اختلاف میں برکت ہے اور تقسیم میں ہلاکت۔ کیا ہمارے انقلابی رہنما پر یہ راز منکشف ہے؟
اللہ کی آخری کتاب اختلاف سے نہیں‘ تفرقے سے منع کرتی ہے۔ اختلاف فطری ہے۔ اس کو روا رکھا جائے گا اور اس کاحل تلاش کیا جائے گا۔ تفرقہ وحدت کے لیے زہرِ قاتل ہے۔ اسے رَد کر دیا جائے گا۔ قرآن مجید نے اللہ اور رسولؐ کے ساتھ نظمِ اجتماعی کی اطاعت کا حکم دیا ہے۔ اللہ اور رسولؐ سے اختلاف کا کیا سوال‘ ہاں ارباب ِاقتدار سے ایسا ممکن ہے۔ جب ایسا ہو جائے تو پھر کہا گیا کہ اس اختلاف کے حل کے لیے اللہ اور رسولؐ کی طرف رجوع کرو۔ یعنی ان سے رہنمائی لو۔ بتانا یہ مقصود ہے کہ اختلاف میں ممانعت نہیں ہے‘ البتہ اظہار کے آداب ہیں۔
دوسری طرف فرمایا: اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رکھو اور تفرقے میں نہ پڑو۔ فرقہ واریت‘ کون نہیں جانتا کہ اس امت کی وحدت کے لیے زہرِ قاتل ثابت ہوئی۔ اس نے ہمارے اجتماعی وجود کو چھلنی کر دیا۔ اختلاف ہوا تو ایک شاندار اور قابلِ فخر علمی روایت وجود میں آئی۔ تفرقہ ہوا تو صدیوں پہلے پیش آنے والے واقعات آج تک مسلمان کو گروہوں میں تقسیم کیے ہوئے ہیں۔
وحدت اُسی وقت وجود میں آتی ہے جب انسانوں کا ایک گروہ چند بنیادی امور پر اتفاق کر لیتا ہے۔ گویا وہ اپنے گرد ایک حصار کھینچ لیتا ہے۔ گروہ کے سب اراکین پر یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ حدود ہیں جن سے باہر نہیں جانا۔ ان کے اندر البتہ اختلاف کیا جائے گا اور ان کا حل بھی اس حصار میں رہتے ہوئے تلاش کیا جائے گا۔ جدید ریاست اسی طرح وجود میں آتی ہے۔
پاکستان بھی ایک ریاست اور وحدت کا نام ہے۔ چند امور پر ہمارا اتفاق ہے۔ اہلِ پاکستان کی اکثریت اُن پر متفق ہے۔ ان میں سے بعض فطری ہیں اور بعض جدید ریاست کے تصور سے پھوٹی ہیں۔ جہاں کی آبادی 97فیصد مسلمان ہو‘ وہاں اسلام وحدت کا فطری مظہر ہے۔ یورپ کی عظیم اکثریت مسیحی ہے۔ اس لیے 'مسیحی یورپ‘ کو ایک فطری وحدت سمجھا جاتا ہے۔ جدید ریاست کی وحدت کا انحصار ان امور پر ہے جن پر تمام شہری اتفاق کر لیں۔
ان میں آئین‘ قومی سیاسی جماعتیں اور ریاستی ادارے بنیادی حیثیت رکھتے ہیں جن سے کسی کو اختلاف نہیں۔ سب مانتے ہیں کہ ریاست اور شہریوں کے باہمی معاملات آئین کے تابع ہیں اور یہ وحدت کا ایک ایسا مظہر ہے جو ہمارے اختلاف کے لیے حد طے کرتا ہے۔ اس سے باہر کوئی نہیں جا سکتا۔ اسی طرح وہ سیاسی جماعتیں جو ملک کے ہر حصے میں نمائندگی رکھتی ہیں‘ وہ بھی وحدت کی علامت ہیں۔ یہی معاملہ ریاستی اداروں کا ہے۔
ان اداروں میں عدلیہ‘ پارلیمان اور فوج شامل ہے۔ اس بارے میں دو آرا نہیں کہ عدالت کا فیصلہ کسی کے خلاف ہو یا اس کے حق میں‘ قبول کیا جائے گا۔ عدالت کی عزت سب پر لازم ہو گی اور اسے گلی بازار کا موضوع نہیں بنایا جائے گا۔ اسی طرح فوج ہے۔ فوج کا ادارہ ملک کی حفاظت کے لیے وجود میں آیا۔ اس کے احترام کے بارے میں بھی دو آرا نہیں ہو سکتیں۔ ہمیں کسی جج کے انفرادی فیصلے سے اختلاف ہو سکتا۔ اسی طرح فوج سے بھی شکایت ہو سکتی ہے۔ ہم اختلاف کے اظہار کا حق رکھتے ہیں لیکن ان اداروں کو کبھی بازیچہ اطفال نہیں بنا سکتے۔ یہ ادارے گلی بازار کا موضوع نہیں بن سکتے۔ ان اداروں سے شکایت کے لیے بھی قانون نے راستہ دیا ہوا ہے۔ اگر ضرورت پڑے تو اسی راستے کو استعمال کرنا چاہیے۔
