کے لیے یہ طربیہ تھا اور کسی کے لیے المیہ۔ دھن کے شاندار ہونے میں مگر کسی کو کلام نہیں تھا۔
جب ایسا نہیں ہوتا تو بے سرا پن سب کو کَھلتا ہے۔آج سارنگی اور طبلے میں کوئی وحدت نہیں۔بانسری والے کو سنیں تو دل لہو سے بھرجائے۔طبلہ نواز کے کمالات دیکھیں... کسی کو نہیں معلوم کہ یہ طربیہ ہے‘رزمیہ ہے یا المیہ۔ مقتدرہ کے لیے یہ رزمیہ ہے۔نون لیگ کے اتحادیوں‘بالخصوص پیپلزپارٹی کے لیے طربیہ اور نون لیگ کے لیے یہ ایک المیہ بنتا جا رہا ہے۔
دوسری طرف ہیجان ہے۔خان صاحب کی سیاسی حکمتِ عملی کا جزوِ اعظم۔ وہ نہیں چاہتے کہ ان کے چاہنے والے عقل و خرد کی وادی میں قدم رکھیں۔ وہ ممولے کو شہباز سے لڑاناچاہتے ہیں۔ان کی خواہش ہے کہ کبوتر کے تنِ نازک میں شاہین کا جگر پیدا ہوجائے۔وہ اپنے اقتدار کے راستے میں آنے والی ہر قوت کو کچل دینا چاہتے ہیں۔وہ ہر کام کے لیے تیار ہیں۔ انتخاب کا حق انہوں نے اپنے مخالفین کو دے دیا ہے کہ وہ چاہیں تو چپ چاپ انتخابات کرادیں یاپھر خونیں انقلاب کی چاپ سن لیں۔ جھوٹ اس نیت کے ساتھ پھیلایاجا رہاہے کہ جنگ میں سب کچھ جائز ہوتا ہے۔
عوام بھی ظاہر ہے کہ منقسم ہیں‘کوئی ابہام کا شکار ہے اور فیصلہ نہیں کر پارہا کہ کس کا ساتھ دے۔وہ نہیں جانتا کہ کل کیا ہو گا۔خدشات اس کا محاصرہ کیے ہوئے ہیں اور وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظرِ فردا ہے۔کوئی ہیجان میں مبتلا ہے اور سب کچھ بھسم کر دینا چاہتا ہے۔اس کا خیال ہے کہ عالمِ پیر مر رہاہے اورایک جہاںِ نوپیدا ہو رہا ہے۔ جہاد‘آزادی‘ ریاستِ مدینہ‘ لغت میں ہمارے خوابوں کے بیان کے لیے جو جو الفاظ موجود ہیں‘انہیں ایک بیانیے میں سمو دیا گیا ہے اور وہ اس کے نشے میں سرشار ہے۔وہ اس کیفیت سے نکلنا نہیں چاہتا اور یہی اس کے لیڈر کی کامیابی ہے۔
ابہام اور ہیجان میں جو فیصلہ ہوگا‘ناقص ہوگا۔درست فیصلے کے لیے ذہنی ا ورجذباتی توازن لازم ہے جو اس وقت کسی فیصلہ ساز کو میسر نہیں۔عوام کو بھی نہیں۔ہر دن ایک نئی منصوبہ بندی کہ ہر دن غیر متوقع حالات کے ساتھ طلوع ہو رہا ہے۔ایک کان طبلِ جنگ پر ہے اور دوسرا قدموں کی آہٹ پر کہ آنے والا مذاکرات کا سندیسہ لے کر تو نہیں آر ہا؟جو سربکف دکھائی دیتا ہے‘وہ پسِ پردہ سلسلۂ جنبانی کا حصہ بھی ہے۔ایسی کیفیت ہم نے تو پہلے کبھی نہیں دیکھی۔
یہ اس لیے ہے کہ یہاں سیاست نہیں ہو رہی۔سیاست کے آداب ہوتے ہیں۔آج جو کچھ ہو رہا ہے کہ اس کو کوئی نام دینا مشکل ہے۔بظاہر جمہوریت ہے لیکن منتخب لوگ بے اختیاری کا ماتم کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ساتھ ہی انہیں نیوٹرل سے شکایت ہے کہ وہ نیوٹرل کیوں ہیں۔میڈیا آزاد ہے اور آزاد نہیں بھی۔کوئی ملک چھوڑ کر جا رہا ہے ا ور کسی کا خیال ہے کہ ٹکر کے لوگ تو میڈیا میں اب آئے ہیں۔میڈیا والے مجاہد بن گئے ہیں اور مجاہد‘مجاور۔غرض یہ کہ گھمسان کا رن پڑا ہے اورکچھ سجھائی نہیں دے رہا۔
آج ریاست اور معاشرے کوایک ٹھیراؤ چاہیے۔ایک وقفۂ امن‘جب جذبات تھم جائیں اور عقل کام کرنا شروع کرے۔ ابہام اورہیجان سے نکل کر ہی صحیح فیصلہ ممکن ہے۔ دریا کی موجوں میں تلاطم ہو تو یہ طے کرنا ممکن نہیں ہوتا کہ کنارہ کہاں پر ہے۔یہ ٹھیراؤ‘ موجودہ سیاسی وسماجی نظم کو تحفظ دے کر آ سکتا ہے یا بدل کر۔ اس کے لیے تین کام ضروری ہیں۔ ایک کا تعلق نظمِ ریاست سے ہے اور دو کا نظامِ معاشرت سے۔
ریاست اپنا وظیفہ اسی وقت ادا کر سکتی ہے جب اس کے اداروں میں ہم آہنگی ہو۔اس کے لیے کوئی ایسا سیاسی بندوبست ناگزیر ہے جو اس بات کو یقینی بنائے کہ ایک مخصوص مدت تک‘اس میں کوئی جوہری تبدیلی نہیں آئے گی۔یہ مدت چند ماہ ہوسکتی ہے اورایک سال بھی۔اس کی کوئی صورت ہوسکتی ہے۔موجودہ سیاسی نظم کو عدالتی اور ادارہ جاتی تحفظ دے کر یہ مقصد حاصل کیا جا سکتا ہے۔معاملات کسی عارضی انتظامی بندوبست کو سونپے جاسکتے ہیں یا اجتماعی دانش کوبروئے کار لاتے ہوئے کوئی حل تلاش کیا جاسکتاہے۔اس کی صورت جو بھی ہو‘ عدالتِ عظمیٰ اس کی ضامن ہو کہ جیسے ہی یہ ابہام اور ہیجان ختم ہو گا‘زندگی اپنے معمول کی طرف لوٹ آئے گی۔
سماجی سطح پر استحکام کے لیے سوشل میڈیاکو لگام ڈالنا ضروری ہے۔اس کا شر اس کے خیر سے کہیں زیادہ ہو چکا۔یہ جھوٹ پھیلانے کا ایک ذریعہ ہے اورکذب کی بنیاد پر قائم ہو نے والا ہر تصور اور ہرفیصلہ ناقص ہوگا۔ہمارا سماج اسی وجہ سے ہیجان اور ابہام کا شکار ہے۔الیکٹرانک میڈیاکوبھی کچھ وقت کے لیے سماجی اصلاح اور تعلیم کے لیے خاص کردینا چاہیے۔
یہ بندوبست‘ عارضی ہواورزیادہ سے زیادہ ایک سال بعد‘زندگی کو معمول کی طرف لوٹا دینا چاہیے۔ریاست اور عوام‘ اگر ابہام اورہیجان کی اس حالت میں رہیں گے تو ان کے فیصلے اسی ذہنی اور جذباتی کیفیت کے زیرِ اثر ہوں گے۔اس وقت کوئی مثالی حل ہمارے پاس موجود نہیں۔ آج اگر ریاست ابہام سے نکلنا چاہے بھی تو نہیں نکل سکتی۔اس کا وقت گزر چکا۔ریاست کو متنبہ رہناچاہیے کہ شہریوں کے خون پرقبرستان کی دیوار تو کھڑی ہو سکتی ہے‘پُرامن بستی کی نہیں۔
ہیجان میں تومعلوم ہے کہ واپسی کا راستہ نہیں ہوتا۔تحریکِ انصاف کی سلامتی بھی اسی میں ہے کہ وہ اپنی باگ جذبات کے بجائے عقل کے ہاتھ میں دے دے۔خان صاحب کو سوچنا ہوگا کہ جو لوگ ان کے ساتھ ہیں‘ان کے جان و مال کی سلامتی کی پہلی ذمہ داری ان کی ہے۔ معاملات گنڈا پور جیسے لوگوں کے ہاتھ میں دے کر‘اس کی سلامتی کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ یہ سوچنے کے لیے انہیں وقت چاہیے۔میں اسی وقت کی بات کر رہا ہوں۔
راستہ ایک ہی باقی ہے:ایک وقفہ امن کی تلاش‘ جو ناگزیرہے۔