اداروں کا احترام کیوں ضروری ہے؟ اس لیے کہ انہیں اختلافی بنانے سے وہ وحدت مجروح ہوتی ہے جس کا نام پاکستان ہے۔ آئین بھی انسان کی بنائی ہوئی ایک دستاویز ہے۔ اس میں بھی غلطی کا امکان ہوتا ہے۔ اس کو بھی مسلسل اصلاح کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمارے آئین میں تئیس ترامیم ہو چکی ہیں۔ اس کی بعض شقوں پر اب بھی سوال اٹھائے جاتے ہیں۔ یہ ترامیم ایک ضابطے کے تحت ہوئیں جو آئین اور قانون میں طے ہو گیا ہے۔ یہی معاملہ عدلیہ اور فوج پر تنقید کا بھی ہے۔
عمران خان صاحب نے ان اداروں کو بازیچہ اطفال بنا دیا ہے اور اس ملک میں ایک نئی روایت ڈالی ہے۔ ان اداروں پر تنقید خان صاحب کی ایجاد نہیں۔ لوگ پہلے بھی سوال اٹھاتے رہے ہیں لیکن یہ بات ان کی نظروں سے کبھی اوجھل نہیں ہوئی کہ اداروں کا وجود ہماری قومی ضرورت ہے اور ہم ان کو کھیل تماشا نہیں بنا سکتے۔ ادارے فرد کی انا سے بڑے ہوتے ہیں اور ہم اس بات کو کبھی فراموش نہیں کر سکتے۔ مہذب معاشروں میں ادارے ریڈ لائن ہوتے ہیں‘ افراد نہیں۔
ہمارے سیاسی رہنما اختلاف اور تقسیم کے فرق سے واقف تھے۔ اس کا تو تصور نہیں تھا کہ ان اداروں کو قوم میں متنازع بنایا جائے۔ بند کمروں کی مجالس میں تلخ باتیں بھی ہوتی تھیں مگر ایسا کبھی نہیں ہوا کہ ان باتوں کو عوامی بیانیے کا حصہ بنایا گیا ہو۔ ہمارے اہلِ سیاست نے اپنی کتابوں میں ان واقعات کا ذکر کیا ہے اور کئی سال بعد۔ انہوں نے اس بات کو پیشِ نظر رکھا کہ اداروں کا احترام عوام کی نظروں میں باقی رہے۔
1970ء ہماری تاریخ کا شاید سب سے بحرانی دور تھا۔ اُن دنوں میں صدر یحییٰ خان مشرقی پاکستان کے دورے پر گئے۔ انہوں نے ڈھاکہ میں سیاسی جماعتوں کے قائدین سے ایک ملاقات کی۔ ان میں جماعت اسلامی کے مقامی امیر خرم مراد مرحوم بھی شامل تھے۔ خرم صاحب نے اس کی تفصیل اپنی کتاب ''لمحات‘‘ میں بیان کی ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ملاقات کتنی تلخ تھی۔ اس کے باوصف جب پاکستان پر مشکل وقت آیا تو جماعت اسلامی فوج کے ساتھ کھڑی تھی۔ وجہ یہ ہے کہ معاملہ قومی سالمیت اور جغرافیائی وحدت کا تھا اور ایسے عالم میں آپ فوج کونقصان پہنچانے کے درپے نہیں ہوتے۔
ہماری تاریخ میں ایسی ہر کوشش مذموم تصور کی گئی ہے جس کا مقصد اداروں کو تقسیم کرنا ہو۔ بدقسمتی سے آج ایسا نہیں ہے۔ خان صاحب نے قومی اداروں بالخصوص فوج کے بارے میں جو رویہ اپنایا ہے‘ یہ قومی وحدت پر حملہ ہے۔ اہم اداروں کے سربراہوں کو کبھی برے القاب سے پکارا جا رہا ہے۔ کبھی بلا ثبوت سنگین الزامات لگائے جا رہے ہیں۔ یہ سب کچھ عوامی جلسوں اور میڈیا پر ہو رہا ہے۔ یہی نہیں سوشل میڈیا پر لوگوں کو بے لگام چھوڑ دیاگیا ہے کہ جس ادارے کی چاہیں عزت اچھال دیں۔ یہ قومی سلامتی کے تصور سے مجرمانہ غفلت ہے۔
اس کا سب سے زیادہ نقصان قومی وحدت کو پہنچ رہا ہے۔ اگر وہ ادارے متنازع ہو جائیں جو اجتماعیت اور وحدت کی علامت ہیں تو اس کے بعد قوم کو متحد رکھنے کے لیے ہمارے پاس کچھ نہیں ہو گا۔ خان صاحب کی سیاست اب ان حدود سے دست و گریباں ہو رہی ہیں جن کو باقی رکھنا ہماری قومی ضرورت ہے۔ قوم کو اس بارے میں متنبہ رہنا ہوگا کہ اختلاف اور تفرقے کا فرق ختم ہو رہا ہے۔ مذہبی فرقہ واریت کے نتائج ہم بھگت رہے ہیں۔ اگر قومی وجود کو سیاسی فرقہ واریت کا چرکہ بھی لگایا جائے گا تو وہ اس کامتحمل نہیں ہو سکے گا۔
سیاسی جماعتوں‘ سول سوسائٹی اور میڈیا کو دیکھنا ہوگا کہ کیا وہ ایک ایسے ایجنڈے کا ساتھ دے سکتے ہیں جو قومی وحدت ہی کو خطرے میں ڈال دے؟ جو اختلاف اور تقسیم کے فرق کو مٹا دے؟ کیا آزادیٔ رائے کے نام پر ہر اس بنیاد کو چیلنج کیا جا سکتا ہے جس پر پاکستان کی عمارت کھڑی ہے؟ جمہوریت کا مطلب شتر بے مہار ہونا نہیں‘ دوسروں کے مقابلے میں زیادہ ذمہ دار ہونا ہے۔